راسپوتین کے پیروکار

اکثر سنتے ہیں کہ’’ یہاں کا تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے‘‘، یہ آوا کیوں بگڑا ہوا ہے اس کا تو ہمیں علم نہیں لیکن آج کل کے عاملین اور باباؤں کی بہتات اور ہوشربا کرامات و خرافات دیکھ کر بے ساختہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ ’’یہاں کا تو بابے کا باوا ہی بگڑا ہوا ہے‘‘۔ چند سال قبل تک جو لوگ کچھ نہیں کرسکتے تھے وہ سیاست کرتے تھے لیکن آج کے دور میں جنہیں روزگار کے ہر شعبہ سے ٹھکرادیا جاتا ہے وہ عامل و پیر بن جاتے ہیں اور اپنے عملیات سے لوگوں کی زندگیاں جنت اور جہنم بنانا شروع کردیتے ہیں۔ ہمارے بھی کئی واقف کار پیر و صوفی اور ماہرین عملیات و تعویزات کی مسند پر فائز ہوکر اپنے آستانے سے عوام کو روحانی فیض بانٹ رہے ہیں۔ انہی میں سے ہمارے ایک دوست جن کا شمار 25سال قبل ملک کے شہرئہ آفاق مجسمہ سازکی حیثیت سے ہوتا تھا اور ان کی فنکارانہ مہارت کے شاہکار آج بھی آرٹس کونسل کراچی میں ایستادہ ہیں، امریکہ چلے گئے تھے۔ ان کے فن کی نفاست دیکھ کر امریکی حکومت نے انہیں مجسمہ آزادی کی اوورہالنگ کا کئی ملین ڈالر کا ٹھیکہ دیا تھا، وہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر اپنا کام ادھورا چھوڑ کر پاکستان واپس آگئے اورکراچی کی ایک گنجان آبادی میں اپنا آستانہ بنا کر جھاڑ پھونک کا کام کرنے لگے۔ ہمارے استفسار پر انہوں نے اپنے پیشے کی تبدیلی کا سبب بتاتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں قیام کے دوران انہیں اپنے مرشد کی طرف سے حکم ملا کہ ان گناہوں کے کاموں کو چھوڑو اور اللہ کے بندوں کو روحانی فیض پہنچاؤ اس لئے وہ خود کو بلیک لسٹ کروا کر پاکستان واپس آگئے ہیں اور ان دنوں وہ سانپوں والے بابا سے روحانی لڑائی میں مصروف ہیں۔ اب ان سے کتنے بندگان خدا روحانی طور سے فیضیاب ہوئے اس کا تو ہمیں علم نہیںکیونکہ مذکورہ علاقے میں حالات کشیدہ ہونے کے باعث انہوں نے اپناآستانہ کسی اور آبادی میں منتقل کر لیا لیکن روحانی کاروبار سے متعلق یہی سوال جب ہم نے اپنے ایک اور دوست سے کیا جو سفلی عملیات کے ماہر سمجھے جاتے ہیں تو اس کے جواب میں انہوں نے ہمیں علامہ اقبال کا یہ شعر سنادیا جو بقول ان کے شاعر مشرق نے ماہرین عملیات و روحانیات سے متعلق ہی کہا تھا،
؎ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اس شعرکی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے دَر پر آنے والے حاجت مندوں کی زندگیاں ہمارے چند روز کے عمل سے جنت بن جاتی ہیں جبکہ جن کے خلاف وہ عمل کراتے ہیں ان کی زندگیاں جہنم کا نمونہ پیش کرتی ہیں اور ہم عامل یہ تمام کام ایسی غیر مرئی قوتوں کے ذریعے کراتے ہیں جو نہ نوری یعنی مئوکلات ہیں اور نہ ناری یعنی جنّات ہیں یہ بھوت پریت اور بد ارواح ہوتے ہیں جنہیں قابو میں کرکے ہم ان سے خاکی انسانوں کی حاجت روانی کیلئے ہر قسم کا کام لیتے ہیں اور ہمارے عملیات سے استفادہ کرکے کئی لوگ اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔

فقروفاقہ ماضی کے درویشوں کی عبادت کا ایک لازمی جزو ہوتا تھا لیکن آج کے دور میں پائے جانے والے خود ساختہ بابا اور درویش اپنے رب کی اتاری ہوئی تمام دنیاوی نعمتوں سے شکم سیر ہوتے ہیں جبکہ ان کے پاس آنے والے سائلین اور ان کے زیرکفالت افراد اس کے بعد فقروفاقے کا سامنا کرتے ہیں۔ پچھلے دور میں تو شاذونادر ہی پیر و اولیاء ملا کرتے تھے لیکن آج ہر محلّے میں دوچار دستار بند و جبہ پیر و صوفی اور عامل ملیں گے جبکہ ہندو اور عیسائی آبادی والے علاقوں میں سفلی عملیات و کالے جادو کے ماہرین بھی دستیاب ہوں گے۔ ہندو عاملین کریہہ حلیے کے ساتھ اپنے گندے سے استھان میں ان گنت دست و پا اور خوں خوار انداز میں زبان باہر نکالے خنجر بدست دیویوں کی مورتیوں، لمبی سی دم والے ہنومان دیوتاکے بت کے سامنے دو زانو بیٹھے ہوئے بڑی بڑی مالاؤں پر سنسکرت کے اشلوک و جنتر منتر جپتے ہوئے ملیں گے جبکہ عیسائی عامل غلاظت سے آلودہ کوٹھریوں میں عجیب الخلقت حلیے میں اپنے چیلوں کے ساتھ بیٹھے نظر آئیں گے ۔ پیر وں اور صوفیوں میں سے زیادہ تَر تو دور حاضر کے ولی اللہ کے مرتبے پر فائز ہونے کے دعویدار ہوتے ہیں جبکہ ان میں سے بیشترکے قبضے میںان کے بیان کے مطابق مؤکل اورجنّات بھی ہوتے ہیں جن سے وہ ہر وقت ہاٹ لائن پر رابطے میں رہتے ہیں اور اپنے مریدین و حاجت مندوں پر رعب ڈالنے کیلئے انہیں باقاعدہ جھڑکیاں دیتے ہوئے مختلف مشنز پر روانہ کرتے ہیں۔ ملنگ یا درویش بھی ہرگلی، کوچے و سڑک پر ننگ دھڑنگ اور رال ٹپکاتے ہوئے نظر آئیں گے جو خودکسی جن یا بھوت کا چربہ ہوتے ہیں۔ سٹّے باز انہیں پکڑ کر اپنی بساط کے مطابق ان کی خاطر داری کرکے ان سے سٹّے کے نمبر معلوم کرتے ہیں اور ان کی ہر اوٹ پٹانگ بات کو ذہن میں رکھ کر وہ مذکورہ نمبر پر سٹّہ لگاتے ہیں جس سے کبھی کبھار تو وارے نیارے ہوتے ہیں جبکہ اکثر اوقات سب کچھ ہارے ہوتے ہیں۔

مشرقی خواتین جہاں خانگی مسائل سے نبرد آزما ہونے کیلئے باورچی خانے کے ڈپلومیٹک حربے بروئے کار لاتی ہیں، وہیں زیادہ الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانے کیلئے صوفی، پیر و ماہرین عملیات و تعویزات کی خدمات بھی حاصل کرتی ہیں اور مذکورہ ماہرین روحانیات کی ہر ہدایت پر آفاقی فرمان سمجھ کر، جان جوکھوں میں ڈال کر بھی عمل کرتی ہیں۔ عام حالات میں مذکورہ خواتین چھپکلی، چوہے، بلی، لال بیگ، کتّے اور سنسان علاقوں میں جانے سے ڈرتی ہیں لیکن اپنی خود ساختہ الجھنوں، پریشانیوں، مصیبتوں کو ماہرین عملیات و تعویزات کے فرمودات کے مطابق سلجھانے کیلئے وہ رات کے پچھلے پہرکسی ٹوٹی ہوئی قبر میں تعویز دبانے، قبر کی مٹی لانے، مخالفین کے گھروں میں دَم کی ہوئی مٹی پھینکنے، ان کی دہلیز پر تعویز دبانے کیلئے تنہا جانے سے بھی گریز نہیں کرتیں اور اس عمل کو انجام دینے میں نہ تو انہیں قبرکے مُردوں کا خوف ہوتا ہے اور نہ پچھل پیری کی دہشت انہیں ہراساں کرتی ہے۔

کہتے ہیں آنکھوں دیکھے مکھی نہیں نگلی جاتی یعنی مکھی جیسی بے ضرر اور ننھی سی مخلوق کو نگلنے کیلئے بھی آنکھ بند کرنا پڑتی ہے لیکن بعض اوقات ناگہانی افتاد و بیماریوں سے چھٹکارے کیلئے سیکڑوں سال پہلے کے طب وسرجری کے ماہر اور موجودہ دور کے غائب روحانی طبیب و سرجن کے مزار کی زیارت کے بعد خواب میں ان کا حکم ملنے پر چھپکلی، بلّی سمیت دیگر مردہ جانوروں کے ڈھانچے کو کھلی آنکھوں کے ساتھ کھانے میں بھی کراہیت محسوس نہیں کرتیںکیونکہ بابا کا حکم ہوتا ہے کہ مکمل ہوش و حواس میں مذکورہ شے کو بلا کراہیت اورگھن کھائے ہوئے نوش کرنا ہے ورنہ اس عمل کا اثر زائل ہوجائے گا۔ ان خواتین میں صرف دقیانوسی نہیں بلکہ فیشن ایبل دوشیزائیں بھی شامل ہیں جو اتنی نفاست پسند ہوتی ہیں کہ مفلوک الحال علاقوں میں اپنے غریب رشتہ داروں کے گھرجانا گوارہ نہیں کرتیں، پرانے کپڑوں میں ملبوس یا دقیانوسی بود و باش رکھنے والی رشتہ دار خواتین کو خود سے اس لئے گزوں دور بٹھاتی ہیں کہ ان میں سے اٹھنے والے بدبو کے بھبھکے ان کی طبع نازک کو مکدّر کرتے ہیں جبکہ شوہر کو اپنا مطیع و فرماں بردار بنانے، ساس نندوں کو نیچا دکھانے کے تیر بہدف عمل کیلئے وہ ہندو و عیسائی ماہرین سفلی عملیات کی بوئے بَد سے بھری ہوئی کوٹھریوں میں گھنٹوں بیٹھ کر ان کے کریہہ چہروں کے درشن کی متمنی ہوتی ہیں اورشرف باریابی پر وہ ان کے غلاظت بھرے ہاتھ اپنے سر پر رکھوانے اور ان کے پاؤں دبانے سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔

شادی کے بعد زیادہ تر خواتین کو اپنے سسرالیوں میں ہر مرد و زن ظالم و جابر نظر آتا ہے جو ان کے شوہر کو ان کے خلاف ورغلا کر یا ٹونے ٹوٹکوں، کالے جادو کی طاقت سے نہ صرف ان کی ازدواجی زندگی کو برباد کرنے پر تلا ہوتا ہے بلکہ ان کی گود بھی سونی دیکھنے کا متمنی ہوتا ہے ۔ انہیں کسی دوسری عورت کا اپنے مجازی خدا کے ساتھ زیادہ میل ملاپ بھی برداشت نہیں ہوتا۔ شوہر کو ساس نندوں، دیورانی، جیٹھانی، مبینہ سوکن اور اپنی سوتیلی اولادوں کے چنگل سے نکال کر اپنے قدموں پر سجدہ ریز دیکھنے کی تمنا اور صاحب اولاد ہونے کی آرزوئیں لے کر وہ مذکورہ ماہرین نوری و سفلی عملیات کی چوکھٹوں پر ماتھا ٹیکتی ہیں۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ خواتین کے دیرینہ مسائل جو زیادہ تر شوہرکو الّو کی مانند اپنے سامنے بیٹھا دیکھنے کی آرزو یا سسرالیوں کو اسرائیلی یا عزرائیلی سمجھ کر انہیں ان کے مذموم مقاصد میں شکست فاش سے دوچار کرنے اور انہیں تباہ برباد کرنے پر مبنی ہوتے ہیں، انہیں نوری و سفلی عملیات کے ماہرین یا پیروں و صوفیوں کے دَر تک لے آتے ہیں۔ مختلف سلسلوں سے منسلک بابا اور نوری عامل تو ان تمام مسائل کا حل زعفران سے لکھے ہوئے سنہری تعویز، دم کیے ہوئے نمک، چینی یا پانی سے کرتے ہیں لیکن سسرالیوں کے معاملات وہ سات شیاطین کے نام لکھے ہوئے تعویزوں کو جوتے مارنے یا انہیں وزنی چیز کے نیچے دبانے کی ہدایت دے کر نمٹاتے ہیں جبکہ بھوت پریت یا بد ارواح کے توسط سے کام کرنے والے، مذکورہ خواتین و حضرات کے سسرالی حریفوں و دیگر خود ساختہ دشمنوںکو تباہ و برباد کرنے کیلئے مرگھٹ کی مٹی یا راکھ، گنڈے، فلیتے، آٹے سے بنائے ہوئے اور سوئیاں پیوست کئے ہوئے پُتلے، سیندور، چھالیہ، لونگیں عنایت کرتے ہیں جبکہ کسی مظلوم کی فریاد پر وہ انتہائی سزا یعنی سزائے موت دینے کیلئے بھوتوں یا چڑیلوں کے ذریعے جلتی ہوئی جادوئی ہانڈی پھِنکواتے ہیں جو مبینہ طور سے مذکورہ ’’مجرم‘‘ کے ماورائے عدالت قتل کیلئے ایک سریع الاثر عمل ہوتا ہے۔ شوہروں کو الّو کی طرح بیٹھا دیکھنے کی آرزو مند خواتین کی خواہش وہ الّو جیسے دانا پرندے کے جسم کے مختلف پارٹس سے پوری کرتے ہیں، شاید انہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ مغربی اور امریکی معاشرے کی آبادی زیادہ تر الّو پرستوں پر مشتمل ہے جو اس کی دانائی و ذہانت کی وجہ سے اسے جانوروں کے ارسطو کا درجہ دیتی ہے، اس کی کسی سینٹ یعنی روحانی پیشوا کی طرح پوجاکی جاتی ہے، ان کی لائبریریوں اور ڈرائنگ رومز میں اس دانشور پرندے کی تصاویر آویزاں ہوتی ہیں ۔ ہمارے ملک میں بھی امریکہ اور یورپ کی درس گاہوں سے فارغ التحصیل افرادکے ڈرائنگ رومز اور اسٹڈی میں دورِحاضر کے ارسطو کی تصاویر آویزاں ملیں گی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکی معاشرے میں بھی جادو، ٹونے اور جھاڑ پھونک پر اعتقاد موجود ہے اور وہاں موجود زیادہ تر ماہرین روحانیات مقامی افرادکے علاوہ پاک و ہند، بنگال، برما و افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اگر مغرب والوں کو ہمارے ماہرین عملیات کے ہاتھوں اپنے روحانی پیشواؤں کا مذکورہ حشر معلوم ہوگیا تو وہ اپنے یہاں موجود تمام بین البراعظمی ماہرین عملیات و تعویزات کو منظم کرکے ہمارے عاملین کے خلاف پہلی روحانی جنگ کا آغاز کردیں گے۔

پیروں، صوفیوں، ہندو و عیسائی، کالے علوم کے ماہرین کی نظرِکرم کے صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد حضرات بھی طلبگار ہوتے ہیں لیکن نسوانی و مردانہ مسائل مختلف ہوتے ہیں۔ عورتیں ساس نندوں اور دیگر سسرالی رشتے داروں سے شاکی اور اپنے اوپر سوکن مسلط ہونے اور سوتیلے رشتوںکا خوف لے کر ان باباؤں کا رخ کرتی ہیں تو مردکسی خاتون محبوبہ کو اپنے قدموں میں دیکھنے (باوجود اس کے کہ وہ پہلے سے ہی ایک عدد بیوی کے شوہر اور نصف درجن بچوں کے باپ ہوتے ہیں)، ملازمت میں ترقی و افسران کی نگاہوں میں قدر و منزلت، رقیب روسیا کو تہس نہس کرنے اور بغیر ہینگ اور پھٹکری لگے دولت مند بننے کی آرزو انہیں مذکورہ آستانوں پر لے جاتی ہے۔ لڑکپن کی حدود پار کرکے جوانی کی حدود میں پہنچنے والے لڑکے اور لڑکیوں کے نفسیاتی عوارض کو آسیبی و جن بھوتوں کی کارستانیاں قرار دے کر روز نئے نئے باباؤں کے کمالات دیکھے جاتے ہیں۔ بعض بابا و عامل ہوم سروس بھی دیتے ہیں اور گھر پر آنے کی صورت میں انہیں وہ سارا گھر ہی آسیب زدہ نظر آتا ہے جہاں بعض اوقات بد ارواح، جنّات اور آسیبوں کا خاندان ہی نہیں بلکہ پورا قبیلہ آباد ہوتا ہے جس سے ان کی مہینوں معرکہ آرائی ہوتی ہے اور اس جنگ و جدل کے سامان حرب کیلئے وہ مریض کے لواحقین سے ہزاروں ہی نہیں بلکہ لاکھوں روپے تک وصول کرلیتے ہیں۔ اس دوران ان باباؤں کے ساتھ انسانوں کی شکل میں جنّاتوں کے بادشاہ بھی مذکورہ گھروں کا ہنگامی دورہ کرتے ہیں لیکن آسیبی قبائل جِن بادشاہ کو بھی پسپا ہونے پر مجبورکردیتے ہیں۔

اپنے آستانوں اور جائے عملیات میں ان کا طریقہ علاج خاصا مختلف ہوتا ہے، وہ نفسیاتی عوارض میں مبتلا لڑکی یا لڑکے کا جن اتارنے کیلئے اسے موٹی موٹی زنجیروں سے باندھتے ہیں، اس کے سامنے آگ جلا کر اس میں تعویز، لوبان اور جڑی بوٹیاں ڈالتے ہیں اور اس کے دھوئیں کے سامنے مریض کا چہرہ کردیتے ہیں، اسے لوہے کی سلاخوں سے پیٹا جاتا ہے، تیز دھار آلے سے اسے زخم لگائے جاتے ہیں، سلاخیں آگ پر سرخ کرکے تپتی ہوئی سلاخ اس کے بدن پر لگائی جاتی ہے۔ ماں باپ یا لواحقین کے کمزورسے احتجاج پر ان کا جواب ہوتا ہے کہ اس کی ضرب آپ کے بچے پر تھوڑی پڑ رہی ہے یہ تو اس پر سوار جن یا بھوت کو بھگانے کیلئے سزا دی جارہی ہے۔ ان کے اس طریقہ علاج کی تاب نہ لاکرکئی لوگ نہ صرف بیماری بلکہ زندگی سے ہی چھٹکارا پا جاتے ہیں۔ ان کے اور افریقا کے وچ ڈاکٹروں کے طریقہ علاج میں وحشیانہ مماثلت پائی جاتی ہے۔

نئی صدی اور نئی ملینئم میں نہ صرف باباؤں کی طلب میں اضافہ ہوگیا ہے بلکہ طلب کے ساتھ ساتھ ان کی رسد بھی بڑھتی جارہی ہے اور معاشیات کا طلب اور رسد کا قانون یہاں صادق آرہا ہے کیونکہ ایٹم و کمپیوٹر کے اس جدید دور میں بھی خواتین و حضرات کے مندرجہ بالا مسائل نے آبادی میں اضافے کے ساتھ عاملوں اور باباؤں کی افزائش میں بھی اضافہ کیا ہے اور اب مختلف علاقوں میں مختلف چولے پہنے ہوئے پیر و صوفی، رنگ برنگے بابا جن میں انڈے والے بابا، چھڑی والے بابا، مٹکے والے بابا و دیگر بابا ملیں گے۔ شاید یہ بابا راسپوتین کی طرح ہپناٹزم کے ماہر ہوتے ہیں جن کے حکم پر ان کے مریدین قبر میں لیٹنے، خواتین اپنے بدن کے پوشیدہ حصوں پر ناخنوں سے تعویز لکھوانے اور اپنے جگر گوشوںکو ذبح کرنے تک میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں۔ اکثر اوقات ان باباؤں اور عاملین کے جنسی اسکینڈل بھی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے توسط سے منظر عام پر آتے رہتے ہیں جن کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ ماہرین روحانیات ڈیڑھ سو سال قبل سائبیریا کے علاقے پوکرسیکویو میں پیدا ہونے والے گریگوری یافیمووخ عرف راسپوتین کے تخلیق کردہ نظریہ ’’خلستی‘‘ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں جس میں روحانی افق تک پہنچنے کیلئے نفسانی و جسمانی خواہشات کو پورا کرنے کا درس دیا گیا ہے۔ راسپوتین نے اپنے نظریہ پر بذاتِ خود عمل کرکے اور اپنی روحانی و ہپناٹزم کی قوتوں کو بروئے کار لاکر روسی بادشاہ زارنکولس دوم کے دربار تک رسائی حاصل کی اور دربار سے وابستہ شاہی خواتین سے اپنے نظریہ کا عملی مظاہرہ شروع کردیا اور ایک وقت وہ آیا جب اس نے روس کی ملکہ زارینہ کے دل و دماغ کو مسخر کرکے زار روس کی پہلی عالمی جنگ میں مصروفیت اور اس کی روس میں عدم موجودگی کے سبب سلطنت کے حسّاس معاملات تک میں عملی طور سے دخل دینا شروع کردیا جس کی پاداش میں روسی شہزادے فلیکس یوسوپوف نے روسی پارلیمنٹ ڈوما کے ایک رکن اورگرانڈ ڈیوک ویمتری کو ساتھ ملا کر خلستی فتنے کے سدّباب کا فیصلہ کرلیا اور 1916ء میں راسپوتین کو زخمی کرنے کے بعد اسے رسیوں سے باندھ کر دریائے نیوا کی جمی ہوئی برف میں ایک سوراخ کے ذریعے دریا کی گہرائیوں میں پھینک دیا گیا۔ نظریہ خلستی کا بانی تو اپنے نظرئیے کے ذریعے سیاسی مقاصد کے حصول کی پاداش میں انجام بَد سے دوچار ہوگیا لیکن ہمارے یہاں پھیلے ہوئے اس کے لاکھوں پیروکار اس کی تعلیمات کو معاشی و اقتصادی فوائد اور جسمانی و نفسانی خواہشات کی تکمیل کیلئے استعمال کرتے ہیں اور شاذونادر ہی قانون کی گرفت میں آتے ہیں۔
Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223231 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.