چند دن پہلے ہی مشال خان کے قتل پر بننے والی جوائنٹ
انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ جس میں مشال خان کو توہین رسالت
کے الزام سے بری قرار دیا گیا ہے۔ اور مزید یہ لکھا ہے کہ مشال خان کو
یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف آواز اٹھانے پر توہین رسالت کا الزام لگا کر
دوسرے طالب علموں کو اکسایا گیا۔ مذہب کا نام استعمال کر کے لوگوں کو سرعام
مارنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو کون
بھول سکا ہے، جسے سرعام اسی کے ہی سیکورٹی گارڈ نے سفاکی اور بہ رحمی سے
مارا تھا۔ المیہ تو یے ہے کہ ان قاتلوں کو عبرت کا نشانہ بنانے کے بجائے
ہمارے لوگ کندھوں پر بٹھا دیتے ہیں اور اپنا رہبر اور ہیرو سمجھتے ہیں۔
ہمیں ماننا ہوگا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہیں ہیں جہاں عدم برداشت
اور مذہبی جنونیت مکمل طور پر پروان چڑھ چکی ہے۔ اب یہاں کسی کو بھی مارکے
بچہ نکلنا اور اپنے آپ کو لوگوں کا ہیرو بنانا کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ بس
آپ کو مقتول پر توہین مذہب کے الزام کا مورود ٹھراتا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے
کہ یہ مذہبی انتہاپسندی اور عدم برداشت کا ماحول اسی کی دہائ یا طالبانون
کی آمد کے بعد پروان چڑھا ے، مگر ایسا نہیں ہے ہم نے اسی دن سے اپنے معاشرے
کو گمراہی پر ڈالا ہے، جب سے تاریخ کو مسخ کرنا شروع کیا ہے۔ پاکستان کے
مسلمانوں کو اسلام اور پاکستان کی تاریخ سے بلاشبہ طور پر غیرمعمولی عقیدت
رہی ہے۔ یے رجحان بلاشبہ ایک پسندیدہ رجحان ہے۔ اس سے آپ کو اپنے ماضی کو
جاننے اور فخر کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔ مگر اعتراض اس بات پر ہے کہ ہم نے
تاریخ کو مجموعی طور پر جس انداز سے قبول کیا ہے وہ بڑا مہلک ہے۔ تاریخ کا
جائزہ لینے اور اس کا مطالعہ کرنے کے دوران ہماری یے خواہش رہتی ہے کہ ہم
اپنے ظالم ہیروز کو بھی کسی طرح بے قصور اور مظلوم کو کسی ترکیب سے قصوروار
ثابت کریں ۔
یہ انداز پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ پاکستان میں تاریخ پر جتنی بھی
کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں ماسوائے چند کے مجموعی طور پر سب نے یہی انداز
دکھایا ہے۔ ہم اپنے نوجوانوں کو پورے اہتمام کے ساتھ ظالموں کی وکالت اور
مظلوم کی مخالفت کرنے کا عادی بنا رہے ہیں۔ ہم جب محمود غزنوی اور فردوسی
کے بارے میں لکھتے ہیں تو خواہ مخواہ محمود غزنوی کو معصوم اور رحمدل جبکہ
فردوسی کو ناشکر گذار قسم کا ایک بددماغ شاعر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ عالم
گیر اور دارا شکوہ کے معاملے میں خوش عقیدہ مسلمان یا محب وطن پاکستانی
ہمیشہ عالم گیر کی حمایت کرتا ہے۔ بہت سے تاریخ دانوں نے یہ ثابت کرنے کی
کوشش کی ہے کہ صوفی بزرگ منصور حلاج ایک خطرناک اور گمراہی پھیلانے والا
سرکش اور غدار تھا، جسے تختہ دار پر چڑھا کر عباسی خلیفہ نے اسلام کی
ناقابل فراموش خدمت انجام دی۔ ہم یہ تو بیان کرتے ہیں کہ محمد بن قاسم کا
سندھ سرزمین پر مقامیوں کے ساتھ بڑا اچھا وقت گزرا مگر بھول جاتے ہیں کہ بے
عرب اسی سرزمین پر ایک دوسرے کی جان پر کو آگئے تھے اور غریب الوطنی میں
بہی نزادیوں اور قحطانیوں کے قبائلی بغض اور کینے کا قرض چکانے سے باز نہیں
آتے تہے۔ ہمیں تاریخ میں کہیں بھی یے نہیں بتایا جاتا کے محمود غزنوی نے کس
طرح سندھ پر حملہ کر کے عرب مسلمانوں کے سب سے زیادہ روشن خیال اور بہ باک
حکمران اسماعیلی خاندان کو اپنے گھوڑوں تلے روند ڈالا تھا۔ اگر سوال کیا
جائے کـ مسلمانوں کی ادبی، تہذیبی اور علمی ترقی کے اعتبار سے مسلم تاریخ
کا سب سے زیادہ شاندار عہد کون سا ہے تو ایک باخبر شخص بلا تامل عظیم الشان
عباسیوں کے ذرین عہد کا ذکر کرے گا۔ بادشاہوں کے شان میں قصیدے پڑھے جائیں
گیں، مگر انہی کی سفاکی کا باعث بننے والے آل محمد ابو سلمہ خلال، ابو مسلم
خراسانی اور ہرمکی خاندان کا تذکرہ کہیں نہیں ہوگا۔ ہم اپنے آپ کو پڑے فخر
سے موہن جو دڑو اور ہڑاپا تہذیب کا وارث کہتے ہیں، مگر دوسری طرف اسی
سرزمین کے سورماؤں اشوک اعظم، چندر گپت اور ہرش وردھن کی تاریخی یا افسانوی
روایتوں، مہموں، کشمکوں، کامرانیوں اور المیوں کو بیان کرنے سے کتراتے ہیں۔
یے تو بہت پرانی تاریخ کی مثالیں دے رہا ہوں۔ ہم تو ماضی قریب کی تاریخ کو
بھی جھوٹ اور فریب سے نہیں بچا سکے ہیں۔ پاکستان کے نصاب میں پڑھائی چانے
والی تاریخ پر معروف دانشور کے۔کے ۔عزیز نے اپنی کتاب تاریخ کا قتل Murder
of the history میں بڑے اچھے انداز سے جھوٹ کا پردا اٹھایا ہے۔
تاریخ کسی وکیل کی بحث نہیں جو اپنے موکل کے طرف سے کی جائے۔ تاریخ ایک غیر
جانبدار محقق کا اظہار ہے جو بڑی سچائی اور تسلسل سےحقائق کو بیان کیا جا
سکے۔ مگر ہمارے تاریخ دان اس بات کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔ یے قاتلوں کو
ہر مرحلے پر نوازنے اور سراہنے کا رواج اس سماج کے اخلاق کو تباہ کر ڈالے
گا۔ بے اقدار کا مسئلـ ہے اور ظالم کی وکالت کرکے ہم دراصل بے ثابت کرنا
چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ظلم ایک پسندیدہ قدر ہے اور خون ریزی کی بحرال
حمایت کرنی چاہیے۔ تاریخ نویسی کا یہ انداز سماج میں جرائم، پرہریت اور عدم
برداشت کے رجحانات پھیلانے کے ہم معنی ہے۔ ہم نے اب بھی اگر تاریخ ہر اپنی
روش نہیں بدلی تو اور ہزاروں مشال خان، سرمد، صوفی شاہ عنایت اور منصور
حلاج تختہ دار پر چڑھتے رہیں گے۔ |