اعتکاف ہے قدر کے لیے

{وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ
وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ } (البقرة 126)

اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجودکرنے والوں کے لئے خوب پاک وصاف ستھرابنائے رکھو۔

ماہِ رمضان روحانیت کا موسم بہارہوتا ہے۔اس میں قربِ خدا وندی کے حصول کے بہت سے مواقع ہوتے ہیں ۔ پہلے دن سے ہی رحمتوں کی پھوار عاملین ذکر وفکر حاملین صوم وصلوٰۃ کے فیروز مندیوں میں روز افزوں اضافہ کرتی ہوئی اس ماہ مبارک کی ساعتوں کے ہر ہر لمحات کو دل وجان میں سمو لینے کا درس عمل دیتی ہے جیسے جیسے اس ماہ مبارک کے شب وروز ایک بندۂ مومن کی زندگی میں داخل ہوتے جاتے ہیں اور وہ ان کے فیضان کو کشید کرتا جاتا ہے خدا کی رحمت اس عامل صادق پر ٹوٹ کر برستی ہیں اور وہ ان کے صدقے مغفرۃ ربانی کا حق دار ہوتا ہے پھر گناہوں سے پاکی اس کے مسام جاں میں عبادتوں کو یوں پیوست کردیتی ہے کہ ہر آن اسے جلوئے ربانی کی تڑپ ،ذکر وفکر کی للک بے چین کئے رہتی ہے اس کے سکون کیلیے رب کی یاد اسے دنیا سے بے گانہ کر در خدا پر بھیئت فقیرانہ لا کر بٹھا دیتی ہے کیونکہ جسمانی غذا جسم کو فائدہ پہنچائے لیکن یہ روح کی نا آسودگی روحانی بھوک دنیاوی غذاوں سے کہاں قرار پائے اس لیے کے روح تو امر رب ہے
قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي (أل الاسراء، 85)
آپ فرمادیجئیے کہ روح میرے رب کا حکم ہے،
اس کے سکون کا ذریعہ تو عبادت الٰہی ،یاد خداوندی کے سوا اور کچھ ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ(الرعد، 28)
جو لوگ ایمان ﻻئے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان،تسلی حاصل ہوتی ہے
روح کا مرکز دل ہے لہذا دل کا اطمینان حقیقت میں روح کا ہی مطمئن ہونا ہے جس کا ذریعہ خدا کی یاد ہی ہے
وہی ذوق عبادت رمضان کےآخری عشرہ میں اعتکاف کےلیےایک بندۂ مومن کو دنیاوی امور اور معاملات سے قطع تعلق کر کے خالصتاً خدا تعالیٰ کے ذکر واذکار میں اپنا وقت صرف کرنے کے لئے اس کے گھر یعنی مسجد میں ڈیرہ ڈال دینے کی آخری راہ سجھاتا ہے۔ تاکہ دن اور رات میں زیادہ سے زیادہ خدا کی عبادت،نوافل،تلاوت کلام پاک،قرآن پر تدبر،ذکر الٰہی اور دعاؤں میں اس کا وقت صرف ہو ۔دل آستانہ الٰہی پر جھکا رہے اور زبان ذکر الٰہی سے تَر رہے۔
روزہ کی طرح یہ عبادت بھی ایسی ہے جس کا ذکر مذاہبِ سابقہ میں بھی ملتا ہے۔شروع میں تلاوت کی گئی آیت میں بھی یہ مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خانہ کعبہ کے طواف اور اس میں اعتکاف کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھنے کا ارشاد فرمایا گیا تھا۔اس سے اعتکاف کرنے والوں کی فضیلت پر بھی خوب روشنی پڑتی ہے۔
ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺہر سال رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔
عَنْ عَائِشَۃَرَضِیَ اللَّہُ عَنْھَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَعْتَکِفُ العَشْرَ الاَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّی تَوَفَّاہُ اللَّہُ ثُمَّ اعْتَکَفَ اَزْوَاجُہُ مِنْ بَعْدِہٖ
(بخاری کتاب الاعتکاف باب الاعتکاف فی العشر الاواخر)

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا بیان کرتی ہیں کہ حضور ﷺکا وفات تک یہ معمول رہا کہ آپ آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور آپﷺ کی وفات کے بعد آپﷺؐ کی ازواجِ مطہرات بھی اسی سنت کی پیروی میں اعتکاف کرتی تھیں۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَعْتَكِفُ فِي كُلِّ رَمَضَانَ عَشْرَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ اعْتَكَفَ عِشْرِينَ يَوْمًا‏
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: نبیﷺ ہر رمضان میں دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے جب وہ سال آیا جس میں آپﷺ کی وفات ہوئی تو آپﷺنے بیس دن اعتکاف کیا
(بخاری کتاب الاعتکاف باب الاعتکاف في العشر الأوسط من رمضان )
اس کا ایک سبب ابن العربی نےیہ بیان فرمایا ہے
وقال ابن العربي : يحتمل أن يكون سبب ذلك أنه لما ترك الاعتكاف في العشر الأخير بسبب ما وقع من أزواجه واعتكف بدله عشرا من شوال اعتكف في العام الذي يليه عشرين ليتحقق قضاء العشر في رمضان ا هـ .
ابن العربی نے کہا :اس کے سبب(بیس دن اعتکاف) میں یہ احتمال ہیکہ جب آپ کی ازواج کے سبب سے (یعنی اعتکاف کے لیے انھوں نے خیمے لگائے تھے) جب آپ نے عشرۂ اخیر کا اعتکاف ترک کیااور اس کے بدلے (قضاء) میں شوال میں دس دن کا اعتکاف کیا تھا تو اسی آنے والے متصل سال میں بیس دن اعتکاف کیا تاکہ عشرہ کی قضاء رمضان میں متحقق ہو جائے،، اس کے اور بھی اسباب بیان کیے گئے ہیں،
اس اعتکاف کا ایک بڑا سبب اصل میں تلاش لیلۃ القدر ہے حدیث پاک میں ہے
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَعْتَكِفُ فِي الْعَشْرِ الأَوْسَطِ مِنْ رَمَضَانَ، فَاعْتَكَفَ عَامًا حَتَّى إِذَا كَانَ لَيْلَةَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، وَهِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي يَخْرُجُ مِنْ صَبِيحَتِهَا مِنِ اعْتِكَافِهِ قَالَ ‏"‏ مَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعِي فَلْيَعْتَكِفِ الْعَشْرَ الأَوَاخِرَ، وَقَدْ أُرِيتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ ثُمَّ أُنْسِيتُهَا، وَقَدْ رَأَيْتُنِي أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ مِنْ صَبِيحَتِهَا، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ، وَالْتَمِسُوهَا فِي كُلِّ وِتْرٍ ‏"‏‏.‏ فَمَطَرَتِ السَّمَاءُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، وَكَانَ الْمَسْجِدُ عَلَى عَرِيشٍ فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ، فَبَصُرَتْ عَيْنَاىَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى جَبْهَتِهِ أَثَرُ الْمَاءِ وَالطِّينِ، مِنْ صُبْحِ إِحْدَى وَعِشْرِينَ ( بخاری، باب الاعتکاف)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ رمضا ن کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے ایک سال آپﷺ نے اعتکاف کیا جب اکیسو یں رات آئی جس کی صبح کو آپﷺ اعتکاف سے نکلنے والے تھے تو آپﷺ نے فرمایا: جس شخص نے میرے ساتھ (اس سال) اعتکاف کیا ہو وہ آخری عشرے میں بھی اعتکاف میں رہےاور مجھے شب قدر بتلائی گئی پھر بھلا دی گئی ،میں نے یہ بھی دیکھا کہ اسی کی صبح کو میں کیچڑ میں سجدہ کررہا ہوں اس لیے تم لوگ اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ چنانچہ اسی رات بارش ہوئی مسجد کی چھت چونکہ کھجور کی شاخ سے بنی تھی اس لیے ٹپکنے لگی اور خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اکیسویں کی صبح کو رسو ل اللہﷺکی پیشانی مبارک پر کیچڑ لگی ہوئی تھی۔
اسی سبب سے تو اعتکاف کےلیے مسجد میں داخل ہونے کا وقت بیسویں روزے کو غروب آفتاب سے قبل ہی ہے کیونکہ بعد غروب اکیسویں شب لگ جائے گی اور وہ بھی وتر راتوں میں سے ہے جس میں لیلۃ القدر کے تلاش کرنے کا حکم ہے اللہ کے رسول نے فرمایا :تم لوگ اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ،،
*مقصد اعتکاف:* یہ اعتکاف کی عبادت اصل میں اشتغال دنیا ،تعلقات انسانی، اور بے توجھی بے دلی کے سبب جو ہم سے رمضان المبارک کے سعادتیں، انقطاع زیادتئ عبادت اور رمضان کے فوائد و مقاصد میں سے جو ہم سے چھوٹ گئے اس کا اتمام واکمال حاصل کرنے کےلیے ہے، اسی لیے بعض صالحین نے کہا "قطع العلائق عن كل الخلائق للاتصال بخدمة الخالق " یہ(اعتکاف) ہر مخلوق و علائق دنیا سے قطع تعلق کر کے مکمل خدمت خالق میں حاضر ہو جانا ہے
اسی وجہ سے تو معتکف کے لیے الگ حجرہ وغیرہ مختص کیا جاتا ہے حدیث پاک میں ہے
واعتكف مرة في قُبَّة تركية (أي خيمة صغيرة) وجعل على بابها حصيراً . رواه مسلم (1167) . حضور علیہ السلام کبھی ترکی خیمہ یعنی چھوٹا خیمہ میں اعتکاف فرماتے اور اس کے دروازے پر چٹائی لگادیتے،
،ہاں جہاں پر عذر ہو مثلا کئی دیگر بھی اس کے ساتھ اعتکاف میں ہوں تو وہاں بھی مناسب یہی ہے کہ اس خلوص وللہیت کی عبادت میں بے توجھی نا داخل ہو بندہ خلوت حقیقی میسر نہ ہونے کے باوجود خلوت معنوی بایں معنی اپنی ذات میں سمٹ کر جلوۂ رب میں گم "من تو شدم تو من شدی، تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری "کی عملی تفسیر بننے کی طاقت ضرور رکھتا ہے، اسی لیے موجودہ زمانے میں بہت سے معتکفین ہر سال اس عبادت کےلیے حاضر ہوجانے کے باوجود اس کے فوائد وکمالات سے خالی نظر آتے ہیں حالانکہ اعتکاف روحانی قوت میں اضافے، قرب خداوندی،وصال حق عیاں بجمال رب کی منزلوں کے بام عروج کیلئے،اخلاقی و روحانی کمال کے حصول اورتزکیہ نفس اور تصفیہ باطن جس کی خواہش ہر دور میں سعید روحوں کا شیوہ رہی ہے کے لیے ہوتا ہے اور ایک بہت بڑا مقصد "لیلۃ القدر "کی سعادتوں سے بہرہ مند ہونا بھی ہے
نفس کی غفلتیں اور سماجی ذمہ داریوں کی الجھنیں عام طور پروہ محنت و مشقت اور مجاہدہ نہیں کرنے دیتیں جو معرفت حق اور وصال محبوب کیلئے ضروری ہے تو لذّاتِ نفسانی سے دستبرداری اور علائق دنیوی سے کنارہ کشی کےطور پر یہ اعتکاف ایک بہت ہی سھل الحصول عبادت ہے مگر شرط یہی ہے کہ رسمی اعتکاف نہ ہو ،ورنہ اس کے ثمرات حاصل نا ہونگے آج کل یہی دیکھنے میں آرہا ہے وہ دس دن جو زندگی کو گناہوں کے دلدل سے نکال کر وصل رب کی اعلی وارفع بلندیوں تک لے جانے کے اہل ہیں ہماری غفلتوں کے بدولت یونہی ضائع ہوجاتے ہیں وہ معتکفین جو اس تعبّد حقیقی کے واسطے معاشرہ و ماحول کی شکست وریخت کو از سر نو تعمیر و ترتیب دے کر اسلامی ماحول میں تبدیل کرنے کے اہل ہوسکتے تھے، خود کی اصلاح کے محتاج نظر آتے ہیں جبکہ اعتکاف کے بدولت انھیں وصال حق کی وہ منزل جو اممِ سابقہ کو زندگی بھر کی مشقتوں اور بے جا ریاضتوں کے نتیجے میں بھی حاصل نہیں ہوتی تھی فقط چند روز کی خلوت نشینی سے میسر آسکتی ہے۔
لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان کا نفس انسان کو ہمہ وقت برائی پر اکساتا رہتا ہے :
إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ
(یوسف، 12 : 53)
’’بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے۔‘
وہ ان کی ان عبادتوں کو بھی بظاہر "کوئی حرج نہیں"کا دلاسہ دیکر ایسے امور میں مشغول کر دیتا ہے کہ اعتکاف کا معنی ومفہوم ہی ختم ہوجاتا ہے خاص طور آج کے زمانے میں موبائل، انٹرنیٹ، کے بے محابہ استعمال اور احترام مسجد کو اہمیت نا دینے کے سبب، اور کثیر معتکفین کو یکجا کرنے کے بعد ان کے آپسی محادثات، لا یعنی گفتگو وغیرہ بھی اس مقصد سے دور لے جانے کا ایک بڑا سبب ہے
حالانکہ اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ انسان چند روز کے لئے علائق دنیوی سے کٹ کر گوشہ نشین ہوجائے۔ ایک محدود مدت کے لئے خلوت گزیں ہو کر اللہ کے ساتھ اپنے تعلقِ بندگی کی تجدید کرلے، اپنے من کو آلائش نفسانی سے علیحدہ کر کے اپنے خالق و مالک کے ذکر سے اپنے دل کی دنیا آباد کرلے، مخلوق سے آنکھیں بند کر کے اپنے خالق کی طرف لو لگائے ان کیفیات سے مملو ہوکر جب انسان دنیا و مافیھا سے کٹ کر صرف اپنے خالق و مالک کے ساتھ لو لگا لیگا تو اس کے یہ چند ایام سالوں کی عبادت اور محنت و مشقت پر بھاری قرار پا ئیں گے،
کچھ لوگ ان کو اس وقت میں ان افعال کےواسطےچھوٹ دینے کےلیے عذر لنگ تراشتے ہیں کہ اتنے وقت ایک ہی جگہ رہنے سے وہ قید میں محسوس کرنے لگتے ہی، لیکن یہ کوئی عذر نہیں ایسا تھا تو اس عبادت کےلیے آتے ہی نہیں، اسلاف کی مثال دیکھیں،
حضرت مالک بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! آپ کو خلوت سے وحشت نہیں ہوتی؟ تو فرمانے لگے ’’ ارے صحبت محبوب میں بھی کسی کو وحشت ہوتی ہے؟ میں خلوت میں اپنے محبوب کی جلوت سے بہرہ ور ہوتا ہوں۔ ان پرکیف اور سرور آفریں لمحات میں وحشت کیسی؟‘‘
حقیقت یہی ہے جو اعتکاف کو اعتکاف رسول کی روشنی میں اختیار کرے گا اسے ہی اس کا فائدہ حاصل ہوگا ورنہ
نشستم، برخاستم و رفتم(جاری)
 

Irfan raza misbahi
About the Author: Irfan raza misbahi Read More Articles by Irfan raza misbahi: 15 Articles with 33657 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.