ہرن مینار سے پیروارث شاہ تک

تحریر: این اے ساحر
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گرمی اپنے عروج پر ہے جسکی وجہ سے انسان توایک طرف حیوان اوردرخت بھی مرجھائے نظرآتے ہیں موجودہ صورتحال کے پیش نظرگرمی اورلوڈشیڈنگ کودیکھتے ہوئے اگر ان کی زبان ہوتی توشائد یہ بھی کہیں نہ کہیں حکومت سے نالاں نظرآتے،اس صورتحال کے باوجودپچھلے دنوں کے دوران عوامی پریس کلب کاہنہ کے چیف ایگزیکٹواستادمحترم جناب ایم اے تبسم صاحب کی کال موصول ہوئی اور ان کا حکم نامہ جاری ہوا کہ ہفتہ کے روز عوامی پریس کلب کاہنہ کا وفد ہرن مینار اور پیروارث شاہ کے مطالعاتی دورہ کے لئے شیخوپورہ جارہا ہے،ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہم نے تیاری پکڑی اور رمضان المبارک سے ایک دن قبل ہفتہ کی صبح 10 بجے کے قریب عوامی پریس کلب کاہنہ کا 5رکنی وفدجن میں عوامی پریس کلب کاہنہ کے گروپ لیڈرمحمداشفاق بھٹی،صدرسیدصدا حسین کاظمی ،نائب صدر منیراحمدیاسر اور بندہ ناچیز این اے ساحر جناب ایم اے تبسم صاحب کی قیادت میں روانہ ہوئے شاہ صاحب نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور بیٹھتے ہی کہا کہ ٹھنڈے پانی کی بوتل پیش کی جائے شاہ صاحب نے موجودہ گرمی کی شدت کو سامنے رکھتے ہوئے ACآن کیا ،لیکن ایک منٹ اندر اندر ہم تمام لوگ پسینے میں نہا گئے ،ایم اے تبسم صاحب گرمی سے بلبلا اٹھے اور بے ساختہ کہنے لگے شاہ صاحب یہ آپ نے کیسا ACآن کیا ہے ؟کہ گاڑی کے اندر گرمی کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے،پتہ چلا کہ شاہ صاحب نے ACکی بجائے ہیٹرآن کردیا ہے،یہ تھا ہمارا آغازسفر،ہم براستہ سگیاں پل شیخوپورہ روڈ اور شیخوپورہ سے سرگودھا روڈپہنچے وہاں ہمارے بہت ہی پیارے دوست حامدقاضی (سینئرایڈیٹر)پاورپوائنٹ نیوزنیٹ ورک ،ڈاکٹرایم ایچ بابر (ڈپٹی ایڈیٹر) پاورپوائنٹ نیوزنیٹ ورک کے ساتھ عوامی پریس کلب کاہنہ کے وفد کے منتظرتھے،پرتپاک استقبال کے بعد قاضی صاحب کے آفس پہنچے جہاں ایک پرتکلف اور تعویذات کے بغیر دیسی چائے کا انتظام پہلے سے موجودتھا،چائے کے دوران بات چیت کرتے ہوئے پتا چلا کہ حامدقاضی صاحب معذور بچوں کی تعلیم وتربیت کا مکمل خرچہ اور ان کے علاج کیساتھ کپڑوں کا انتظام بھی کرتے ہیں اس این جی اوکی سب سے اہم بات یہ تھی ،جس سے میں متاثرہواکہ وہ یہ سارا خرچہ اپنے تئیں آپ کرتے ہیں اس میں کسی سیاسی یا سماجی شخصیت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے،ہم نے چائے ختم کی اور ہرن مینارکی طرف روانہ ہوئے جوکہ قاضی صاحب کے آفس سے صرف دس سے پندرہ منٹ کی مسافت پر واقع ہے،

ہرن مینار دراصل ایک یادگار ہے جوکہ مغل بادشاہ جہانگیر نے بنوائی تھی اس یادگار کا نام اس لئے رکھا گیا تھا کہ جہانگیر کا ایک ہرن تھاجس کا نام راج ہنس تھا چونکہ یہ جگہ مغلوں کی ایک شکار گاہ تھی،یہاں ایک جھیل ہے جس کے اندر ایک بارہ دری تعمیر کروائی گئی تھی جہاں مغل شہزادے اور شہزادیاں شکارکے بعد آرام کیا کرتے تھے ایک گھوڑوں اور ہاتھیوں کا اصطبل تھا اورایک وسیع پارک نما باغ جس میں قسم قسم کی پگڈنڈیاں تھیں جس کو اب باقاعدہ سڑکوں کی شکل دے دی گئی ہے اس یادگار کی سب سے اہم چیزہرن مینارہے،جومغل بادشاہ جہانگیرنے تعمیرکروایا جہانگیرکا ایک بہت خوبصورت لاڈلہ ہرن راج ہنس کسی وجہ سے مرگیا جس کی یاد میں جہانگیر نے اس کی قبر بنوائی اور قبرکے ساتھ ایک عالی شان مینار تعمیرکروایا جو مغل دور کی فن تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہے،ہم نے گاڑیاں پارک کیں اور واک تھرو گیٹ سے گزرکر اندرداخل ہوگئے سامنے ایک وسیع پارک کے کے ساتھ جھیل واقع تھی جھیل میں بارہ دری کی عمارت مغل سلطنت کی شان وشوکت کی عکاسی کررہی تھی گرمی کی شدت بڑھ گئی تھی جھیل کو دیکھتے ہی ایم اے تبسم صاحب نے کشتی رانی کا حکم صادرفرمایا جس کو سن کر شاہ صاحب چپ نہ رہ سکے اوربولے قاضی صاحب جھیل کے پانی کی گہرائی کتنی ہے ان کے منہ سے یہ جملہ سن کر قہقہے گونج اٹھے قہقے سن کر شاہ صاحب نے کہا کہ اصل میں میرے کہنے کا مطلب ہے کہ خدانخواستہ ایمرجنسی حالات کے پیش نظر ان کشتی والوں کے پاس حفاظتی اقدامات موجود ہوتے ہیں یا کہ اپنی مددآپ ہی اپنا بچاؤ کرنا پڑتا ہے اگرایسا ہے تو میں اپنا بندوبست کرکے بیٹھوں۔ان کی اس بات پر ایک بار پھر قہقہے گونج اٹھے،ڈاکٹرایم ایچ بابر نے کیمرہ سنبھالا اور تمام دوستوں کی بارہ دری اور یادگار کی تصویریں بنائیں وہاں سے ہرن مینار کنٹین پہنچے پانی کی بوتلیں لیں اور محترم راج ہنس کی قبر پر حاضری کے بعد ہم مینارکی سیڑھیوں میں بیٹھ گئے اور ڈاکٹرصاحب نے پھر اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے تصویریں بنانا شروع کیں،وہاں سے ہم بارہ دری کی بندرگاہ پہنچے جہاں چپوؤں والی اور انجن بوٹس موجودتھیں،ایم اے تبسم صاحب نے تجویزپیش کی کہ شاہ صاحب کشتی کے درمیان میں بیٹھیں گے جبکہ اشفاق بھٹی صاحب نے کہا کہ چپووالی کشتی پربیٹھا جائے لیکن گرمی کی شدت کوسامنے رکھتے ہوئے ہم سب انجن والی کشتی میں سوار ہوگئے کشتی میں بیٹھتے ہی شاہ صاحب نے ملاح سے پوچھا جناب پانی کی گہرائی کتنی ہے،اس نے جواب دیا یہی کوئی چار سے پانچ فٹ ،جس پر شاہ صاحب نے سکون کا سانس لیا،کشتی کا انجن اسٹارٹ ہوا اور ہم نے جھیل کے اطراف کا جائزہ لینا شروع کردیا جھیل کے چاروں طرف خوبصورت اور سرسبزدرخت اور پھول دارپودے تھے جبکہ ان کے ساتھ پانی کے فوارے تھے جوکہ ہماری سیرکے مزے دوبالا کررہے تھے کشتی نے جھیل کا چکر لگایا اور جھیل کی بندر گاہ پرلنگر اندازہوگئی ہم کشتی سے نیچے اترے اور کنٹین کے سامنے ایک درخت کے نیچے کرسیوں پر بیٹھ گئے قاضی صاحب نے دہی بھلے منگوائے ڈاکٹرصاحب سے بولے چلئے ڈاکٹر صاحب اب ذرا اپنے دوسرے روپ میں آجائیں ہم سب نے بیک وقت ڈاکٹرصاحب کی طرف دیکھا کہ ان کا دوسرا روپ کون سا ہے،جس کا ہمیں نہیں پتا ڈاکٹرصاحب نے پوزیشن سنبھالی اور ڈاکٹرسے گلوکار بن گئے ،پاکستان کی موجودہ صورتحال ،لوڈشیڈنگ،مہنگائی اور دہشتگردی پرایک پیروڈی سنانے کے بعد انہوں نے ابرارالحق کے مشہور زمانہ گیت’’ نچ مجاجن نچ ‘‘کی پیروڈی سنائی اور اس کے بعد جوہوا وہ شائد قلم سے بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں،مشہور پنجابی گانا ’’پیندی اے برسات وے‘‘کی پیروڈی تھی سامنے شاہ صاحب تھے قہقہے تھے تالیاں تھیں سیٹیاں تھیں ،یوں کہیے کہ قہقہوں کا ایک سیلاب تھا جو اس وقت ہرن مینار پر امڈآیا تھا ،اشفاق بھٹی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ مخبر ی کرکے خاص طور پر شاہ صاحب پر پیروڈی لکھوائی گئی ہے،جبکہ ایم اے تبسم صاحب کا کہنا تھا کہ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے کچھ نہیں بتایا کہ شاہ صاحب کے 12بچے ہیں ،سب اپنا اپنا پیٹ پکڑ کر ہنس رہے تھے جبکہ شاہ صاحب صرف مسکرا رہے تھے یہ نشست تقریبا ایک گھنٹہ جاری رہی ،اس کے بعد ہم شکار گاہ اور اصطبل کی طرف روانہ ہوئے شکارگاہ میں جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں ،گھنے درختوں کا ایک طویل سلسلہ تھا وہیں اصطبل کے آثار ہیں گھنی جھاڑیوں میں پہنچتے ہی شاہ صاحب بولے باس یہ جگہ خطرے سے خالی نہیں ہے ہم کسی کیڑے مکوڑے کوچھیڑبیٹھے توکام خراب بھی ہوسکتا ہے جس پرہم سب ایک بار پھر ہنس پڑے ڈاکٹرصاحب نے بتایا کہ پچھلے دنوں ڈیڑھ سے دوفٹ موٹا اور 20سے 25فٹ لمبا اژدھا پکڑا گیا ہے جس پر شاہ صاحب نے کہا تبسم صاحب ہمیں یہاں ذیادہ دیر نہیں رکنا چاہیے بھٹی صاحب نے کہا شاہ صاحب پریشان نہ ہوں ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں لیکن شاہ صاحب نے ان کی ایک نہ سنی اور ہمیں مجبورا شاہ صاحب کے پیچھے پیچھے ہرن مینار سے واپس آنا پڑا،واپس آکرگاڑیوں میں بیٹھے اورجنڈیالہ شیرخان کی جانب روانہ ہوگئے جوکہ وہاں سے پانچ سے سات منٹ کی مسافت پرواقع ہے،جنڈیالہ شیرخان میں مشہورصوفی بزرگ حضرت پیروارث شاہ جن کو پنجابی کا شیکسپیئربھی کہا جاتا ہے ان کے مزاراقدس پر جب ہم پہنچے تو دوپہرکے چار بج چکے تھے گاڑیاں پارک کرنے کے بعد جب ہم مزارکے اندر پہنچے توزائرین کی ایک بڑی تعدادمزارکے اندر موجودتھی،ہمیں دیکھ کر مزار کی انتظامیہ نے فورا تمام زائرین کو مزار سے باہر نکال دیا اور ہمیں حاضری کے لئے کلیئرنس کا اشارہ دیا،ہم سب مزار کے اندر داخل ہوئے ،فاتحہ خوانی کی ،مزار کے اندر بہت پرسکون فضا ء تھی فاتحہ خوانی کے بعد ہم لوگ باہر آئے تو سامنے وارث شاہ لائبریری ہے جہاں ہیروارث شاہ کے علاوہ بہت سا دوسرا پنجابی لٹریچربھی موجود ہے،لائبریری سے نکلے تو لائبریری کے دائیں جانب ایک طویل برآمدہ نما عمارت میں ہیروارث شاہ کے کلام کی آوازیں آرہی تھیں اچانک ایک عجیب وغریب حلیہ کا انسان نمودار ہوا جس نے سبز رنگ کا لبا س پہن رکھا تھا گلے میں ایک موٹے موتیوں کی مالا لمبے بال جس میں اس نے کم ازکم ایک پاؤسرسوں کا تیل لگایا ہوا تھاجس کی وجہ سے جب وہ چلتا توبالوں کی لٹیں جھولنے لگتیں ان لٹوں کو دیکھ کر مجھے وہ مٹی کے تیل والے چولہے کی بتیاں یاد آگئیں آدھے گنجے سروالا یہ انسان ہمیں اس برآمدے میں لے آیا جہاں ہیروارث شاہ پڑھی جارہی تھی اس نے ہمارے لئے چٹائی بچھائی اور خودفرش پربیٹھ گیامیں حیران تھا کہ یہ انسان ہمیں اتنا پروٹوکول کیوں دے رہا ہے لیکن ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے کہا کہ اجازت ہے جناب ؟قاضی صاحب نے اثبات میں سرہلایا اور اس شخص نے ہیروارث شاہ پڑھنا شروع کی،کہ مجھے وہ لطیفہ یاد آگیا کہ ایک گلوکار کسی محفل میں گارہا تھا کہ اچانک ایک شخص تلوار لے کر اندر داخل ہوا گلوکار ڈرگیا اور تلوار والے آدمی سے معافی مانگنے لگا ،تلوار والے آدمی نے گلوکار سے کہا کہ تم گاتے رہو میں تواس آدمی کوڈھونڈ رہا ہوں جوتمہیں یہاں لے کر آیا ہے،افسوس کی بات یہ تھی کہ ہمیں بھی اس شخص کا علم نہیں تھا جس نے اسے ہماری طرف بھیجا تھا مجھ سے رہا نہ گیا،اورمیں نے اسے خاموش ہونے کا اشارہ کیا وہ چپ ہوگیا تومیں نے ہیر کی طرز پر تین چار شعرکہے توآس پاس بیٹھے کچھ بزرگ ہمارے قریب آکر بیٹھ گئے تمام دوستوں نے اور وہاں بیٹھے دیگر لوگوں نے داددی،لیکن میں اپنی جگہ حیران تھا اور میرے ذہن میں وہی سوال اٹکا ہوا تھا کہ آخر کار یہ انسان ہمیں یہاں کیوں لے کرآیا اور ہمیں ہیروارث شاہ کیوں سنائی ،خیرہم وہاں سے اٹھے اور باہرآگئے ،ہم آگے تھے اور حامدقاضی ،ڈاکٹرایم ایچ بابر پیچھے تھے ہم آکر گاڑیوں میں بیٹھے اور وہاں سے نکل پڑے ،بھوک زوروں پرتھی اور ہماری اگلی منزل کوکورومہ تھی،کوکورومہ اصل میں حامدقاضی کا ایک فاسٹ فوڈ پوائنٹ ہے ،

جس کی سب سے اچھی چیز کوکورومہ اسپیشل پیزہ ہے ویسے تو وہاں زنگربرگر شوارما وغیرہ کے ساتھ آئس کریم بھی دستیاب ہوتی ہے لیکن کوکورومہ اسپیشل پیزہ کی کیا بات ہے،اس کی تعریف اس لئے کررہا ہوں کہ قاضی صاحب نے بتایا کہ بہت سے نام نہاد پیزہ ہٹ کے مالکان بھی اپنے گھرکے لئے پیزہ کوکورومہ اسپیشل ہی لے کرجاتے ہیں ،اور اس میں کوئی شک بھی نہیں تھا،پرتکلف کھانے کے بعد ہم قاضی صاحب کے آفس آگئے ایک بار پھر دیسی چائے کا دور شروع ہوا تو مجھ سے رہا نہ گیا میں نے حامدقاضی سے پوچھا کہ وہ ہیروارث شاہ سنانے والا شخص کون تھا ،کیا وہ ہمیں جانتا تھا جس کی وجہ سے وہ ہمیں پروٹوکول دے رہا تھا توقاضی صاحب کیساتھ ساتھ ڈاکٹرصاحب بھی مسکرا پڑے اور کہنے لگے جناب وہ جان پہچان والا نہیں تھا بلکہ وہ یہ کام پیسوں کے لئے کررہا تھا یہ سن کرمیں دم بخود رہ گیا اور میری حالت عجیب وغریب ہوگئی تھی،میں سوچ میں پڑگیا چندلمحوں کے لئے میں قاضی صاحب کے آفس سے کہیں اور پہنچ گیا،میں یہ سوچنے لگا کہ اگر ان جیسے لوگوں کوپاکستان کا حکمراں بنا دیا جائے توپاکستان کا اربوں ڈالر کا فائدہ ہوسکتا ہے،نہ الیکشن کا خرچہ نہ پروٹوکول نہ وزیروں کا وی آئی پی پروٹوکول ،نہ وزیراعظم ہاؤس،نہ پارلیمنٹ اور نہ سینٹ کا خرچہ کیونکہ ان سے بہتر کون مانگ سکتا ہے،ان سے بہترکون قصیدہ گوئی کرسکتا ہے میں سوچ رہا تھا اگر ان لوگوں کوبلواکر ہمارے سیاستدان کچھ رہنمائی لیں تو یقیناپہلے سے بہتر کام کرسکتے ہیں ،میری سوچ کے بے لگام گھوڑے پتا نہیں کس طرف جا رہے تھے کہ اچانک ایم اے تبسم صاحب نے کہا کہ قاضی صاحب اب ہمیں اجازت دیں میں چونکا اور اٹھ کھڑا ہوا ہم سب نے ڈاکٹرایم ایچ بابر اورحامدقاضی سے رخصت لی اور گاڑی میں آکربیٹھ گئے لیکن میرے ذہن سے ہیروارث شاہ کے مزار کا منگتا اور موجودہ حکمران نہیں نکل رہے تھے میں انہیں سوچوں میں گم تھا ،مجھے نہیں پتا کب ہم مسلم ٹاؤن موڑ لاہور پہنچے پتا تب چلا جب اشفاق بھٹی صاحب نے وہاں مشہورقلفی میرے ہاتھ میں تھما دی میرا ذہن دوبارہ کار میں لوٹ آیا قلفی کھاتے ہوئے اور خوش گپیاں کرتے ہوئے ہم کاہنہ پہنچے اور ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور اپنے اپنے گھروں کوچل دیے۔

Ibtasam Tabassum
About the Author: Ibtasam Tabassum Read More Articles by Ibtasam Tabassum: 23 Articles with 18093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.