آخری عشرے سے متعلق چندامور پر انتباہ

(1)الوداعی جمعہ کا حکم
جواب : آخری عشرے سے متعلق ایک بات لوگوں میں الوداعی جمعہ سے متعلق رائج ہے جو اصل میں عوام کی مشہور کردہ غلط فہمی ہے ، اس کا علماء سے اور کتاب وسنت سے تعلق نہیں مگر اب عوام کے ساتھ کچھ علماء بھی متاثر ہوگئے۔ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو الوداعی جمعہ کہنا، خطبہ میں یا محفل قائم کرکے اس کے گزرنے کا مرثیہ پڑھنا سراسر دین میں زیادتی اور نئی ایجاد ہے ۔کتاب وسنت سے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کے الفاظ سلف صالحین کے یہاں ملتے ہیں۔ ہرہفتے جمعہ کا دن آتا ہے تو پھر کسی ایک مہینے کے آخری جمعہ کو الوداعی جمعہ کہنا بالبداہت بھی صحیح نہیں ہےاور جمعہ توہفتے کی عید ہے وہ بھی رمضان المبارک کا جمعہ اس پہ بیحدخوشی ہونی چاہئے خواہ پہلا جمعہ ہو یا آخری جمعہ۔ یاد رکھیں رمضان کے آخری عشرہ میں ہی شب قدر ہے ہمیں اعتکاف اور شب بیداری و اجتہاد کے ذریعہ اسے پانے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان ایام میں خاص طور سے فضول کام اور تضییع اوقات کا سبب بننے والے امور سے بچنا چاہئے ۔

اس مناسبت سے ایک پیغام امت مسلمہ کے نام دینا چاہتا ہوں کہ رمضان کا آخری جمعہ رخصت ہوتے ہی رمضان بھی ہم سے قریب رخصت ہوجائے گا ،تو الوداعی جمعہ منانے کی بجائے میں دین اور اعمال صالحہ پر اسی طرح قائم رہنے کی تلقین کرتاہوں جس طرح رمضان میں قائم تھے ۔ نیکی صرف رمضان کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔جس طرح ایثاروقربانی ، اعمال صالحہ، طاعات وبھلائی ، صدقات وخیرا ت ، عبادت وذکرالہی اور دعوت الی اللہ کی طرف رمضان میں مائل تھے اسی طرح رمضان بعد بھی کرتے رہیں تاکہ دین پر استقامت حاصل رہے اور اسی حال میں موت آئے ۔ ایسے لوگ اللہ کے پسندیدہ بندے ہیں اوردین پر ہی وفات پانے سے اس کے فضل واحسان سے جنت میں داخل کئے جائیں گے ۔

(2)معتکف کا درس دیناکیساہے ؟
جواب : اگر مسجد میں موجود لوگوں کو تعلیم کی ضرورت ہو اور معتکف (اعتکاف کرنے والا)ان کی ضرورت کو پورا کرنے کے قابل ہے تو انہیں درس دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہاں پابندی کے ساتھ اعتکاف کے اپنے قیمتی اوقات کو درس پر ہی صرف نہ کرے ، اعتکاف دراصل عبادت کے لئے فراغت کا نام ہے لہذا اس مقصد کی تکمیل میں کوشاں رہے ۔
شیخ محمد صالح عثیمین رحمہ سے سوال کیا گیا کہ کیا معتکف کا کسی کو تعلیم دینا یا درس دینا صحیح ہے تو شیخ کا جواب تھا :
الأفضل للمعتكف أن يشتغل بالعبادات الخاصة كالذكر والصلاة وقراءة القرآن وما أشبه ذلك ، لكن إذا دعت الحاجة إلى تعليم أحد أو التعلم فلا بأس ، لأن هذا من ذكر الله عز وجل(فتاوی الشیخ محمد صالح العثیمین 1/549)
ترجمہ: متعکف کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ عبادت میں مشغول رہے مثلا ذکر،نماز،قرآن کی تلاوت اور جو اس قبیل سے ہوں لیکن اگر کسی شخص کو تعلیم دینے اور سکھلانے کی ضرورت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ بھی اللہ کے ذکر میں سے ہے ۔

(3)شب قدر میں وعظ ونصیحت کا حکم
جواب : شروع رمضان سے ہی اکثرمساجد میں تراویح کے بعد دروس ومحاضرات اور تفسیرقرآن کا لمبا لمباسلسلہ چلتا رہتا ہے جو نمازیوں کے لئے باعث مشقت ہے ۔حالانکہ یہ جائزوناجائز یا بدعت کا مسئلہ نہیں ہے ،یہ بھی منجملہ رمضان کے نیک اعمال میں سے ہے لیکن تراویح کے بعد کوئی سلسلہ طوالت کا لوگوں کے لئے مزید مشقت کا سبب ہے ۔ میرے خیال سے تراویح کے بعد مختصر دروس اور مختصر تفسیر پہ ہی اکتفا کرنا چاہئے،یا لمبے دروس وتفسیر کے لئے کوئی اور مناسب وقت متعین کرنا چاہئے جس میں لوگ بلامشقت اور نشاط کے ساتھ درس وتفسیر سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ اس وقت دروس ومحاضرات کا سلسلہ آخری عشرے اور اس کی طاق راتوں میں بھی شروع کیا جانے لگا ہے ۔کچھ لوگ چارچار رکعت کے بعد وعظ کرتے ہیں تو کچھ لوگ تراویح کے آخرمیں ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آخری عشرے میں درس دینا لوگوں کے لئے مناسب ہے اور شرعا اس عمل کی کہاں تک گنجائش ہے ؟

اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ دینی دروس بہرحال مفید ہیں مگر اس کے لئے مناسب وقت کا تعین ضروری ہے ، اس عمل کے قبیل سے لوگوں میں جوازوعدم جواز سے متعلق دوقسم کی آراء سامنے آرہی ہیں۔ جواز والوں کا کہنا ہے کہ یہ بھی خیر کے کاموں میں سے ہے اور چونکہ نبی ﷺ سے کسی خیر کی ان راتوں میں ممانعت نہیں ہے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے آخری عشرے کے لئے خیر کے کاموں کو مخصوص کیا ہے بلکہ آزادی ہے جس قسم کا بھی کارخیرکرے ۔ اس بات پر عرض یہ ہے کہ بلاشبہ درس دینا دعوت الی اللہ اور خیرکا کام ہے اور بڑے اجر کا باعث ہے مگر اس قدر اجر وثواب والا عمل ہونے کے باوجود سلف سے آخری عشرے میں یہ کام منقول نہیں ہے ۔ ہاں کوئی ان ایام کی فضیلت کے تعلق سےایک آدھ مرتبہ لوگوں کو کچھ نصیحت کرناچاہے تو مجھے اس میں کوئی حرج نہیں محسوس ہوتا لیکن باقاعدہ ان راتوں میں اجلاس یا دروس کا سلسلہ قائم کرنا محل نظر ہے ۔ اگر جوازوالے ان راتوں میں پابندی سے درس کے قائل ہیں جوکہ کارخیر ہے تو پھران کی نظرمیں دسیوں علماء کوبلابلاجلسہ منعقد کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے جبکہ اس بات کے وہ بھی قائل نہیں ہوں گے تومعلوم یہ ہواکہ یہ راتیں عبادت کے لئے فارغ ہونی چاہئے ۔ آئیے ایک حدیث کی روشنی میں نبی ﷺ کا اسوہ دیکھتے ہیں کہ آخری عشرہ میں آپ ﷺ کیا کرتے تھے؟ ۔
عنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ(صحيح البخاري:2024)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو (عبادت کے لئے)کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھروالوں کو بھی جگاتے تھے۔
اس حدیث میں تین باتیں مذکور ہیں ۔
(1) شد میزرہ : کمر کس لیتے یعنی عبادت کے لئے بالغ اجتہادکرتے ۔عورتوں سے کنارہ کشی کے بھی معنی میں آیا ہے ۔
(2) احیالیلہ : شب بیداری کرتے رات میں عبادت کے لئے خود کو بیدار رکھتے ۔
(3) ایقظ اھلہ : اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے کیونکہ یہ اہم رات ہوتی ہے ۔
نبی ﷺ کے اسوہ کو اپناتے ہوئے آخری عشرے میں ہمارا بھی یہی طرزعمل ہونا چاہئے تاکہ شب قدر اور اس کی فضیلت کو پاسکیں ۔

(4)آخری عشرہ میں دو مرتبہ قیام اللیل کرنے کا حکم
جواب : عموما رمضان میں عشاء کی نماز کے بعد تراویح کی نماز پڑھ لی جاتی ہے اور بعض جگہوں پر آدھی رات کے بعد دوبارہ جماعت سے قیام اللیل کا اہتمام کیا جاتا ہے ،لوگ پوچھتے ہیں کہ جب تراویح آٹھ ہی رکعت ہے تو پھردوبارہ قیام کیوں کیا جاتا ہے اور اس کی شرعا کیا حیثیت ہے ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں نبی ﷺ دوسرے عشرے کی بنسبت زیادہ عبادت کرتے تھے بلکہ آخری عشر ہ تو عبادت کے لئے بیدار رہنے کا نام ہے ۔ ان ایام کی راتوں میں جس قدر ہوسکے عبادت پر اجتہاد کرنا چاہئے ،کوئی رات بھر عبادت کرے، کوئی دو تین باراٹھ اٹھ کر عبادت کرے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ رات کی نفلی نماز دو دو رکعت ہےخواہ کوئی فجر تک پڑھے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
صلاةُ الليلِ مثنى مثنى ، فإذا خشي أحدُكم الصبحَ صلى ركعةً واحدةً ، توتِرُ له ما قد صلى.(صحيح البخاري:990 و صحيح مسلم:749)
ترجمہ : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور اگر تم میں کسی کو صبح ہوجانے کا اندیشہ ہو، اور وہ ایک رکعت پڑھ لے، تو یہ اس کی پڑھی ہوئی نماز کے لئے وتر ہوجائیگی۔
رمضان میں کثرت سے مستحب اعمال انجام دینا چاہئے اور نفلی عبادتیں مستحب اعمال میں سے ہیں ، اگرکوئی امام کے ساتھ آٹھ رکعات تراویح کی نماز پڑھ لیتا ہے تو اس کے لئے دوبارہ اٹھ کر قیام کرنے کی ممانعت نہیں ہے خواہ پہلا عشرہ ہو یا آخری عشرہ اور آخری عشرہ عبادت پر اجتہاد کے اعتبار کے سے کافی اہم ہے کیونکہ اسی میں شب قدر ہے لہذا آخری عشرے کی ساری راتوں میں پوری پوری رات جگ کر عبادت کرنا مستحب ومسنون عمل ہے ۔

(5)عید کی اڈوانس میں مبارکبادی دینے کا حکم
جواب : سنت سےعید کی مبارکباد دینا ثابت ہے ۔ صحابہ کرام ایک دوسرے کو عید کے دنعید کی مبارکباد دیتے تھے ۔ یہ مبارکبادی عید کی نماز کے بعد دینی چاہئے ۔ مبارکبادی کے الفاظ ہیں : تقبل اللہ منا ومنک۔ کوئی "عید مبارک" کے الفاظ کہتا ہے تو بھی درست ہے ۔جہاں تک عید کی مبارکبادی دینا قبل از وقت تو یہ سنت کی خلاف ورزی ہے ، عید کی مبارکبادی تو عید کے دن ،عید کی نماز کے بعد ہونی چاہئےکہ اللہ کے فضل کے سبب ہمیں عید ومسرت میسر ہوئی ۔اس سلسلے میں بعض علماء ایک دودن پہلے تہنیت پیش کرنے کے قائل ہیں مگر احتیاط کا تقاضہ ہے کہ عید سے پہلے مبارکبادی پیش کرنے کو سنت کی مخالف کہی جائے کیونکہ لوگ اس وقت ہرچیز کے لئے مبارک پیش کرنے لگے ہیں اور وہ بھی کتنے دنوں پہلے سے ہی ۔ لوگوں میں دین پر عمل کرنے کا جذبہ کم اور مبارکبادی پیش کرنے کا رواج زیادہ ہوتا نظر آرہاہے ۔
شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے عید سے ایک دودن پہلے مبارکبادی پیش کرنے کے متعلق سوال کیاگیا تو شیخ نے جواب دیاکہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ،مبارکبادی توعید کے دن یا عید کے بعد والے دن مباح ہے لیکن عید کے دن سے پہلے مبارکبادی دینے سے متعلق مجھے نہیں معلوم کہ اسلاف سے کچھ ثابت ہے تو پھر لوگ عید سے پہلے کیسے تہنیت پیش کرتےہیں جس کے متعلق کچھ ثبوت نہیں ہے ۔

Maqbool Ahmed Salfi
About the Author: Maqbool Ahmed Salfi Read More Articles by Maqbool Ahmed Salfi: 315 Articles with 312661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.