مولانا رومی کہتے ہیں کہ خدا تک پہنچنے کے بہت سے راستے
ہیں لیکن میں نے خدا کا پسندیدہ ترین راستہ مخلوق سے محبت کو چنا ہے۔
’’یتیم کو معاشرے میں باوقار کیجئے‘‘ …… سلوگن بہت خوبصورت اور پُرعزم ہے
کہ والد کی وفات کے بعد بالخصوص سفید پوش گھرانوں کے بچوں کا کوئی پُرسان
حال نہیں ہوتا ۔ درحقیقت یہ بچے معاشرے کی ذمہ داری بن جاتے ہیں ۔ اگر ہم
بغور دیکھیں تو یہ ہوبہو ہمارے بچوں کی طرح دکھائی دیں گے …… فرق صرف یہ
ہوگا کہ باپ کا سایہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ سڑکوں پر ہیں جبکہ ہمارے بچوں کو
گھروں کی چھت اور والدین کی شفقت میسر ہے …… ان میں بھی اپنے بچوں جیسا درد
محسوس کرنا اور انہیں چھاؤں فراہم کرنا ہی مخلوق سے محبت کے بہترین طریقوں
میں سے ایک ہے ۔
ہمارے ایک دانا دوست افتخار افی نے خوب کہا کہ ’’جب ہم جیسے لوگ اپنا فرض
نہیں نبھاتے تو این جی اوز بنتی ہیں‘‘ …… بات درست بھی ہے کہ فلاہی اداروں
نے ہی معاشرے کے پسے ہوئے اور نظرانداز طبقات کو سنبھالا ہوا ہے ، وگرنہ
حالات نسبتاً بدتر ہوتے …… گذشتہ دنوں مختلف این جی اوز کے ایک مشترکہ پلیٹ
فارم پاکستان آرفن کئیر فورم کے زیر اہتمام یتیم بچوں کا عالمی دن منایا
گیا ۔ ملک بھر میں تقاریب ہوئیں ۔ بڑے بڑے سیاستدانوں اور دانشوروں نے یتیم
بچوں کی سرپرستی اور راہنمائی کے حوالے سے واشگاف تقریریں ، بلند و باگ
وعدے اور دعوے کئے ۔ بڑے بڑے پروگرامات کے ذریعے شرکاء کو آگہی دی گئی اور
بہت سے مشوروں اور تجاویز کا تبادلہ ہوا ، تصویری سیشن ہوئے اور دن گزر گیا
…… پاکستان میں ’’یومِ یتامیٰ‘‘ غالباً گذشتہ 6 سال سے منایا جارہا ہے ۔ ہر
سال ایسے ہی تقاریب ہوتی ہیں ۔ یتامیٰ سے اظہار ہمدردی کیا جاتا ہے ،
سرپرستی اور کفالت کا عزم ہوتا ہے …… اور اگلا دن چڑھنے پر سب بھول بھال کر
اپنی دنیا میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔
پاکستان وہ خطہ ہے جہاں یتیم بچوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ
ہورہا ہے ۔ ملک میں اس وقت 42 لاکھ سے زائد بچے یتیم ہیں ، جن کی کفالت
حوالے وسیع پیمانے پر آگہی پھیلانے کی ضرورت ہے ۔ یتیم پروری بہت بڑی عبادت
ہے اور محروم طبقات کی زندگیوں میں رنگ بھرنے کیلئے قدرت کی جانب سے ہمیں
’’ سہولت کار‘‘ بنایا گیا ہے ۔ لہذا یتامیٰ کا دن صرف منانے کی حد تک نہیں
ہونا چاہئے بلکہ اس میں ان کی کفالت کے انتظام کیلئے بھی صحیح معنوں میں
دست تعاون دراز ہونے چاہئیں ۔ کوئی ان سیاستدانوں ، دانشوروں اور دیگر
مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے پوچھے کہ اجتماعات میں یتامیٰ کی
کفالت کا ’’درس‘‘ دینے کے بعد انہوں نے خود اس مہم میں کتنا عملی حصہ لیا ،
تو جواب ندارد ہی ملے گا۔
قابل ذکر امر یہ بھی ہے کہ یتیموں کے حقوق اور فلاح و بہبود پر کام کرنے
والے ادارے بھی شاید وسیع پیمانے پر ان بچوں تک رسائی نہیں کرسکے ۔ گنتی کے
ادارے ہیں جو یتامیٰ اور سٹریٹ چلڈرن پر کام کررہے ہیں ، الخدمت فاؤنڈیشن
جیسی چند ہی این جی اوز ہیں جو ان کی الجھنوں کو اپناکر ، داغِ یتیمی دور
کرنے کیلئے عملی اقدامات کررہی ہیں ۔ اس مشن کا دائرہ کار بڑے پیمانے پر
پھیلانے اور گلی گلی وسعت دینے کی ضرورت ہے ۔
میں جب بھی کسی شاہراہ پر کھڑی بھیک مانگتی یا اشیاء بیچتی بیوہ کے ساتھ
کسی بچے کو دیکھتا ہوں تو اس کی معصوم آنکھوں سے دکھ اور محرومیاں جھانکتی
واضح دکھائی دیتی ہیں …… مجھے گھروں میں کام کرتی چھوٹی چھوٹی بچیوں (ہاؤس
میڈز) پر بھی ترس آتا ہے کہ ہم کیسے ابتدائی عمر میں ان بچیوں سے معصومیت
اور بچپنا چھین لیتے ہیں اور اس کا احساس بھی نہیں ہوتا …… ہمیں ذرا خیال
نہیں آتا کہ ہمارے بچوں کی طرح ان کا بھی کھیلنے کو دل کرتا ہوگا …… کیا
کبھی ہم نے ٹریفک سگنل پر گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے یا مارکیٹوں میں بچوں
کیلئے کتابیں بیچتے کمسن کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا؟ …… چوراہے پر پھول
بیچتے یا مکینک کی دکان پر ہاتھ کالے کرتے کسی معصوم سے اس کی مجبوری
دریافت کی؟ اس کی سماجی محرومیوں سے متعلق معلوم کیا؟ ہمیں تو ہوٹلوں میں
کام کرتے معصوم ’’چھوٹے‘‘ پر بھی رحم نہیں آتا …… معاشرے کے یہ تمام کردار
تلخ حقیقتیں ہیں ، جو حسرت و یاس کے ساتھ ہمارے کھلکھلاتے بچوں کو دیکھتے
ہیں اور ہم جانتے بوجھتے ان سے نظریں چراتے ہیں …… یتیمی زمانے بھر کا دکھ
ساتھ لاتی ہے اور جو گھرانہ ، جو معاشرہ یتیموں پر شفقت کرتا ہے ، اس پر
رحمت اور آسانیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں ……
یتامیٰ کی کفالت اﷲ کی شکرگزاری کا بہترین طریقہ اور اسلام میں بہت بڑی
عبادت کی حیثیت رکھتی ہے ۔ سیرت کے اقوال اور فرمودات قرآن سے بھی ہمیں
کفالت یتامیٰ کی ترغیب ملتی ہے ۔ صحابہ تو اس سنت کی پیروی کی خاطر جنت کے
حصول اور قربت الٰہی کیلئے گلیوں میں یتامیٰ تلاش کیا کرتے تھے ۔ اخلاقیات
کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جو درجہ ہم اپنی اولاد کو دیتے ہیں ، وہی حیثیت
یتیم کو بھی دی جائے ۔ ہم ان کے باپ نہیں لیکن باپ جیسا تو بن کر دکھا سکتے
ہیں نا …… معاشرے کے ارباب اختیار سے والدین جیسی شفقت کی امید لگائے یہ
بچے ہماری توجہ اور پیار کے متقاضی ہیں ۔ سرکاری ، سماجی اور انفرادی سطح
پر ان کی کفالت حوالے منظم منصوبہ بندی اور مربوط قانون سازی ہونی چاہئے ……
ہماری اولین انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس ضمن میں آگے بڑھیں یا
پھر انہیں پالنے پوسنے والے اداروں کا ساتھ دیں …… اپنی زبان ، عمل اور
رویوں سے معاشرے کو یتیم دوست بنائیں ۔ ان کی زندگی میں امید کا دیا روشن
کریں تاکہ وہ ٹھکرائے ہوئے بچوں کی حیثیت اختیار نہ کریں اور معاشرے کیلئے
سودمند رہیں ۔
اس امر کی بھی اشد ضروت ہے کہ عالمی ایام کی طرح یوم یتامیٰ کو ہر سطح پر
ہائی لائٹ کیا جائے ۔ حکومت بھی اس جانب توجہ کرے اور میڈیا بھی …… محض
حقوق اجاگر کرنے کیلئے سیمینارز کا انعقاد ، تقاریر اور تحاریر ہی کافی
نہیں ۔ ٹی وی ڈراموں میں ایسے بچوں کے مسائل اجاگر کیے جائیں اور ان پر
شفقت کی ترغیب دی جائے تو نہ صرف معاشرے میں مثبت روایات جنم لیں گی بلکہ
ہیومن انٹرسٹ پیدا ہونے کی صورت میں اصل ترقی بھی تب ہی ممکن ہو پائے گی ۔
پاکستان میں الخدمت فاؤنڈیشن یتامیٰ کی کفالت حوالے بہت بڑا نام ہے ۔ غزالی
ایجوکیشن ٹرسٹ ، ایدھی ٹرسٹ ، منہاج ویلفیئر ، سویٹ ہومز ، ایس او ایس ،
یتیم خانے اور ایسے ہی ادارے یتامیٰ کی فلاح و بہبود پر کام کررہے ہیں ……
آرفن کئیر کا یہ کام بہت مبارک عمل ہے ، تاہم اس دائرے کو بڑھانے کی ضرورت
ہے ۔ اس ضمن میں مناسب وسائل کی فراہمی کیلئے کارپوریٹ سیکٹر کی شراکت اور
سماجی ذمہ داری کا احساس ہر لحاظ سے باعث تقویت ہے ۔ ہم زندہ قوم ہیں جو
خیر کے کاموں میں سب سے آگے ہیں ۔ ہم میں جذبہ ہمدردی بھی ہے اور دوسروں کی
مدد کا حوصلہ بھی ۔ ہمارے ہاں بے شمار ایسے لوگ ہیں جن میں احساس کا عنصر
موجود ہے اور جو اس سنت کو قائم رکھنے میں مذکورہ اداروں کی مدد کررہے ہیں
۔ اگر ہر فرد اپنی ذات میں ایک این جی او بن کر یتامیٰ کی کفالت کا مشن
اپنا لے اور انہیں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کرے تو وہ ایک مفید شہری
کے طور پر ملک و قوم کی خدمت کر سکیں گے ۔
تو پھر آئیے خدا کی قربت حاصل کرنے کا مختصر ترین راستہ چنیں اور یتیم کو
معاشرے میں مقام ، احترام اور مرتبہ دیں …… آج ہم ان کا حق ادا کریں گے تو
یوم آخرت ان کی کفالت ہمارے لئے گواہی اور رسولﷺ کی رفاقت کا ذریعہ بنے گی
۔ ان کی سرپرستی اگر ہم یوں سمجھ کر کریں گے کہ ہمارے خاندان میں ایک فرد
کا اضافہ ہوا ہے اور ہم نے اپنی فیملی کے دیگر اراکین کے ساتھ ساتھ اس ایک
نئے رکن کی بھی پرورش کرنی ہے ، تو یہ عمل ہمیں بوجھ نہیں لگے گا ۔ یہ کاوش
یقیناً ہمارے لئے اجر عظیم کی بھی ضمانت ہوگی ۔
|