بین الاقوامی ادارے کیوایس یونیورسٹی رینکنگ نے 18/2017کے
لئے دنیا بھر کی بہترین جامعات کی فہرست جاری کردی ہے ،جس میں دنیا کی
بہترین یونیورسٹی امریکہ کی ایم آئی ٹی ہے، جب کہ دوسرے،تیسرے اور چوتھے
نمبر پر بترتیب امریکی یونیورسٹیز سٹینڈفورڈ ، ہارورڈاور کیلیفورنیا انسٹی
ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ہے جبکہ پانچویں نمبر پر برطانوی کیمبرج یونیورسٹی
ہے۔رپورٹ کے مطابق پچھلے سال کی طرح اس سال بھی پاکستانی یونیورسٹیز خاطر
خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکیں اور پاکستان دیگر ایشیائی اور اسلامی
ممالک سے پیچھے رہ گیا۔ کیو ایس 2017/18کی عالمی درجہ بندی کے مطابق
500بہترین جامعات میں پاکستان کی صرف ایک یونیورسٹی کے مقابلے میں بھارت کی
8، چین کی 21، تائیوان کی 11، سعودی عرب کی 4، قازقستان کی4، تر کی کی5،
انڈونیشیا کی 3، ملائیشیا کی 5، جنوبی کوریا کی 14جامعات شامل ہیں جب کہ
کیو ایس درجہ بندی کے مطابق امریکا کی 5جامعات اور برطانیہ کی 4 جامعات
دنیا کی10 بہترین جامعات میں شامل ہیں یاد رہے کہ پاکستان کی صرف نیشنل
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ( نسٹ ) دنیا کی500جامعات کی فہرست میں
431ویں پوزیشن کیساتھ شامل ہے جبکہ قائداعظم یونیورسٹی 651-700، لمز لاہور
710-750 کی پوزیشن پر ہیں جبکہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی
لاہور، یونیورسٹی آف کراچی اور یونیورسٹی آف لاہور نے 801-1000 نے پوزیشن
حاصل کی۔ تین مزیدپاکستانی جامعات یو ای ٹی لاہور، یونیورسٹی آف کراچی اور
یونیورسٹی آف لاہور701ویں پوزیشن سے اس سال 801-1000پوزیشن پرآگئی ہیں ۔واضح
رہے کہ گزشتہ برس بھی 800بہترین جامعات میں 6پاکستانی جامعات شامل تھی اور
سال 1000بہترین جامعات میں بھی 6ہی پاکستانی جامعات شامل ہیں جن میں سے
4جامعات کی درجہ بندی میں تنزلی ہوئی ہے جبکہ پچھلے سال کی گلو بل کمپیٹنس
رپورٹ کے مطابق پاکستان اعلی تعلیمی میدان میں 140میں سے 124ویں نمبر پر
تھا ۔
بلاشبہ عالمی ادارے کی رپورٹ پاکستانی یونیورسٹیز کے حوالے سے انتہائی
مایوس کن ہے ،جس کےاسباب ان اداروں میں تحقیق و ریسرچ کا عالمی معیار پر نہ
ہونے سمیت متعدد ہیں ،قابل تشویش امر یہ ہے کہ وسائل کی فراوانی سمیت
سالانہ اربوں روپے کے فنڈز اور مواقع ہونے کے باوجودیہ تعلیمی ادارے عالمی
سطح پر اپنا مقام بنانے میں کیوں ناکام ہیں ؟یونیورسٹیز کی یہ حالت زار
جہاں ہائیر ایجوکیشن کمیشن سمیت دیگر متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ
نشان کے علاوہ یونیورسٹیز انتظامیہ کی اہلیت پر بھی نقطہ اعتراض ہے؟ آخر کب
تک نوجوانوں کوصرف اسناد کے چند اوراق تھما کراپنے پر عائد ذمہ داریوں سے
عہدہ برآں ہونے کی خود فریبی میں مبتلا رہیں گے؟ وہ عناصر ہیں جن کی وجہ سے
ہماری تعلیم گاہیں نسلی ،گروہی و صوبائی عصبیت کا شکار ہوچکی ہیں، ان سے
چھٹکارا کب ملے گا؟ کب ہماری نسل نو تحقیق و ریسرچ کے نئے دور کا آغاز کرے
گی ؟ کب ہماری دانش گاہیں غیر ملکی طلبہ کے لیے علمی معراج کی حیثیت اختیار
کریں گی ؟ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تعلیم برائے تحقیق و ریسرچ ہمارا "ماٹو
" نہیں بن جاتا ، جب تک ایجوکیشن ریفارمز کے ذریعے نظام تعلیم کی ابتر کو
ختم نہیں کیا جاتا ۔ |