فادرز ڈے ایک سماجی تہوار ہے جو ہر سال18جون کو پوری دنیا
میں منایا جاتا ہے جس میں بچے اپنے والد کی عزت و احترام کو پیش نظررکھتے
ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں یہ تہوار صدیوں پرانا نہیں ہے بلکہ اسے
چند سال قبل ہی منانے کا اعلان کیا گیا جسے سب سے پہلے سنو راداد(sonora
dodd)نامی امریکی خاتون جو بچپن میں شفقت پدر سے محروم ہو گئی تھی اس نے
اپنے باپ کی یاد میں جسے وہ بے حد پیار کرتی تھی منانے کا اعلان کیا اسے
خیال آیا کہ وہ اپنے والد جسے وہ ہر وقت یاد کرتی ہے کیسے خراج تحسین پیش
کرے اس نے تمام دنیا کے بچوں کو اپنے والد سے محبت اور ان کی پرورش میں باپ
کی محنت ،مشقت ، خلوص اور احترام کو ایک یوم کی صورت میں منانے کا درس
دیااس نے 1910ء میں واشنگٹن میں پہلی بار 20جون کو فادرز ڈے منایا پھر اس
دن کو والد کے نام سے منسوب کردیا گیا جسے اب باقائدگی سے ہر سال منایا
جاتا ہے کیونکہ اس وقت کے صدر کیلون کالیج (Calvin Coolidge) نے 1924ء میں
اس تہوار کو نیشنل فادرڈے کا نام سے منانے کا حکم دیاتھاجس کے بعد 1966ء
میں لندن جو ہسن(lyndon johnsn)نے اسے عالمی سطح پر متعارف کروایا اس طرح
اس تہوار کو کئی ممالک میں پزیرائی ملی اور بالآخر 1972ء میں صدررچرڈ نکس
کی کاوشوں سے اس تہوار کو عالمی تہواروں میں مستقل طور پر شامل کرلیا گیا
جبکہ دیگر تہواروں کو بعض مذہبی حلقوں میں مغربی رسومات کا عندیہ دیا جاتا
ہے ہاں یہ سچ ہے کہ اس تہوار کو اقوام مغرب میں عیسائیوں نے منانا شروع کیا
لیکن اب تقریباََ تمام مذاہب کے لوگ اسے مناتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ اس دن
کو ان کے طریقے سے ہی منایا جائے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام میں بھی
والدین کے حقوق پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ
وہ اس تہوار کو تہوار نہ سمجھیں بلکہ اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق اپنے
والدین کے حقوق کو پورا کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے جیسے اسلام میں کہا
گہا ہے کہ جب کسی کے ماں باپ بوڑھے ہوجائیں تو وہ ان کی دیکھ بھال اور خدمت
میں کوئی کثر نہ چھوڑیں اورانہیں اف تک نہ کہیں چونکہ ان بوڑھے ماں باپ نے
جس طرح انہیں پالا پوسہ ہے وہ ان کی اس خدمت کا احسان کبھی بھی نہیں اتار
سکتے جبکہ اگر وہ اپنے ماں باپ کی عزت و احترام اور ان کی ضروریات کا خیال
کرتے ہوئے بوڑھاپے میں ان کی خدمت کریں گے تو جو دعائیں وہ ماں باپ اپنے
بچوں کو دیں گے اسے ہی وہ زندگی میں خوشحال کامیاب زندگی گزار سکیں گے - |