ریاست بھر میں اس وقت نجی تعلیمی اداروں کی بھر مار ہے
اور آئے روز نجی تعلیمی ادارے پھلتے پھولتے ہی جار ہے ہیں۔ نجی تعلیمی
اداروں کے بڑھتے رجحان کو لیکر کبھی کبھار سرکار زبانی طور اگر کوئی قدم
اٹھائے بھی تو انہیں پھٹ سے یاد آ جاتا ہے کہ ہائے اﷲ ہمارے تو اپنے بچے
نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔سیاسی لیڈران جو
جھوٹے دعوے کرتے کبھی تھکتے نہیں اُن کے اپنے بچے سرکار ی سکولوں میں نہ
ہونا ہی اس کا واضح ثبوت پیش کر رہا ہے کہ سرکار تعلیمی ادارے اب جہالت کی
تھوک منڈیاں بن گئے ہیں۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ اساتذہ اور سرکاری
تعلیمی اداروں میں تعینات پرنسپلز کے وہ دعوے کیا ہیں جو یہ کہتے ذرا برابر
بھی شرم محسوس کرنے سے عاری ہیں جب ایک طرف سے اس بات پر والدین پرزور
دیاجا رہا ہے کہ کہ بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ دینے کے بجائے
سرکاری سکول میں داخل کیا جائے جہاں تعلیم معیاری اور سستی ہے جبکہ والدین
سے اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخلہ کرانے کایہ بھاشن دینے والے یہ
سوچے بغیر اپنا خیالی بھاشن دینے سے قبل ذرا بھی سوچتے نہیں کہ اُن کے اپنے
بچے تو نجی تعلیمی اداروں میں بھاری بھرکم فیس دیکر تعلیم حاصل کر رہے ہیں
۔بھاشن سننے والے لوگ اپنے ہونٹ سلے اُن کی اس بے بنیاد نصیحت کو خاموشی سے
سنتے ہیں۔اُن سے یہ سوال کئے بغیر کہ اگر سرکاری سکولوں میں تعلیم معیاری
اور سستی ہے تو پھر اُن کے اپنے بچے سرکاری سکولوں سے غائب کیوں۔ کیا وہ
اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دینا ہی نہیں چاہتے یا پھر وہ معیاری اور سستی
تعلیم کا ڈھول پیٹ کر لوگوں کو بیوقوف بنانے میں مصروف ہیں۔ یا پھر غریب
کوتعلیمی لحاظ سے مزید پسماندگی کی طرف دھکیلنے اور امیر کو مزید سہولیات
سے استفادہ کرنے والا فارمولہ اپنا کر تعلیم کوخریدنے والے سرمایہ دار طبقے
کے در کی باندی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں اس لئے کہ کل کوئی غریب اچھی تعلیم
حاصل کر کے ہمارے برابر کھڑا ہو کر تعلیمی خریداری کے اس دھندے کو بند نہ
کر دے ۔قابل رحم ہے کہ سرکار سکولوں میں اس وقت تعلیمی نظام اس قدر بگڑچکا
ہے کہ ایک مزدور پیشہ انسان بھی دن بھر دہاڑی لگا کر اپنے بچوں کو نجی
تعلیمی اداروں میں داخلہ کرا تا ہے ۔جو لوگوں وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے
بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخلہ کرانے پر مجبور ہیں وہ یہ رونا روتے ہوئے
کہتے ہیں کہ کاش ہمارے پاس بھی ذرایعے آمد ن کا کوئی راستہ ہوتا تاکہ ہم
بھی اپنے بچوں کا نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ کرا کر انہیں اچھی تعلیم سے
آراستہ کراتے۔کچھ معززشہریوں کا کہنا ہے کہ سرکاری سکولو ں میں بچوں کا
داخلہ کرنا گویااُن کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہے کیونکہ سرکار سکولوں میں
تعلیمی نظام اس قدر بگڑ چکا ہے کہ داخلہ کے وقت تو سکول میں داخلہ بچوں کا
کیا جاتا ہے لیکن چند سالوں کے بعد وہاں سے بچے نہیں بلکہ بوجھ ڈھونے والے
گدھے باہر آتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ اس تمام صورتحال کا ذمہ دار اگر ہے
تو وہ سرکار کا نظام ہے جنھوں نے سکولوں کو بجائے عبادت گاہ کے کریانہ کی
دکان بنا کر رکھ دی ۔اساتذہ جو بچوں کو علم کے نور سے منور کیا کرتے تھے
اُسے بی ایل اوزبنا کررائے دہندگان کی گنتی کا طالب علم اور مڈ ڈے میل کا
اکاؤنٹ اسسٹنٹ بنا کر رکھ دیا ، کچھ اساتذہ کو مڈڈے میل کا سامان جیسے چاول
،تیل ،دالیں وغیرہ ڈھونے کا پانڈی بنا کراستاد کی عظمت کو خاک میں ملانے کا
کام انجام دیا گیا ہے ایسے میں سکولوں سے گدھے باہر نہ آئیں تو اور کیا آئے
گا ؟کیا ایسے نظام تعلیم میں والدین اپنے بچوں کو رکھنا پسند کریں گے؟تو
جواب نفی میں ہوگا۔بھلے ہی وہ دن بھر بھیک مانگ کر اپنا پیٹ کیوں نہ پالتے
ہوں لیکن جو والدین تعلیمی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور سمجھ رہے ہیں
وہ ہر گز اپنے بچوں کو ایسے تعلیمی نظام میں رکھنا پسند نہیں کریں گے جہاں
طلباء تو طلباء ایک استاد کی عظمت کو بھی سرعام خاک میں ملایا جاتا
ہے۔سرکاری سکولوں میں بگڑتے نظام تعلیم میں جہاں سیاسی کارندوں کے غیر
منصفانہ اور غیر دانشمندانہ اقدام کا ہاتھ ہے وہیں سکولوں میں تعینات ایسے
بھی اساتذہ ہیں جو سرکار ی سکولوں میں تعلیمی نظام کی بگڑی کو بنانے کے
تئیں نہایت ہی غیر سنجیدہ ہیں۔ایسے اساتذہ جو باتوں ہی باتوں میں سرکاری
سکولوں کے نظام ِتعلیم کو لیکر دعوے کرتے تھکتے نہیں ہیں لیکن حقیقی معنوں
میں وہ زبان خرچی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔گوکہ سرکاری سکولوں میں آج بھی
ایسے اساتذہ ہیں جو بگڑے تعلیمی نظام کو سدھارنے کی تگ و دو میں ہیں لیکن
اِن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔بگڑے تعلیمی نظام کی ایک بنیادی وجہ
اساتذہ کا بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ بھی ہے ،اساتذہ کا اپنے طالب علموں
کیساتھ دوستانہ رویہ ہونا کوئی بری بات نہیں لیکن اتنا بھی نہیں کہ استاد
کی کسی ہوٹل میں تشریف آوری ہو اور طلباء کو ٹس سے مس نہ ہو وہ بغیر کسی ڈر
و خوف کے اپنے استاد سے ہیلو ہائے کر کے بچی کھچی استاد کی عظمت کو اور
زیادہ خاک میں ملانے کا کام انجام دیتا ہے اور وہ استاد اپنی عظمت سے آگاہ
ہونے کے بجائے اس تمام صورتحال کو معمولی سمجھ کر بھول جاتا ہے اور نتیجہ
یہ کہ استاد خود اپنی عظمت و وقار کو بحال رکھنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔تو صاف
طور سے ظاہر ہورہا ہے کہ دور ِ حاضر کا استاد اپنے اصل مقام سے آگاہ
نہیں۔اساتذہ کا اپنے طالب علموں کے ساتھ غیر ضروری دوستانہ رویہ اگر نظام
تعلیم کے بگڑی صورتحال کی ایک اہم وجہ ہے تو وہیں اس وجہ کو مضبوطی بخشنے
میں والدین بھی کسی سے پیچھے نہیں ۔ دور ِ حاضر میں جب والدین اپنے بچوں کا
داخلہ کراتے ہیں تو وہ یوں سمجھ لیتے ہیں کہ گویا اب ہم نے اپنے بچے کی
اساتذہ یا پھر اس سکول کیساتھ بیت کر لی یہاں سے اب ہمارا کام ختم ۔ بچہ
سکول کب جاتا ہے ، کب وہاں سے واپس لوٹتا ہے، وہاں کیا پڑھتا ہے اس سے
والدین کا کوئی لینا دینا نہیں انہیں تو بس بچہ پاس ہونا چاہیے وہ نقل کر
کے پاس ہو جائے یا پھر پیسہ دیکراس کی والدین کوکوئی خبر نہیں ۔بچے نے اگلی
جماعت میں قدم تو رکھا لیکن اس کا یہ قدم کہیں ڈگمگا تو نہیں رہا ہے ؟ یا
نقل کی بیساکھیوں کے سہارے یہ اگلا قدم کہیں اس کی پڑھائی کا آخری قدم تو
نہیں؟ اس کی معلومات کر نا یا اس کی خبر رکھنا والدین اپنا فرض نہیں سمجھتے
ہیں۔بس تمنا اتنی سی ہے کہ ہر سال ہمارے بچے کا قدم اگلی جماعت میں ہونا
ضروری ہے ،والدین کی بے خبری میں اٹھائے گئے بچے کے اس قدم میں والدین اپنے
بچے کو کیا کیا نہیں دیکھتے ہیں،کبھی ڈاکٹر،تو کبھی انجینئر۔لیکن والدین کی
اپنی بچوں کے تئیں عدم توجہیاُن کے نونہالوں کو ایک اچھا افسر تو نہیں دیکھ
سکتیں ہیں لیکن بھانگ،سگریٹ اور دیگر نشہ آور چیزوں کا ماسٹر ضرور دیکھتی
ہیں……جی ہاں! موجودہ دور میں دیکھا گیا ہے اکثر بچے اپنے اساتذہ کے غیر
ضروری دوستانہ رویہ اور والدین کے غیر سنجیدہ رویے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر
سکولی اوقات میں کلاس روم سے بھاگ آتے ہیں اور اوباش قسم کے لڑکوں سے اپنی
دوستی کو بڑھا کر خود کو تباہی کی طرف دھکیلتے ہیں ،آئے روز سکولوں سے بھاگ
بھاگ کریہ طلباء آہستہ آہستہ منشیات کی مہلک وباء کے شکار ہو جاتے ہیں پھر
ایک دن ایسا آتا ہے کہ یہی بچے جو کل کا مستقبل ہوتے ہیں منشیات کا ایسا
دھندہ کرتے نظر آتے ہیں جس سے پورا سماج متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ایسے
ہی طلباء پر اگر بر وقت اساتذہ اور خاص طور پر والدین اپنی نظر رکھتے تو آج
ہمارا ملک منشیات میں مقام اول پر نہ ہوتا۔اور تو اور پھروالدین کاسر بھی
شرم سے جھکنے کیلئے مجبور نہیں ہوجاتا جنھوں نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم
دیکرسماج میں سر اٹھا کر جینے کے خواب دیکھے تھے۔ بعد از خرابی والدین اپنی
غیر سنجیدگی کو ضرور کوستے ہیں لیکن ’’اب پچھتائے کیا ہو جب چڑیاں چُگ گئی
کھیت ‘‘کے مصداق شرمندگی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔اتنا کچھ ہونے کے
باجود بھی والدین آنے والے وقت کیلئے ایک لائحہ عمل اختیار نہیں کرتے بلکہ
اساتذہ یا پھر سماج کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
……………………
اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی
اور اپنے گریبان میں جھانکا نہیں جاتا
جبکہ والدین اپنے بچوں کی خبر گیری کرنے کیلئے سال میں ایک مرتبہ بھی سکول
میں اپنی تشریف آور ی کو یقینی نہیں بنا پاتے ہیں تاکہ سکول جا کر معلوم
کیا جا سکتے کہ ہمارا بچہ کون سے گل کھلا رہا ہے ۔اتنا ہی نہیں والدین سکول
سے دیر گئے لوٹنے کے بعد اپنے بچوں سے کبھی یہ پوچھنے کی زحمت گوارہ نہیں
کرتے کہ آپ اتنی دیر کہاں تھے؟۔ ان اوقات میں بچے کیا گل کھلاتے ہیں یہ
سامنے آنے کے بعد والدین کا اساتذہ یا پھر نظام پر بوکھلا جاناکوئی
دانشمندی نہیں۔لہٰذا والدین، اساتذہ ، سکولوں و کالجز کے پرنسپلز یا پھر
تعلیمی ٹھیکیداروں کو نجی تعلیمی اداروں پر لگام کسنے سے قبل اپنے گریبان
میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ کیا سرکاری سکول میں تعلیمی نظام کے بگڑنے کی
وجہ کہیں ہم خود ہی تو نہیں اگر ایسا ہے تو پھر اس صورتحال کا ذمہ دار ایک
دوسرے کو ٹھہرانے کے بجائے سب لوگ اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور
نبھائیں وگرنہ یہ لفاظی جنگ تعلیمی نظام کو سدھارنے کیلئے کارآمد ثابت نہیں
ہو سکتی بلکہ آپسی انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔
لباس ِغیر پہ اُنگلی اٹھانے سے پہلے
گریباں اپنی نظر میں رہے تو اچھا ہے |