عائشہ نام تھا اپنے بھانجے عبد اﷲ بن زبیر ؓ کے تعلق سے
ام عبد اﷲ کنیت تھی اپنی کوئی اولاد نہ تھی اس لئے آپ ؓ کے بھانجے سے منسلک
تھی ماں کا نام زینب اور ام رومان تھا بعثت نبوی ﷺ کے چار برس بعد پیدا
ہوئی سن ۱۰ نبوی میں آپ ﷺ کے ساتھ نکاح ہوا اس وقت آپ ؓ کی عمر چھ سال تھی
آپﷺ سے پہلے جبیر بن مطعم کے صاحبزادے سے منسوب تھیں۔حضرت خدیجہ ؓ کے
انتقال پر ملال کے بعد خولہ بنت حکیم نے نکاح کی تحریک کی کوشش کی آپﷺ نے
رضا مندی ظاہر فرمائی خولہ نے ام رومان سے کہا انہوں نے حضرت ابوبکر ؓ سے
بات کی وہ بولے میں جبیر بن مطعم سے وعدہ کر چکا ہو اور میں صدیق وعدہ
خلافی نہیں کرتا لیکن جبیر بن مطعم نے خود انکار کر دیا کے اگر ان کے گھر
صدیق کی بیٹی آ گئی تو ان کے گھر اسلام کا مظبوط قدم آ جائے گا ۔بعد ازا
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خولہ کے زریعے آپ ﷺ کے ساتھ نکاح کر دیا چار سو درہم
حق مہر قرارپایالیکن مسلم شریف میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے
روایت ہیکہ ازواج مطہرات کا مہر پانچ سو درہم ہوتا تھا نو برس کی عمر میں
سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی کہ ام رعمان نے پاس بلایا اور منہ ہاتھ
دھویا بال درست کیے چاشت کے وقت حضور ﷺ تشریف لائے اور رسم عروسی ادا ہوئی
شوال میں ہی نکاح ہوا اور شوال میں ہی رخصتی قدیم مکروہ خیال کو مٹانے کے
لئے کی گئی قدیم زمانے میں اس مہینہ میں طاعون آیا تھا اس لئے لوگ اس مہینہ
میں شادی کرنا معیوب سمجھتے تھے سیدہ طیبہ طاہرہ عفیفہ کائنات ام المومنین
سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی پاکیزگی طہارت و برات کے
لئے اﷲ پاک نے سترہ آیات نازل فرما کر قرآن کا حصہ بنا دی۔آپ ؓ کے بستر پر
بھی وحی نازل ہوئی یہ اعزاز ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کو سب سے منفرد
حاصل ہے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ حضور ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تر
تھی لیکن عام انسانوں جیسے اسباب محبت نہ تھے حسن صورت میں حضرت صفیہ ؓ ان
سے بڑھ کر تھی اور کمسن بھی مگر ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کی قابلیت
ذہانت قوت اجتہاد دقت نظر وسعت معلومات اور حاضر ذماغی ایسے اوصاف تھے جو
ان کی ترجیح کا اصل سبب تھے بچپن میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ اپنی
سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی آپ ﷺ کا پاس سے گزر ہوا آپ ﷺ نے پوچھا عائشہ
ہاتھ میں کیا ہے آپ نے بتایا یا رسول اﷲ ﷺ یہ گھوڑا ہے آپ ﷺ نے فرمایا گھو
ڑے کے پر نہیں ہوتے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا حضرت سلیمان
علیہ السلام والے گھوڑے کے بھی تھے آپ ﷺ جواب سن کر مسکرا دیے اور حاضر
دماغی کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے ایک دفعہ آپ ﷺ گھر میں تشریف لائے اور
فرمایا عائشہ تو مجھے ثریدسے زیادہ محبوب ہے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ
ؓ نے فوراً جواب میں فرمایا یا رسول اﷲ ﷺ آپ مجھے مکھن میں شہد ملا کر
کھانے سے زیادہ محبوب ہیں آپ ﷺ جواب سن کر مسکرا دیے اور فرمایا عائشہ
تمھارا جواب مجھ سے بہتر ہے ایک دفعہ چند ازواج نے حضرت فاطمہ ؓ کو سفیر
بنا کر بھیجا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ جان پدر کیا تم نہیں چاہتی کے جیسے
میں چاہتا ہو ں آپ ؓ نے واپس جا کر فرمایا میں ازواج مطہرات کے معاملے میں
دخل نہ دوں گی اس کے بعد اس سفا رش کے لئے حضرت زینب ؓ منتخب کی گئیں
کیونکہ انہیں خصوصیات کے ساتھ حضرت عائشہ کی ہمسری کا دعوی تھا انہوں نے یہ
پیغام بڑ ی دلیری کے ساتھ ادا کیا بڑے زور و شور سے یہ ثابت کرنا چاہا کے
حضرت عائشہؓ اس رتبہ کی مستحق نہیں ہیں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ
حضور ﷺ کے چہرہ انور کی طرف تکتی رہی حضرت زینب ؓ جب تقریر کر چکی تو حضرت
عائشہ نے موقع پا کر اس قدر شاندار اور دلائل سے مزین گفتگوکی کے حضرت زینب
ؓ لاجواب ہوگئی آپ ﷺ نے فرمایا کیو ں نہ ہو ابو بکرؓ کی بیٹی ہے حضرت عمر
بن العاص ؓ نے حضور ﷺ سے پوچھا اے محبوب خدا ﷺ آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب
ہے آپ ﷺ نے فوراً فرمایا عائشہ ایک دفعہ حضور ﷺ نے ام المومنین سیدہ عائشہ
صدیقہ ؓ سے فرمایا عائشہ جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو میں سمجھ جاتا ہو ں
۔آپ ؓ نے پوچھا وہ کیونکر ارشاد ہوا جب تم مجھ سے خوش رہتی ہو اور قسم
کھاتی ہو تو کہتی ہو محمد ﷺ کے رب کی قسم اور جب ناراض ہو جاتی ہو تو کہتی
ہو ابراہیم کے رب کی قسم ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرمایا یارسول اﷲ
ﷺ میں صرف آپ کا نام چھوڑتی ہو آپ کو نہیں ۔ایک دفعہ آپ ﷺ کے دوش مبارک پر
رخسار رکھ کر دیر تک کھیل دیکھتی رہیں آپ ﷺ آگے کھڑے رہے آپ ﷺ نے پوچھا
ابھی سیر نہیں ہوئی آپ نے فرمایا نہیں آپ ﷺ تب تک آگے کھڑے رہے جب تک حضرت
عائشہ ؓ تھک کر خود ہی نہ ہٹ گئیں۔ایک دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا عائشہ آؤ دوڑ
میں مقابلہ کریں حضرت عائشہ دبلی پتلی تھی آگے نکل گئیں اور پھر اگلی دوڑ
میں وزن زیادہ ہو گیا تھا تو حضور ﷺ آگے نکل گئے اور فرمایا یہ اس دن کا
جواب ہے آپ ﷺحضرت عائشہ ؓ کے ساتھ کھانا تناول فرماتے تھے پیالہ کے جس حصہ
سے حضرت عائشہ منہ لگا کر پانی پیتی اس حصہ سے آپ ﷺ منہ لگا کر پانی نوش
فرماتے آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے حضرت عائشہؓ کو آٹا گوندھنا سیکھایا تھا
اور اکثر گھر کے کام میں آپ ؓ کے ہاتھ بٹاتے تھے حضور ﷺ کو ہر کام میں سب
سے مقدم دین اسلام تھا ۔اس وجہ سے ازواج مطہرات میں بھی سب سے زیادہ منظور
نظر وہ ہی ہوتی تھیں جو دین کی خدمت زیادہ سے زیادہ کر سکے ازوا ج مطہرات
کو باریابی کا زیادہ موقعہ ملتا تھا وہ خلوت وخلوت کی شریک صحبت تھی اس وجہ
سے مذہبی مسائل و احکام کے علم و اطلاع کا بھی سب سے زیادہ انہیں موقعہ مل
سکتا تھا لیکن ضرورت اس امر کی تھی کے مسائل کو سمجھنے اور نکات شریعت کی
تہہ تک پہنچنے کی قابلیت جس قدر ہو گی اس قدر دین کے سمندر میں غوطہ زن ہو
نا آسان بات تھی حضرت عائشہ ؓ مجتہدانہ دل و دماغ رکھتی تھی اس لئے قربت
رسول ﷺ کا اس قدر فائدہ اٹھا سکی بڑے بڑے نازک و دقیق مسائل میں اکابر
صحابہ ؓ سے مخالفت کرتی تھیں اور انصاف بالائے اطاعت است اکثر مسائل میں
انکی فہم و دقت نظر کا پلہ بھاری نظر آتا تھا خلفاء راشدین کے زمانے میں
فتوی دیتی تھیں اکابر صحابہ ؓ پر انہوں نے دقیق اعترازات کئے ہیں جن کو
علامہ سیوطی نے ایک رسالہ میں جمع کیا ہے آپ ؓ سے ۲۲۱۰روایات مروی ہیں ایک
قول کے مطابق احکام شریعہ کا چوتھائی حصہ ان سے منقول ہے صحابہ اکرام ؓ کے
مشکل ترین مسائل حضرت عائشہ ؓ حل فرمایا کرتی تھی ان کے شاگردوں کا بیان ہے
کہ ہم نے ان سے زیادہ خوش تقریر نہیں دیکھا تفسیر حدیث اسرار شریعت خطابت
اور ادب و انساب میں ان کو کمال حاصل تھا شعراء کے بڑے بڑے قصیدے ان کو
زبانی یاد تھے آپ ﷺ کے مرض الاوفات میں حضرت عائشہ ؓکے گھر تشریف لے گئے
آخری چیز جو حضور ﷺ کے منہ مبارک میں گئی وہ عائشہ ؓ کی چھبائی ہوئی لعاب
زدہ مسواک تھی جس کو آپ ﷺ نے استعمال فرمایا اور حضرت عائشہ ؓ کی گود میں
سر رکھ کر رفیق اعلیٰ سے جاملے آپ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ میں دفن کئے گئے
جو جنت کا ٹکڑا ٹھہرا حضرت عائشہ ؓ نے حضور ﷺ کے ساتھ تقریباً نو برس زندگی
بسر کی نو برس کی عمر میں آپ ﷺ کے پاس آئیں تھیں اور جب آپ ﷺ کا وصال ہوا
آپ کی عمر اٹھارہ برس تھی ۔حضور ﷺ کے بعد حضرت عائشہ ؓ تقریباً اڑتالیس سال
زندہ رہی سترہ رمضان المبارک سن چھپن ہجری میں وفات پائی اس وقت آپ کی عمر
۶۶ سال تھی آپ ؓ کو آپ کی وصیت کت مطابق جنت البقی میں رات کے وقت دفن کیا
گیا مدینہ کے حاکم سیدنا ابوہریرہ ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی قسم بن محمد ،عبد
اﷲ بن عبد الرحمان ، عبد اﷲ بن ابی عتیق،عبداﷲ بن زبیر اور عروہ بن زبیر ؓ
نے قبر میں اتارا ۔
سلام لاتے ہیں ہزاروں نوری تیرے ہی در پر اے امی عائشہ ؓ
ترے مقدر کا تا قیامت نہیں کوئی ہمسر اے امی عائشہ ؓ |