ماضی میں ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں جو کہ انتہائی خدا ترس
آور قناعت پسند واقع ہوئے تھے۔ مخلوق خدا سےمحبت اور عجز و انکساری بزرگوں
کا خاصه هوا كرتی ہے۔ اور کچھ اتنی شفاف ، خالص آور صلے کی تمنا سے بے نیاز
كه گمان ہوتا ہے جیسے ساری دنیا انکے اہل و عیال کا حصه هے۔ كہتے ہیں کہ وہ
غزنی میں رہتے تھے۔ سبزی پکاتے اور بیچتے تھے۔ لوگوں کی ایک کثیر تعداد
انکے پاس آتی اور کھوٹا درہم دے کر جو پکا ہوتا، خرید لیتی۔ آپ چپ چاپ وہ
کھوٹے درہم رکھ لیتےاور بغیر کسی تفریق کے انکو کھانا دے دیتے۔کچھ ظاهر نه
هونے دیتے۔کچھ عر صه گزرا آور لوگوں میں رائے عام ہو گئی کہ بزرگ کو کھوٹے
اور کھرے میں تمیز نہیں!
جب انکی وفات کا وقت قریب آیا تو کچھ یوں گویا ہوئے، "اے خدائے بزرگ و
برتر! تو سب کے حال سے واقف ہے، تیری مخلوق نے مجھےکھوٹے سکے دئے اور میں
انکو کھرا مان کہ قبول کرتا رہا، آج میں اپنی کھوٹی عبادت لے کر تیرے دربار
آیا چاہتا ہوں، اسے بھی کھرا مان کے شرف قبولیت بخش دے!"۔
۔۔۔بہت امید ہے اس ایک جملے میں!
اپنی زندگی پہ نظر دوڑائیں تو احساس هوتا هے کہ آیسے کتنے ہی کھوٹے سکے
ہماری جھولی میں بھی ڈالے جاتے ہیں، کبھی اگر خدا کا فضل، شامل حال هو تو
إنسان كھوٹےاور کھرے میں تمیز كر پاتا ہے اور کبھی ان کھوٹے سکوں کے فریب
میں آجاتا ہے۔ کھوٹے سکوں کا لین دین آج بھی جاری و ساری ہے بلکہ اسُمیں اب
ایک تسلسل اور روانی آ چکی ہے۔ ہماری اپنی جیبیں کبھی اپنوں اور کبھی غیروں
کے دیے انہی کھوٹےسکوں کا مسکن ہیں۔ اور ہم خود وهی سکے آوروں کو لوٹا بھی
دیتے ہیں، آخر نظام تو چلتا رہنا چاہیے! کبھی کبھی کسی بہت پرانے، بھولے
بسرے کوٹ کی جیب سے سکوں کی کھنک سنائ دیتی ہےاور ان سکوں میں دینے والے کے
ہاتھ کی خوشبو بھی رچی ہوتی ہے۔کیسی حیرت كی بات ہے!!
ہم سب مزهب کا پرچار کرنے میں آگے آگے ہوتے ہیں لیکن جب کبھی اپنا کوئ قول
و فعل اسکی نفی کرتا نظر آتا ہے تو ہم moderation کو advocate کرنے لگتے
ہیں۔ کم سے کم یا ذیادہ سے زیادہ یہ جملہ کہ دیتے ہیں کہ، "بھئ ! یہ میرا
ذاتی معاملہ ہے!"۔ اس ایک جملے میں اچھا دوست ہونے کی صفات موجود ہیں، ہر
مصیبت میں کام آجاتا ہے۔
سادی سی بات ہے، اگر کوئ مجھے دھوکہ دیتا ہے تو میرا پورا حق بنتا ہے، یعنی
اگر زیادہ نہی تو کم از کم اتنا ہی دھوکہ دینا۔ یہ إصلاح، درگذر، ایثار،
قربانی سب جذباتی باتیں ہیں۔ آج کل کے پریکٹکل دور میں میں بھلا کون ایسے
سوچتا ہے؟ آیسے کو تیسا ہی ٹھیک ہے، اور یہی سکہ چلتا ہے بس!!!
ہر وہ جھوٹ جو بنا کسی مصلحت كے اور اپنے ذآتی مفاد کو پیش نظر رکھ کہ بولا
جائے، کھوٹا سکہ ہے۔
ہر وہ وعدہ جو نبھانے کی نیت سے خالی ہو، کھوٹا سکہ ہے
وہ دوستی جو موقع پرستی کا پیالہ پی کہ پروان چڑھے، کھوٹا سکہ ہے۔
وہ رشتہ جوزمانے کے سرد و گرم نہ سہہ سکے اور بیچ رستے ہاتھ چھوڑ جائے،
کھوٹا سکہ ہے۔
کسی کی زبان سے نکلے وہ الفاظ جو مجبور كو كھوکھلی آس دلائیں، کھوٹے سکے
ہیں۔
وہ عقیدے، وہ تہوار، جو مذهب سے عاری، محض رسم پرستی کی بنیاد پر منائے
جائیں، کھوٹے سکے ہیں۔
اور ہروہ عمل جس میں اخلاص كی خوشبو هی نہ ہو، کھوٹا سکہ ہے۔
ہم اپنی ذندگی کے حصار میں مقید بہت بے اختیار ہی سہی لیکن دیکھا جائے تو
با اختیار بھی ہیں! سننے میں چاہے یہ ایک paradox لگے لیکن اللہ نے ہمیں
سوچ کی آزادی، غلط آور صحیح كی تمیز، عقل اوراختیار کی وسعت سے بھی تونوازا
ہے۔
ہمارے روذمره كے معاملات، عبادات سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن بات
یہ ہے کہ یہ باتیں آج کل کی عقل و دانش کے میرٹ پہ شاید پوری نہیں اترتیں،
سو چھوڑیں رہنے دیں، اس قدر بوگس اور گھسی پٹی باتیں کرنے کا فائدہ؟؟؟ |