جہیز ایک بجلی گراتا لفظ

ایک ایسا لفظ کہ جو نئے رشتوں کے آغاز پر ہی مسرت بھرے پر رونق چہروں پر کیسے بجلی بن کر گرتا ہے۔ جب ٹیلی فون پر کچھ لوگ خاص مہمان بن کر آنے کی خوشخبری سناتے ہیں تو دوسری طرف کیسے جشن کا سا سماں بندھ جاتا ہے۔ طرح طرح کے پکوان تیار کئے جاتے ہیں، گھر کو خوب چمکایا جاتا ہے، تمام افراد رنگ برنگے ملبوسات زیب تن کئے ہوئے ڈور بیل بجنے کا انتظار کرنے لگتے ہیں کہ اچانک گھنٹی بجنے کی آواز سب کو چوکنا کر دیتی ہے اور پھر ہنستے مسکراتے چہروں کے ساتھ کچھ لوگ اندر داخل ہوتے ہیں جن کا انتہائی احترام اور گرم جوشی سے استقبال کیا جاتا ہے۔ سب مل بیٹھتے ہیں اور نئے رشتوں کو جوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں، اس بات کے طے ہوتے ہی مٹھائیوں کی تقسیم کے سلسلے کا آغاز ہو جاتا ہے اور ہر طرف مبارک باد کی وصولیاں شروع ہو جاتی ہیں، مگر پھر اچانک۔۔۔اچانک ایک لفظ کا تقاضا انتہائی بے دردی سے کر دیا جاتا ہے اور یہ کیسے کچھ چہروں کی تازگی کو ماند کر جاتا ہے اور وہ ہے "جہیز"۔۔۔۔۔

یہ کوئی نیا ایشو نہیں بلکہ کئی برسوں سے اس نے ہمارے غریب اور درمیانے طبقے کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان کی بیٹیوں کے جوان ہوتے ہی ان کی راتوں کی نیند اڑتی جاتی ہے، طرح طرح کی سوچیں ان کا دماغی سکون چھیننا شروع کر دیتی ہیں، باپ جب تھکا ہارا شام کو گھر لوٹتا ہے تو وہ کمزور سا دکھائی دینے لگتا ہے کہ جیسے روز بروز اسے کوئی دکھ اندر ہی اندر کھاتا جا رہا ہو اور اسے سکھ کا سانس نہ لینے دیتا ہو۔ ظاہر ہے کہ جہیز کی چیزیں اکھٹی کرنا شروع کرنا ایک انتہائی ذمہ داری اور دن رات ایک کر دینے والا کام ہے۔ اور پھر جس تیزی سے ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھوتی جا رہی ہیں اسے تو دیکھتے دیکھتے نچلے طبقے کی گردن اب شدید درد کی وجہ سے بہت جھک گئی ہے۔

ہمارے معاشرے میں اس لفظ کی ادائیگی لڑکے والوں کی طرف سے ایسے بے تکلفی سے کر دی جاتی ہے کہ جیسے کسی معمولی سی چیز کا تقاضا کر رہے ہوں۔ اور آج کل تو ضرورت کی مقررہ چیزوں کے علاوہ اور بھی بہت سی گھریلو اشیا کے ساتھ ساتھ گاڑی، موٹر سائیکل کا دھڑلے سے مطالبہ کیا جاتا ہے۔ انھیں تو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ الفاظ تو کسی خوفناک بجلی کی طرح لڑکی کی والدین پر کڑکے ہوں گے۔ ان کی سختی اور بوجھ ان بزرگوں کو اور بھی کمزور سا کر جاتا ہے۔ بس۔۔۔پھر ایک آہ "کہ بیٹی کو آخر کب تک گھر بٹھائیں رکھیں گے "یہ سوچ کر وہ لڑکے والو ں سے کچھ وقت کا تقاضا کرتے ہیں اور پھر لگ جاتے ہیں دن رات جہیز کی ان گنت چیزوں پر مشتمل چھوٹی بڑی اشیاء کی لسٹ کو مکمل کرنے پر ۔۔۔آخر کار انتہائی محنت اور لاکھوں کے قرض کے بوجھ تلے دبے والدین کو رخصتی کی تاریخ دے دی جاتی ہے،اور لڑکی بخیروعافیت اپنے والدین کی دعاؤں اور نیک تمناؤں کے سائے تلے اپنے گھر کی دہلیز ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر پیا دیس سدھار جاتی ہے۔ ۔۔

مگر آگے جا کر طوفان کہاں ٹلتا ہے، بلکہ آہستہ آہستہ چھوٹی سی چھوٹی چیز کی بناوٹ اور معیار پر بحث کا افتتاح۔ اور اگر سرے سے جہیز نہ دو یا ضرورت کی دو چار چیزیں دے کر رخصتی کر دو،تو پھر زندگی بھر آگ کی تپش کی طرح جلاتے الفاظ کا شور۔۔۔۔

"۲۰۰۹ کی رپورٹ کے مطابق لڑکیوں کو زندہ جلائے جانے کی بنیادی وجہ "جہیز"ہے" . انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 300 ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ جن میں خواتین کو زندہ جلائے جانے کی ایک اہم وجہ جہیز بھی ہے !

گاؤں میں تو یہ باتیں اور واقعات عام ہوتے ہیں مگر جب شہروں کے پڑھے لکھے لوگ اس طرح کا کوئی بھیانک قدم اٹھائیں تو ان کی اس جاہلیت اور سفاکی پر اور بھی زیادہ دکھ ہوتا ہے، رونا آتا ہے۔

اس بھاری بھر کم جہیز کا مطالبہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ اب دکھاوے اور مصنوعی بناوٹ کا دور دورہ ہے، لوگوں کے دلوں میں لالچ نے گھر کر لیا ہے۔ گھروں کی مائیں بہنیں اپنے ہمسایوں کی بہوؤں سے زیادہ امیر اور گھر کو قیمتی اشیا سے ریل پیل کر دینے والی لڑکی لانا چاہتے ہیں کہ جو محلے میں ان کی شان بڑھا دے اور ان کی ناک کو اونچا کر دے۔ وہ لوگ چھوٹی سے چھوٹی چیز کا تقاضا تو یوں کر دیتے ہیں کہ جیسے خدانخواستہ خود خالی گھر میں عام سی چیزیں لئے کسی فقیر کی طرح زندگی بسر کر رہے ہوں ۔۔۔۔۔

ہم سب جانتے ہیں کہ حضورﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ  کے نکاح میں کیا کیا چیزیں دی تھیں اور جن کو
حضرت علی  نے کس خوشی اور رضا سے قبول کیا تھا ۔ مگر نا جانے کیوں اس اعلی ٰ مثال کو اس پاک اور پیاری ہستی کو بھی ہم نعوذ باللہ نظر انداز کر جاتے ہیں اور کوئی سبق نہیں سیکھتے کیونکہ ہم انتہائی اخلاقی پستی کا شکار ہو تے جا رہے ہیں۔

بلکہ حال تو یہ ہے کہ لوگ آج کل جتنا کچھ جانتے ہیں اس کے باوجود کس طرح ان فضول کاموں میں پڑے ہوئے ہیں اور کیسے کھلم کھلا پوری دنیا کے سامنے لڑکی والوں کے لئے ان تکلیف دہ خواہشات کا اظہار کر جاتے ہیں۔ اس کی بے شمار مثالیں آپ اتوار کے میگزین میں اندرونی صفحات پر ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ جہاں لڑکے والوں کی طرف سے ایک ایسی امیر، خوب صورت جواں سال لڑکی کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ جو نا صرف خود اچھا کماتی کھاتی ہو بلکہ لڑکے کو بھی کوئی نمایاں کاروبار کرا کے دے سکتی ہو۔اور کبھی کبھی تو یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ چاہے لڑکی طلاق یافتہ ہی کیوں نہ ہو بس مال دار ہو۔ یعنی کنوارے لڑکے کے لئے طلاق یافتہ لڑکی پر بھی کوئی اعتراض نہیں وہاں لڑکی والے خوشی سے اپنی رضامندی ظاہر کر دیتے ہیں اور اس بات سے فی الحال بے خبر ہوتے ہیں کہ یہ سب صرف اور صرف لالچ پر مبنی ہے اور یہ بھی کہ وہ اپنے فرض سے سبکدوش تو ہو رہے ہیں مگر اس کے بعد مطالبات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ ان لالچی لوگو ں کو تو مال سے لینا دینا ہے اور اب ان کی بیٹی کو اب وہ وقتاً فوقتاً اپنے ہی گھر میں بھکاری بناکر اپنی روز بروز بڑھتی ہوئی بے جا ضروریات کے لئے بھیگ مانگنے پر مجبور کیا کریں گے۔ لڑکی کی آنکھیں اور چہرہ تو پہلے ہی آنسوؤں سے نم ہوتے ہیں اور انکار کی صورت میں دل پر تیر چلاتے تیز زخمی کر دینے والے نوکیلے الفاظ۔۔۔

یہ سب عام سی باتیں بالکل بھی نہیں اور نہ ہی ایسی کہ ان کو نظر انداز کر دیا جائے۔ جس پر بیتتی ہے اصل تکلیف کا احساس تو اس کے دل میں پوشیدہ ہے اور کئی تو اپنے دلوں میں ہی اس زمانے کی بے حسی دبائے اس مطالبات سے بھری کائنات سے ہمیشہ کے لئے خاموش دنیا میں رخصت ہو گئیں، اس معاشرے کے کچھ ظالم سسرالیوں کے ہاتھوں منوں مٹی تلے دفن کر دیں گئیں اور سنگ دلی تو یہ کہ انصاف کے لئے ان کے دردو غم سے نڈھال رشتہ دار دن رات تھانوں کے چکر لگاتے، دھکے کھاتے، مختلف بہانے سنتے اور کسی حق و سچ کا ساتھ دینے والے پولیس افسر کی تلاش میں مایوس ہو کر واپس کس طرح ٹوٹے دلوں کے ساتھ اپنے گھروں کی جانب تکلیف دہ سفر طے کرتے ہیں، آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، التجائیں کرتے ہیں اور آخر میں ڈھیر ساری بد دعائیں دے کر اپنا غم و غصہ دور کرنے کی خود کو جھوٹی تسلی دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔۔۔

ہمیں آج مختلف دارلامانوں میں ایسی بے شمار لڑکیاں دیکھنے کو ملیں گی کہ جو معاشرے کی اس ستم ظریف جہیز کے تقاضے کو پورا نہ کر سکنے پر چھلنی ہوئیں پڑی ہیں۔ اس سلسلے میں تو صرف اب ہماری حکومت ہی کو کوئی انتہائی سخت اقدام کرنا چاہیئے کہ جہیز میں صرف ضرورت کی چند چیزیں ہوں جن کا بندوبست کرنا لڑکی والوں کے لئے زیادہ مشکل نہ ہو اور نہ ہی انھیں کسی کا مقروض ہونا پڑے۔ اس پر ہماری گورنمنٹ سختی سے عملدرآمد بھی کرائے اور ہماری عدالتوں میں بھی اس کے متعلق کوئی ایسا قانون پاس ہو کہ جس کی خلاف ورزی پر ایسے بے حس لوگوں کو جرمانہ کیا جائے اور سزا دی جائے تاکہ دوسرے بھی اس سے سبق سیکھیں۔ صاحب حیثیت لوگوں کو آگے آنا چاہیئے نہ کہ بس ساری عمر اپنی تجوریوں ک منہ تک بھرے رکھنے کی لگن میں مگن رہنا چاہیے۔ ان کے اس فیصلے سے سینکڑوں لڑکیاں گونگی، جلائے جانے، جسمانی تشدد اور معذور ہونے سے بچ سکتی ہیں۔

مگر یہ بھی تب ممکن ہو ناں کہ جب ہماری حکومت ایوانوں میں انتہائی ٹھنڈا ماحول ہونے کے باوجود آپس میں چھوٹے سے ایشو پر کسی تپتے سورج کی طرح گرم ہو کر گھتم گتھا ہوجانے اور گالم گلوچ سے فارغ ہوکر ہم جہالت، مہنگائی، غربت، بے روزگاری کے دکھوں سے چور اور پریشان حال چہروں کے تاثرات کو دل سے محسوس کر سکے !!!
shaistabid
About the Author: shaistabid Read More Articles by shaistabid: 30 Articles with 25357 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.