آئیں ہم بھی بائیکاٹ کرتے ہیں

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جب عوام کا اجتماعی شعور بیدار ہوتا ہے تو کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ نہ سرمایہ دار اس شعورکے سامنے بند باندھ سکتے ہیں اور نہ ہی حکمرانوں کے ہتھکنڈے اس شعورکا راستہ روک سکتے ہیں۔ تمام تدابیر و تراکیب بے سود ہوتی ہیں اور بالآخر کامیابی عوام کے اجتماعی شعورکی ہی ہوتی ہے۔ اجتماعی شعور کا مطلب کسی قوم کے افراد کی بلاتفریق رنگ و نسل، مذہب اور زبان سماج میں اکٹھے آئے بڑھنے کی خواہش کا نام ہے۔ گویا یہ سماج اور اس کے افراد کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے، جس پر سب عمل کرنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال گزشتہ دنوں دیکھنے میں آئی، جب عوام نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے تین دن مہنگے پھلوں کا بائیکاٹ کیا، جس کا اثر یہ ہوا کہ ملک کے مختلف شہروں میں پھلوں کی قیمتوں میں 20 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔

عوام نے آپس میں تین دن تک پھل نہ خریدنے کا غیر تحریری معاہدہ کیا، اکثریت نے اس پر عمل کیا، جس کی بدولت انھیں کافی حد تک کامیابی ملی۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر عوام چاہیں تو آپس میں ہر برائی، منفی سوچ اور ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہر عمل کا بائیکاٹ کر کے ملک میں بہت جلد مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں، کیونکہ تمام شعبہ ہائے زندگی کا بنیادی تعلق عوام سے ہی ہے۔ اگر عوام تمام شعبہ ہائے زندگی میں بہتری لانے کے متمنی ہوں گے اور اس کے لیے اجتماعی طور پر ایسے اقدامات کریں گے جو ملک کی ترقی کا پیشہ خیمہ ثابت ہوں تو ملک یقینا ترقی کی منازل بہت تیز رفتاری کے ساتھ طے کرے گا، مگر اس کے لیے عوام کا اجتماعی شعور بیدار ہونا ضروری ہے۔ کسی سماج کے افراد کی جتنی زیادہ تعداد ترقی کی سمت اور رفتار کے بارے میں شعوری آگاہی رکھے گی، اتنا ہی سماج میں ترقی یافتہ ہونے کے امکانات روشن ہوں گے۔
یہ شعور معاشرے کے تمام افراد سے جڑا ہے۔ جب تمام افراد متحد ہوکرکوئی کام کرتے ہیں تو کامیابی یقیناً ان کے قدم چومتی ہے،کیونکہ عوام کی قوت جس سمت بھی چل پڑے، راستے کی کوئی چٹان ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اگر یہ قوت صحیح مقصد کے لیے استعمال ہوگی تو ملک و قوم اور خود عوام کے لیے مفید ثابت ہوگی اور اگر یہ قوت کسی مفاد پرست ٹولے کے ہتھے چڑھ جائے تو پھر ملک و قوم بھاری نقصان سے دوچار ہوجاتے ہیں اور سماج کو سوائے بگاڑ کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

آج سماج میں امانت، دیانت، صدق، عدل، ایفائے عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار کمزورپڑتی جارہی ہیں۔ اخلاقی بگاڑ سماج کی رگوں میں خون کی طرح سرائیت کرچکا ہے۔ فرقہ واریت، انتہا پسندی، ظلم، ناانصافی، لسانی، صوبائی، قومی اور مسلکی تعصبات، ناانصافی، کرپشن، بدعنوانی، بدامنی، دھوکا، جھوٹ، چوری، ڈاکا، رشوت، قانون کی پامالی، میرٹ کی تذلیل، امیروغریب کی تقسیم سمیت بہت سی برائیاں ناسورکی طرح معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے۔ ہم لوگ اجتماعی خیرو شر کی فکر سے خالی اور اپنے مفادات کے اسیرہوچکے ہیں اور دیگر بہت سے منفی رویے ہمارے قومی مزاج میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال پر ہر شخص کف افسوس ملتا نظر آتا ہے، مگر حالات بدل نہیں رہے، کیونکہ اس حوالے سے ہمارا اجتماعی شعور ترقی یافتہ ممالک کی طرح بیدار نہیں ہوا۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہر شہری اس یقین کے ساتھ خود کو معاشرے کی اکائی سمجھتا ہے کہ اگر وہ ٹھیک ہوگا تو معاشرہ بھی ٹھیک ہوجائے گا۔ معاشرہ ٹھیک کرنے کے لیے اس کا ٹھیک ہونا ضروری ہے، لیکن ہمارا معاملہ اس کے برعکس ہے، کیونکہ ہم میں سے ہر ایک نے یہ خیال کرلیا ہے کہ جب تک سارا معاشرہ ٹھیک نہیں ہوجاتا، اس وقت تک ہمیں خود کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ہر شخص ملک سے بدعنوانی و رشوت کے خاتمے کا خواہش مند تو ہے، لیکن خود رشوت چھوڑنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔ سب چاہتے ہیں کہ تمام ملکی قوانین کی پابندی سب کوکرنی چاہیے، لیکن خود کو مستثنیٰ سمجھتے ہیں۔ ہر شہری کی خواہش ہے کہ تمام شہریوں کو اجتماعی اخلاقیات کا پابند ہونا چاہیے مگر جب اپنی باری آتی ہے تو اپنے مفاد کے لیے کوئی بھی حد توڑنے سے گریز نہیں کرتے۔ہر فرد چاہتا ہے کہ ملک سے فرقہ واریت، انتہا پسندی اور مسلکی ومذہبی تعصبات کا خاتمہ ہو، لیکن اپنے نظریات اور اپنی سوچ پر کوئی کمپرومائز کرنے کے لیے تیار بھی نہیں ہوتا۔ ہر نظریے و مسلک کے افراد یہی چاہتے ہیں کہ سب ہمارے ماتحت ہوجائیں، جیسے ہم چاہیں، تمام لوگ اسی طرح کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں امیروغریب کے درمیان پائی جانے والی دوریاں ختم ہوجائیں، لیکن اپنے سے نچلے اور غریب افراد کو سینے سے لگاتے ہوئے عار بھی محسوس کرتے ہیں۔

حکمران اور مقتدر طبقے نے جہاں موقع ملا، کرپشن و بدعنوانی کا کوئی موقع ضایع نہیں کیا اور دل کھول کر ملک کی دولت سے مفادات حاصل کیے، لیکن عوام کو بھی جہاں موقع ملا، بہتی گنگا سے ہاتھ دھونا ضروری جانا۔ انھیں کہیں انصاف نہ ملا تو انھوں نے دوسروں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کو اپنے لیے جائز قرار دے دیا۔ چھوٹے عہدوں پر موجود افراد نے یہ سوچ کر رشوت کا بازار گرم کیا کہ جب بڑے عہدوں والے رشوت لے رہے ہیں تو ہمیں بھی لے لینی چاہیے۔ ایک دکاندار کم تولتا اور ملاوٹ اس لیے کرتا ہے کہ مجھے بھی ملاوٹ شدہ اشیاء ملتی ہیں، اس لیے مجھے بھی جعل سازی کرلینی چاہیے۔ خود کو استثنیٰ دینے کی یہی سوچ اوپر سے نیچے ہر شخص کے ذریعے معاشرے کو تباہی کی جانب دھکیل رہی ہے۔

ایک غریب کو دوسرے غریب کا حق مارنے کی اجازت دیتی ہے اور ہر فرد کو ہر غلط کام کرنے پر ابھارتی ہے۔ ہم لوگ غیرمسلم ممالک کے ظلم کا رونا تو روتے ہیں، لیکن خود ہمارا بس جہاں چلتا ہے، اپنے سے کمزور پر ظلم بھی کرتے جاتے ہیں۔ ہم ہر برائی پر انگلی اٹھاتے ہیں، مگر خود سے وہ برائی دور کرنے کی سعی نہیں کرتے اور اگر ہمارا ضمیر کبھی ہمیں ملامت کرتا بھی ہے تو ہم اس منفی سوچ کا سہارا لیتے ہوئے اپنی ڈگر پر چلتے جاتے ہیں کہ اس حمام میں جہاں سب ہی ننگے ہوچکے ہیں، مجھے بھی اخلاقیات کا لباس اتار دینا چاہیے۔ اس منفی سوچ سے یہ ہوا کہ اشرافیہ اور مقتدر طبقے کی جن برائیوں پر ہم سارا دن تنقید کرتے ہیں، ان میں تو کمی نہیں آئی، لیکن عام آدمی کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی ضرور اجیرن ہوگئی ہے۔
یہ سب نتیجہ ہے اس سوچ کا جس میں اصلاح کا مطلب صرف دوسروں کی اصلاح ہوتا ہے، حالانکہ ایک مضبوط قوم اور مستحکم معاشرہ اس وقت وجود میں آتا ہے، جب تمام افراد کسی خارجی دباؤ کے بغیر ملک و قوم کے مفاد کی خاطر خود اپنے اوپر کچھ پابندیاں عائد کرلیں۔ جب معاشرے کے تمام افراد یہ عہد کرلیں کہ کوئی دوسرا عمل کرے یا نہ کرے، لیکن اسے خود اس پر عمل کرنا ہے، جب یہ اجتماعی شعور بیدار ہوجائے اور معاشرے کے تمام افراد اس سوچ کو قبول کریں اور اس پر عمل کریں اور ہر برائی کا بائیکاٹ کریں تو اس وقت ملک و قوم کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔آئیے! ہم بھی برائی کا بائیکاٹ کرتے ہیں، تاکہ ملک بہت جلد ترقی کی منازل طے کرسکے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 629383 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.