یار گلاس دھو کر پانی پینا

میں ایک درسگاہ کے واٹر کولر کے قریب پانی پینے کے لیے انتظار کرنے والوں کی لگی لمبی لائن میں اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک آواز نے مجھے چونکا کر ایک الگ ہی دنیا میں پہنچا دیا کہ ''یار گلاس دھو کر پانی پینا'' میں ان الفاظ کو سمجھنے کی ناکام سی کوشش میں اپنے ذہن پر زور ڈال رہا تھا کہ کس وجہ سے اس لڑکے نے یہ الفاظ کہے ہیں، اس کے جواب میں میرے ذہن میں یہ بات ابھری کہ شاید اس سے پہلے پانی پینے والا کوئی مریض ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے احتیاطاً گلاس دھونے کی بات کی گئی، ابھی میں اسی بات پر غور کر ہی رہا تھا کہ اس کی وضاحت نے میرے دل کو خون کے آنسو رلا دیا اس نے کہا: میں اس لیے گلاس دھونے کی بات کر رہا تھا کیونکہ اس میں ایک ''پنجابی ''نے پانی پیا ہے اور ہم پنجاب کے رہنے والوں سے اس قدر نفرت کرتے ہیں کہ ان کا جھوٹا پینا تو دور کی بات ان کے استعمال کیے ہوئے برتن کو بھی دھو کر استعمال کرتے ہیں۔

یہ ایک غیرمسلم ملک کے جنگلی باسیوں کی کہانی نہیں بلکہ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی ایک مادر علمی کی ہے جہاں پہ طالب علموں کی اتفاق واتحاد اور بھائی چارے کا درس دیا جاتا ہے، جس ملک کے صرف چار صوبے ہیں اور ہر صوبے میں اسلام کے نام لیواؤں کے علاوہ کوئی نہیں بستا جہاں صرف مسلمانوں کی حکومت کا اعلان کیا جاتا ہے، لیکن یہ وہی ملک ہے جس کے ایک صوبے کا نام بدلنے کا صرف اس لیے تقاضا کیا گیا کہ ملک کے باقی صوبوں کے نام ان کے باسیوں کے زبان کی بنیاد پر رکھے گئے ہیں اور ان کے دلوں کے اندر جب تعصب کی آگ کو بھڑکایا گیا تو اس مطالبے نے سر اٹھا کر ایک ایشو کی حیثیت حاصل کر لی ، یہ وہی ملک ہے کہ جس کے لوگ صرف اس لیے اپنی جان تک قربان کرنے کی بات کرتے ہیں کہ کسی اور صوبے میں کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع نہ ہو سکے، جس کی واضح مثال ہمارے بعض وزراء نے پیش کی کہ اگر پنجاب میں ڈیم بنا تو اس سے پہلے حکومت وقت کو ہمارے لاشوں سے گزر کر جانا پڑے گا، اے غیور مسلمان! تیرا یہ جذبہ اس وقت کہاں جاتا ہے جب ہمارے پیارے نبی ؐ کی حرمت پر داغ لگانے کیلئے کفار اپنی سی کوشش کرتے ہیں اس وقت تو تجھے اتنی فرصت بھی نہیں ملتی کہ صرف ایک مذمتی بیان بھی جاری کر دے اور یہ سارا معاملہ مسجد کے مولانا صاحب کے سپرد کر دیا جاتا ہے، اور اس وقت اتنی سختی کہاں جاتی ہے جب کافر مسلمان ملک کی سرحد پر حملہ کرتا ہے اور یہ معاملہ صرف فوج کے جوانوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے اور قیادت ساری کی ساری ایوانوں میں سے آرڈر جاری کر رہی ہوتی ہے۔

کیا مسلمانوں کے بارے میں اسلام کی تعلیمات اتنی کچھ ہم نے سمجھی ہیں کہ ایک مسلمان کے جھوٹے کو شفا سمجھنے کی بجائے اس کے استعمال شدہ برتن میں پانی پینا بھی گوارہ نہیں کرتے اور اس کے برعکس کافروں کی بنائی ہوئی چیزوں اور ان کی دی ہوئی رقوم کو بڑے فخر سے استعمال کر رہے ہیں۔

کیا یہی اسلام ہے کہ ایک مسلمان کو اپنا بھائی سمجھنے کی بجائے اس کی اس قدر توہین کی جائے کہ اسے انسانیت سے خارج کر دیا جائے۔ کیا مسلمانوں کی شیوہ یہی ہوتا ہے کہ وہ قومیت پرستی اور تعصب کو اس قدر دل ودماغ میں جگہ دیں کہ باقی تمام امور سے غافل ہو جائیں۔ کیا اسلام نے یہ حکم نہیں دیا کہ ہم نے قبائل اور گروہ اس لیے بنائے ہیں تاکہ تم لوگ ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔ کیا اسلام کی تعلیمات میں یہ بات شامل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضلیت اور بڑائی کا شرف صرف اس کی قسمت میں آتا ہے جو تقویٰ کے لحا ظ سے افضل ہے۔ کیا اسلام نے یہ حکم جاری نہیں کیا کہ جس نے اپنے آپ کو جاہلیت کی کسی بات کی طرف منسوب کیا وہ ہم میں سے نہیں۔

اسلام میں تو ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا گیا ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی تکلیف ہوتی ہے تو سب کو مل کر اس کی تکلیف کا ازالہ کرنا چاہیے جس میں سب سے پہلا حق تو ملک کے سربراہان کا ہے جن سے ان کے مسؤلیت کے بارے میں سوال وجواب بھی ہونے ہیں۔ آج ہم لوگ امریکی یا دیگر وزراء کے دور حکومت کی مثال تو دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ادوار میں اصلاحات کی ہیں لیکن خلفائے راشدین کے سنہری ادوار سے کیوں منہ موڑتے ہیں اور ان کی کی گئی اصلاحات کو کیوں پس پشت ڈال کر انجان بن جاتے ہیں کہ حکمران تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسا ہونا چاہیے جو ساری رات اپنے رعایا کی خدمت کیلئے مدینے کی گلیوں میں گھومتے تھے کہ اگر کسی کو تکلیف ہو تو اس کا خاطر خواہ ازالہ کیا جا سکے، کیا آج کا کوئی حکمران ایسا کر سکتا ہے نہیں ہرگز نہیں آج کے حاکم کے ساتھ اگر سیکورٹی کی پوری فوج نہ ہو تو یہ باہر نہیں نکل سکتے ان کی حفاظت کی خاطر جب سڑکوں کو بلاک کیا جاتا ہے تو شاید کتنے ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ مریض راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ اور سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ تو ایسی مثال قائم کی کہ تاریخ اس کے بعد ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر نظر آتی ہے ان کے دور میں ایسا وقت آیا کہ جب کوئی آدمی کسی کو زکوۃ کا مال دینے کی پیشکش کرتا تو اسے جواب ملتا تو کہ میں تو خود پریشان ہوں کہ زکوۃ ادا کرنی ہے اور کوئی ضرورت مند ہی نظر نہیں آتا، اس کے برعکس آج کے دور میں تو صرف لوگوں سے زکوۃ اکٹھی ہی نہیں کی جا سکتی جو امیر ہے وہ مزید اپنے مال کی بڑھانے کی تگ ودو میں ہے اور جو غریب ہے وہ غربت کی دلدل میں اس قدر پھنس چکا ہے کہ وہ احتجاج کیلئے اپنی آواز بھی بلند نہیں کر سکتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اس حدیث مبارکہ کے پیش نظر اپنے افکارواعمال کو سنوارا کہ : کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن افسوس! اس طرح کے واقعات کیونکر پیش آتے ہیں جبکہ ہمار ا ملک خالصتاً اسلام اور اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے حاصل کیا گیا ہے۔ اگر اس ''کیوں'' پر بنظر دقیق غور کیا جائے تو مسائل کے انبار نظر آئیں گے جن میں سے سب سے پہلی بات تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ملک پاکستان میں نفاذ اسلام کی کوئی مخلصانہ کوشش کی ہی نہیں گئی اور اگر کوئی تحریک شروع بھی ہوئی تو یا تو اس کی قیادت کو بیرونی دباؤ کے نتیجے میں کچل کر رکھ دیا گیا یا پھر اس میں اپنے خاص لوگوں کو شامل کر کے اس کے ایجنڈے کو خاب وخاسر کر کے سر عام ان کو بے عزت کیا گیا تاکہ کوئی اور اس قسم کی جرأت نہ کرنے پائے۔

دوسری بڑی وجہ یہ ہے ایک اسلامی ملک میں جب کسی حاکم کو منتخب کیا جاتا ہے تو اس بات کو عمداً نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ جس آدمی کو ہم ایوان میں لا رہے ہیں دین کے بارے میں کتنی سمجھ بوجھ رکھتا ہے اور اس کے برعکس اس وزیر کے گریجویٹ ہونے کو ترجیح دی جاتی ہے، یہاں تک نہیں بلکہ اسلام کے نام لیواؤں اور دینی علم رکھنے والوں کو حکومت سے دور رکھنے کیلئے وفاق المدارس کی اسناد کو بھی ایشو بنایا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے وزراء کورٹ کے سامنے اسلام کے بنیادی مسائل کے بارے میں بھی جوابدہ نہیں ہو سکتے جس سے ان کے ساتھ ساتھ پوری قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے، جب ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں اسلامی سلطنت کی باگ ڈور آ جاتی ہے تو اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔

تیسری بڑی وجہ متعصب رویہ کے حامل افراد کی بیرونی سرپرستی ہے جہاں سے ایسے لوگوں کو مالی تعاون ملتا ہے جس کے بدلے میں وہ ملک میں لسانی اور نسلی تعصب کو ہوا دیکر سادہ لوح عوام کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔

ایسے حالات میں حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا سختی سے نوٹس لے اور ملک سے تعصب کی فضا کو ختم کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے جس سے ملکی امن وسلامتی اور اتفاق واتحاد کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔
M H Danish
About the Author: M H Danish Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.