انسانیت کی موت

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے ۔۔۔ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
خواہش غالب تھی کہ میں بھی ’’چوڑے ‘‘ کی موت کا نوحہ لکھوں کہ کیسے ایک گندگی صاف کرنے والا گندگی پھیلانے والوں کی فرعونیت اور رعونت کا شکار ہوگیا ، میں بھی کچھ داد سمیٹ لوں کہ غریب کی لاش اور غریب پر لکھا ہوا نوحہ ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے اوراکثربین الاقوامی ایوارڈ زکا حقدار ٹھہرتا ہے حالانکہ وہ بذات خود عزت افزائی کے دو الفاظ کے بھی لائق نہیں سمجھا جاتا جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں گندگی اٹھانے والے کو بھنگی ،خاکروب ،کوڑے والا ، چوڑا یا صفائی والا کہا جاتا ہے علاوہ ازیں تضحیک کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا اور معمولی غفلت پر کھل کر سنائی جاتی ہیں لیکن اس کی اس ناتوانی اور بے کس حالت کو بیچ کر عزت کمانے والوں کی لمبی فہرستیں ہیں کیا کریں کہ اس میں بھی ان کا کوئی قصور نہیں ہے، غریب ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے اور امراء کے پاس اس کو بیچنے کے سوا اور کوئی مشغلہ بھی تو نہیں ہے سو فیصلہ تھا کہ لفظوں کا ایسا دلفریب جال بنوں کہ زمانہ سوگوار ہوجائے ،مسیحاؤں کی بے حسی کا یوں ماتم کروں کہ ہر سانس تلوار ہو جائے ،مگر میں کیا لکھوں۔۔؟ ان تما ش بینوں کا حال لکھوں یا تصویر کشی کرنے والوں کو داد، دوں، اس کرب کو بیان کروں جو وقت نزع ان سوالی آنکھوں میں تھا یا اس کے بھائی کے احساس اور اُس نفرت کا خلاصہ لکھوں کہ جو اس کا ماں جایا اس کی باہوں میں آخری سانسیں گن رہا تھا اور ڈاکٹرز نے کہہ دیا تھا کہ وہ گندے ،بدبودار چوڑے کو ہاتھ نہیں لگا سکتے کیونکہ ان کا روزہ خراب ہو جائے گا لہذا اسے نہلا کر لائیں،میں اس شخص کی حقارت اور درد کا بیان کیسے کروں جو اپنی سانسوں سے اسے سانسیں دے رہا تھا مگر کوئی ڈاکٹر آگے نہیں بڑھا کہ وہ پلید تھا ،میں کیا لکھوں ۔۔؟اس کے اہل و عیال کی آہوں اور سسکیوں کا بیان کروں یا اس نفرت کو رقم کروں جو اس خاندان کی آنکھوں میں اہل ثروت کے لیے ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئی ہے ۔۔۔ہائے۔۔ حبیب جالب نے سچ کہا تھا
اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے
یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے

اس سے پہلے کہ میں لکھاریوں کی طرح، اس موت کو ایک ’’چوڑے ‘‘ کی موت لکھتی، میری آنکھوں کے پردے پر ان گنت منظر اترنے لگے ،یخ بستہ ہواؤں کی زد میں ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر پڑی ہوئی ایک غریب بڑھیا کی ٹھٹھرتی ہوئی لاش اور اس پر بین کرتی اس کی بیٹی کی چیخ و پکار ،ہسپتال کی سیڑھیوں پر بچے کو جنم دیتی موت سے جھوجھتی ہوئی عورت کی سسکیاں اور ڈاکٹروں کی بے نیازیاں ، وینٹی لیٹر نہ ہونے سے سسکتے ہوئے معصوم پھول اور ان کی لاشوں پر بین کرتے ہوئے ان کے لاچاروالدین، بے یارو مددگار لاوارث فرش پر پڑے ہوئے غریب اور منت سماجت کرتے ہوئے ان کے لواحقین ،بلاول بھٹو جیسے وڈیروں کے پروٹوکول کی بھینٹ چڑھتی ہوئی بچی یا پرچی نہ ہونے کیوجہ سے ماں کے ہاتھوں میں دم توڑتا ہوا بچہ اور ہسپتال انتظامیہ کے جارحانہ رویے الغرض ایسے ان گنت حادثات کہ جوبیان سے باہر ہیں لیکن یہ سب لوگ مسلمان تھے ان میں کوئی عیسائی نہیں تھا مگر سب مسیحائی کی نذر ہوگئے ان کا جرم مذہب ہر گز نہیں تھا ان کا جرم غربت تھا اس لیے میں اس موت کو ایک ’’چوڑے ‘‘ کی موت نہیں لکھونگی میں یہ سانحہ طبقاتی سسٹم کو پروان چڑھانے والوں کے منہ پر طمانچہ قرار دیتی ہوں اوراسے’’ انسانیت کی موت‘‘ کہونگی ۔

ویسے اس معاشرتی بے حسی کا جنازہ اٹھنے کی وجہ کیا ہے ؟ ماہ مقدس کاسبق کیا ہے ؟ روزہ کیاسکھاتا ہے ؟ کیا ایمان اتنا کمزور ہوتا ہے کہ کسی کوہاتھ لگانے سے متزلزل ہوجاتا ہے ؟کیا اب ایمان سلامت رہ گیا ہوگا؟چلیں مانا!روزہ تو بچ گیا ہوگا ۔۔مگرمقام حیرت ہے کہ ا ﷲ نے جس کے ہاتھ میں شفا ء رکھی ہے وہ اس حد تک ظالم کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی آخری سانسیں گن رہا ہو اور وہ کہے کہ نہلا کر لاؤ اور آئندہ نہلا کر لانا ؟کیا کچھ مسیحاؤں کی جگہ قصاب بھرتی کر لیے ہیں ؟ ڈاکٹرز پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کیوں نہیں ہے کہ مسلسل انسانیت کی تذلیل اور موت ہو رہی ہے اور کرتا دھرتا خاموش ہیں ؟ویسے روزہ کیا صرف فاقہ کشی کا نام ہے ؟ایسی مقدس عبادت جس کے لیے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وٓلہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو بہشت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں ۔اور جنت میں ایک خصوصی دروزہ بھی ہے جو روزہ دار کے لیے ہے جسے ’’باب الریان ‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس سے روزے کی اہمیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے مگر روزہ صرف بدنی عبادت نہیں ہے یہ انسان کو ایسی قوت برداشت سکھاتا ہے جس کی بنا پر وہ اپنے نفس پر کنٹرول کر سکے جس سے اس کے لیل و نہار صاف شفاف اور عجز و انکساری میں ڈھل جائیں ، اس کا ہر عمل دوسروں کے لیے نفع بخش ہو اور اپنی جائز خواہشات کو بھی دوسروں کی خوشیوں پر قربان کر دے ۔شب و روز ذکر باری تعالیٰ ، اعمال صالح ، برداشت ، تسبیح و قرآن کی تلاوت سے انسان کی زندگی بدل جاتی ہے اور یہ مہینہ یہی سکھاتا ہے کہ زندگی کیسے گزارنی چاہیئے مگر افسوس ان لوگوں پر ہے جو اس ماہ مقدس کا احترام نہیں سمجھے اور ایمانی قوت سے اس قدر دور ہیں کہ ستر گنا ثواب حاصل کرنے کی بجائے گناہ کے مرتکب ہو ئے ہیں ۔

مجھے کہنے دیجئے کہ آپ سبھی صفحے کالے کرنے والے بھی انھی نام نہاد مسیحاؤں میں شامل ہیں کہ آپ سب بھی غریب کو ایسے ہی ٹریٹ کرتے ہیں جیسے وہ کوئی کمتر ہو ،آپ میں اکثر اسی مزاج کے حامل ہیں کہ جو غرباء کو ان کی اوقات دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ،آج آپ اس کی موت پر نوحے اور کالم لکھ رہے ہیں جبکہ آپ کی محفل میں کوئی غریب گھس آئے تو اسے دھکے دے کر نکالنے اور تحقیر کرنے والوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے ابھی تو ہم فرزانہ ناز کی موت کا حادثہ نہیں بھول پائے کہ وہ سٹیج سے گر کر تڑپ رہی تھیں اور سبھی یہ کہہ کر چلتے بنے کہ ایسا ہوتا رہتا ہے ، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے یہاں تک کہ ایک بھی گاڑی دستیاب نہیں تھی جو مرحومہ کو وقت پر ہسپتال پہنچا سکتی اور دو بچوں کی ماں سسکتی دنیا سے چلی گئی ۔اس اندوہناک واقعہ میں بھی جو ذمہ داران گردانے گئے انھیں زعم ہے کہ قوم ان پر نازاں ہے ۔

آپ مجھے کسی بھی دلیل سے قائل نہیں کر سکتے بلاشبہ یہ طبقاتی فر ق تربیت کی نشاندہی کرتا ہے مگر اس میں توازن قائم رکھنا سربراہان مملکت کا فرض ہے مقام افسوس یہ ہے کہ نوکر شاہی اور وڈیرہ شاہی نظام نے اس فرق کو بڑھا دیا ہے تاکہ پھر کوئی سقراط ،ابوبکر و عمر پیدا نہ ہوسکے جو دوسروں کو سوچنے اور عمل پیرا ہونے پر مجبور کرے اور اس سوچ کو تقویت بھی اہل ثروت نے دے دی ہے ۔اس لیے اس موت کی ذمہ دار گٹروں میں پیدا ہونے والی گیس نہیں بلکہ صاحب اختیار لوگ ہیں اور یقینا روز محشر ہر جان کا سوال ہوگا جب تک حاکمیت کے تکبر کا نشہ نہیں ٹوٹے گا اور حاکم خود کو قوم کا حقیقی غلام نہیں سمجھے گاتب تک غریب، مجبور اور بے حال مرے گااورحوشحال پاکستان کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا ۔
بہرحال اگر اب بھی اس ہلا دینے والے واقعہ کی انکوائری اعلیٰ سطح پر قائم ہوجائے ۔انتظامیہ ،حکومت اور اعلیٰ عدلیہ اس واقعہ کا سنگین نوٹس لے جس سے کوئی ایسی روایت یا نظیر قائم ہو جائے کہ امیری اور غریبی تو اﷲ کی تقسیم سہی مگر کم ازکم اس طرح کی غفلتوں کے رویوں میں تبدیلی آجائے تو اس سے خلق خدا کا بھی بھلا ہوگا اور روز محشر جواب بھی آسان ہوگا ۔

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 126 Articles with 90261 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.