زندگی بعد رمضان المبارک

زندگی بعد رمضان المبارک ،،
انتخاب وترتیب ، ابوخالد خان
رمضان المبارک ہم سے جدا ہووا ہم میں دو طراح کے لوگ ملتے ہیں ، کوچھہ لوگوں کو افسوس ہے کے رمضان المبارک ہم سے جدا ہوگیا کوچھہ لوگ تھنڈی سانس لیتے ہیں کے رمضان کی پابندی ختم ہو گیؑ یے دونو کا خیال غلت ہے ، یخینن رمضان توفان کی طرح آیا اور آندھی کی طرح چلا گیا اور قیامت تک آتا ریے گاہ ، رمضان کے مقصد کے حصول میں رمضان کی عبادات سےجوقوت حاصل ہویؑ ہے اس سے استفادے کی فکراور اس کی تزکیرہونی چھا ہیے ،
رمضان المبارک درصل حصول تقویٰ اورتزکیہؑ نفس کی وہ درس گاہ ہےجس سےسند فراغت حاصل کر نے کیلےؑ ہر مسلمان کو اپنی ایمانی کیفیت اوردینی غیرت وحمیت کا جا عزہ لینا چا ہےؑ ،
کاشتکارکی اؑ ن تھک محنت اور شب و روزکی نگرانی زمین کے ایک سادہ تکڑےکو لہلاتےہوےؑ کھیت میں بدل دیتی ہے اور جہاں کچھہ نہ تھا وہاں غلےؑ کی قیمتی فصل کھڑی ہو جا تی ہے ،، ،
یہ بات سوچھی بھی نہں جاسکتی کہ فصل کی تیاری کے بعد کویؑ کاشتکار اپنی محنت سے تیار کی ہویؑ کھڑی فصل کو آگ لگا دے گا ، یا اسے برباد ہونے کے لےؑ یوں ہی بے کار چھوڑدےگا ،
اس کاشتکار کے پاگل ہونے میں کسے شبہ ہو سکتا ہے ،
اگر ہم ان ثمرات کو اپنے شب و روز کے اعمال میں زندہ رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم نے حقیقت میں روزوں کی روح کو پا لیا اور اگر ہماری زندگی میں ان کا عکس مفقود رہا تو ہم گویا رمضان کے مقصد کے حصول میں ناکام اور سراسر نقصان کے مستحق ٹھیریں گے
قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان ثمرات کو کیسے باقی رکھا جائے؟
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی ))
رمضان المبارک کا آغاز ہی اُفق عالم پر ہلال رمضان المبارک کی نمود سے عالم روحانیت میں ایک ہمہ گیر انقلاب بر پا ہونے لگتا ہے ، وسعت تغیرات کی یہ شان کہ ابتداہی جنت کے تمام دروازوں کے کھلنے اوردوزخ کے سارے دروازے بند کیے جا نے سے ہوتی ہے ، وقت ، مقدار ، کمیت اور کیفیت کے سارے پیمانے بدل دیے جاتےہیں ، اس ماہ مبارک کی ایک رات ہزار راتوں سے زیادہ افضل قرارپا تی ہے ، عرش بریں کےحامل فرشتوں کوحکم خداوندی ملتاہے کہ اپنی عبادت بند کرو اور اہل زمین کی دعاوؑں پر آمین کہو،
آسمانوں کا یہ سارا انقلاب اس لیے برپا ہواکہ زمین پر آباد انسان کی دنیا کو ایک اندرونی انقلاب سے دو چار کرنا مقصود ہے،
اس طرح عالم انسانیت میں ایک ایسا انقلاب رونما ہونے لگتا ہے جس کی وسعت بے پناہ اورجس کا نفوذ بے انتہا ، یہ ظاہروباطن سب پر محیط ہے یہاں فکرو نظر جزبات واحساسات اور عمل وجستجو سب کچھہ تبدیلیوں سے ہم کنار ہے ،
رمضان کے آتے ہی تقویٰ، خوفِ خدا اور نیکی کے لیے ایک نیا جذبہ اور ولولہ سامنے آتا ہے۔ ہرشخص کچھ نہ کچھ نیکی کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ مساجد میں رونق ہوجاتی ہے، تلاوتِ قرآن کا اہتمام ہوتا ہے، اور ہمدردی و خیرخواہی کے جذبے کے تحت اِنفاق اور حاجت مندوں کی امداد کی جاتی ہے۔ اجتماعی طور پر نیکی کا ماحول ہوتا ہے۔ نیکیوں کے لیے موسمِ بہار کا سا سماں ہوتا ہے۔ گویا اس حوالے سے ہمارا معاشرہ ایک زندہ معاشرہ ہے۔ کم و بیش پورے ماہِ صیام میں یہ سلسلہ چلتا ہے بلکہ آخری عشرے میں اعتکاف کا خصوصی اہتمام خصوصاً شب قدر کے موقع پر عبادت، نوافل کی ادایگی اور شب بیداری کے لیے لوگوں کا جذبہ دیدنی اور ایمان پرورہوتا ہے۔
دوسری طرف رمضان کے گزرتے ہی بلکہ چاند رات ہی کو یہ صورتِ حال بدلتی محسوس ہوتی ہے۔ جذبۂ ایمان سرد پڑنے لگتا ہے۔ روزے کی وجہ سے لوگ جن غلط کاریوں سے رُکے ہوتے ہیں ان کا پھر سے ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔ نماز کی ادایگی میں کمی آجاتی ہے اور مسجدوں کی رونق ماند پڑنے لگتی ہے۔ قرآن کی تلاوت اور قرآن سے وہ تعلق نہیں رہتا جو اس ماہ میں لوگوں کا معمول بن جاتا ہے۔ عبادت کے ذوق و شوق میں کمی آجاتی ہے۔ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی وہ تمیز گھٹنی شروع ہوجاتی ہے جس کا رمضان کے تقدس اور احترام میں اہتمام کیا جاتا ہے۔ گویا رمضان میں اگر قید یا پابندی تھی تو رمضان کے بعد ایک طرح سے پھر بے قیدی ہوجاتی ہے ؟
آخر اس کا سبب کیا ہے؟
رمضان کا یہ مہنہ ہم اسے آغاز سمجہے انتہا نہں سمجہے اللہ نے ہمیں اعمال صالیہ کی طوفیق دی ہے تو پوری زندگی میں موت تک جاری رہنا چہا یے زندگی جب تک ہے جب تک عمل ہے زندگی ختم ہوگی تو عمل ختم ہوگا ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب انسان کی وفات ہوجاتی ہے تو اُس کا عمل ختم ہوتا ہے
ملانا ابوالحسن علی ندوی رحمتہ اللہ علیہ ، فرماتےہیں کہ رمضان کا روزہ چھوٹا روزہ ہے اور اسلام کا روزہ بڑا روزہ ہے ، رمضان کا روزہ طلوع فجر سے شرو ہوتاہے اور غروب آفتاب تک رہتا ہے جبکہ اسلام کا روزہ بالغ ہونے سے شرو ہوتا ہے اور موت کی ہچکی پر افطار ہو جاتا ہے ،
رمضان میں رمضان کے لیے عبادت کرتا تھا تو رمضان ختم ہو گیا لیکن جو اللہ کے لیےؑ عبادت کرتا تھا وہ اللہ ہمیشا ہے شوال کا بھی ہے ہر مہنے ہر سال کا اللہ ہے ،
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے موقہ پر ابوبکرصدیقؓ نے قطبہ فرمایا ، لوگو سن لو جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا رہا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہو گیے لیکن جو اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے اللہ ہمیشا سے زندا ہے اور رہے گا اور اُسے موت تاری نہں ہوگی ،
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ

اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں جہاں روزوں کی فرضیت کا اعلان فرمایا ہے، اور اس سلسلے کے کچھ احکام بیان فرمائے ہیں، وہاں آخر میں فرمایا ہے
وَ اِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَأِنِّیْ قَرِیْبٌ، اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo
اور جب میرے بندے تم سے میرے بارے میں پوچھیں تو کہہ دو میں قریب ہی ہوں، میں ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، تو وہ میری پکار پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان رکھیں، امید ہے وہ میری راہ پالیں گے، ( گویا وہ خود مجھے پالیں گے )
رمضان وہ موسم ہے جس میں ہم اپنے دلوں کو تقویٰ و ایمان کے مفہوم و معانی سے بھر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ دلوں کو اُس چیز کے حصول کی ترغیب دلاتے ہیں، جو اللہ کے پاس ہے۔ اللہ کی خوشنودی اور نعمتوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ رمضان کی عبادتوں کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ انسان رمضان کے بعد بھی اللہ کی رسّی کو پکڑے رکھے۔ وہ اپنے رب کے ساتھ استوار ہوئے تعلق کو ٹوٹنے نہ دے۔ بعض اسلاف تو یہ کہتے ہیں کہ بہت بُرے ہیں وہ لوگ جو اللہ کو صرف رمضان ہی میں پہچانتے ہیں۔ لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ مسلمانو! ربانی بنو، رمضانی نہ بنو۔ ایسے موسمی نہ بنو جو اللہ تعالیٰ کو سال میں صرف ایک مہینے کے لیے پہچانتے ہیں۔ پھر اِس کے بعد اُس کی عبادت و اطاعت کا سلسلہ توڑ دیتے ہیں ، رمضان ختم ہو گیا عمل ختم نہں ہوا ،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
اےلوگوں جوایمان لاےؑ ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اُس سےڈرنےکاحق ہے، تم کو موت نہ آےؑ مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ،
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
ہم نے انسان کو پیدا کیا اور دل میں اُبھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جا نتے ہیں ، ہم اس سے اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں ،، ( ق آیت 16)
وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ ۚوَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو،جوکام بھی تم کرتےہواسے وہ دیکھہ رہا ہے ،،(حدید 4 )
ہماری سب سے بڑی آرزو اور سب سے بڑی تمنا یہ ہوجائے کہ ہم اپنے رب سے قریب ہوجائیں، ہماری زندگی کا سب سے اہم مسئلہ یہ بن جائے کہ آپ اپنے رب کو خوش کرلیں، آپ اس کے پسندیدہ اور مقرب بندے بن جائیں،

ایک مہینے کی مسلسل مشق سے صیام وقیام کے اثرات قلب و جسم پر نقش ہوجاتے ہیں ۔اگر ہم ان ثمرات کو اپنے شب و روز کے اعمال میں زندہ رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم نے حقیقت میں روزوں کی روح کو پا لیا اور اگر ہماری زندگی میں ان کا عکس مفقود رہا تو ہم گویا رمضان کے مقصد کے حصول میں ناکام اور سراسر نقصان کے مستحق ٹھیریں گے۔
رمضان المبارک وہ ہم سے کیا تقاضے کرتا ہے اور ہمارے سامنے کیا مطالبے رکھتا ہے
(۱) عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رُبَّ صَاءِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صِیَامِہٖ اِلّاَ الْجُوْعُ۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کتنے ہی روزہ دار ایسے ہوں گے جن کے حصے میں سوائے بھوک پیاس کی مشقت کے اور کچھ نہیں آئے گا۔
(۲) وَ عَنْہُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ الصِّیَامُ مِنَ الْاَکْلِ وَالشُّرْبِ اِنَّمَا الصِّیَامُ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفْثِ فَاِنْ سَابَّکَ اَحَدٌ اَوْجَھِلَ عَلَیْکَ فَقُلْ اِنِّیْ صَاءِمٌ اِنِّیْ صَاءِمٌ۔
حضرت ابوہریرہؓ سے ہی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزے کا مطلب صرف کھانے پینے سے پرہیز نہیں، روزے کا مطلب لڑائی جھگڑے اور بے حیائی کے تمام کاموں سے پرہیز ہے، تو اگر کوئی تم سے گالم گلوج کرے یا تمہارے ساتھ بدتمیزی کرے تو کہہ دو میں تو روزے سے ہوں۔ میں تو روزے سے ہوں۔
(۳) وَ عَنْہُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِی اَنْ یَدَعَ طَعَامَہٗ وَ شَرَابَہٗ--------------------------------------------------------------حضرت ابو ہریرہؓ سے ہی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے غلط باتیں کہنی اور غلط کام کرنے نہیں چھوڑے، اللہ کوکوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔۔
(۴) وَ عَنْ اَبِیْ عُبَیْدَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلصَّوْمُ جُنَّۃٌ مَالَمْ یَخْرِقْھَا، قِیْلَ وَ بِمَ یَخْرِقُھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ: بِکِذْبٍ اَوْ غِیْبَۃٍ۔
حضرت ابو عبیدہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ ڈھال کاکام دیتا ہے بشرطیکہ روزہ دار اسے پھاڑ نہ ڈالے، لوگوں نے عرض کیا اللہ کے رسول! یہ ڈھال کیسے پھٹتی ہے؟ آپ نے فرمایا، جھوٹ سے یا غیبت سے۔
یہ چند حدیثیں ہیں، ان حدیثوں سے ہم بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ رمضان المبارک کیا ہے
۔ وہ تو اس لئے آتا ہے کہ ہم کو اور آپ کو پاک صاف بنائے۔ وہ تو ہماری زندگیوں کو سنوارنے اور نکھارنے آتا ہے، ہمارے میل کچیل اور ہماری آلائشوں کو دور کرنے آتا ہے، وہ ہماری برائیوں اور ہماری کمزوریوں کی اصلاح کے لئے آتا، ہماری روحانی بیماریوں اور اخلاقی خرابیوں کا علاج کرنے آتا ہے، وہ ہمیں ہر طرح کی تاریکیوں اور ظلمتوں سے نکال کر روشنی میں لانے کے لئے آتا ہے، وہ اس لئے آتا ہے کہ ہمارے پورے وجود کو سراپا نور بنادے، ہماری پوری زندگی کو مکمل روشنی بنادے ،، -------------ماہ رمضان المبارک کی ہر گھڑی امت کہ ہرفرد کو یہ پیغام سناتی ہے ، ----( 1 ) اجتماعیت رمضان کے بعد عبادات میں کمی کا بنیادی سبب اجتماعی ماحول اور اجتماعیت کی کمی ہے۔ ماہِ رمضان میں پورے ماحول پر نیکی کا رنگ غالب ہوتا ہے۔ نیکی کرنا آسان اور برائی کا ارتکاب مشکل ہوتا ہے۔ رمضان کے رخصت ہوتے ہی ماحول میں بڑی حد تک تبدیلی آجاتی ہے اور نیکی کرنا مقابلتاً مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیکی کا جذبہ سرد پڑنے لگتا ہے اور عبادات میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس کی طرف ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر نبی کریم نے صحابہ کرام کو توجہ دلائی تھی کہ اب تم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹ رہے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ روز مرہ زندگی میں، جب کہ ماحول بھی سازگار نہ ہو خدا کی مکمل اطاعت کرنا کوئی آسان کام نہیں اور اسی لیے آپ نے اسے جہادِ اکبر سے تعبیر فرمایا ہے۔
رمضان کے بعد نیکی کے لیے جذبے کو تروتازہ رکھنا ایک مسلمان کے لیے بڑا چیلنج ہے، جب کہ ماحول سازگار نہ ہو اور اس میں تبدیلی بھی آچکی ہو۔ شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے اور اس کے مقابلے کے لیے اجتماعیت ناگزیر ہے۔ نبی کریم نے مختلف مواقع پر اجتماعیت کی اسی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ بھیڑیا اُسی بھیڑ کو کھاتا ہے جو اپنے ریوڑ سے الگ ہوجاتی ہے۔ کہیں آپ نے فرمایا کہ جماعت پر خدا کی رحمت ہوتی ہے۔ اسی طرح آپ نے اجتماعیت کے ساتھ جڑے رہنے پر بہت زور دیا ہے۔ لہٰذا رمضان کے بعد نیکی اور پرہیزگاری کے عمل کے تسلسل کے لیے اجتماعیت سے جڑنا اور صحبتِ صالح اختیار کرنا جہاں ضروری ہے وہاں نیکی کے جذبے کے ماند پڑجانے کا علاج بھی ہے۔ سورۂ کہف میں اجتماعیت اور صحبتِ صالح کی اسی اہمیت پر زور دیا گیا ہے بالخصوص جب نیکی کے لیے ماحول سازگار نہ ہو، جیساکہ آج ہمارا معاشرہ ہے۔ فرمایا گیا ہے: ’’اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو‘‘ (الکھف 18: 29-28)۔ گویا کہ یہاں واضح طور پر صالح اجتماعیت سے جڑنے کی تاکید کی گئی ہے۔
( 2 ) قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں ، اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
۔ برادرانِ اسلام! آج ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جو فتنوں کا دَور ہے، آزمایشوں کا دور ہے۔ نبی کریمؐ نے ہمیں اس دور سے ڈرایا ہے جس میں فتنے سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں ماریں گے، جن کی وجہ سے لوگ اپنے عقائد سے گمراہ ہوجائیں گے۔ رسولؐ اللہ فرماتے ہیں: لوگ ان فتنوں کے کاموں کی طرف اس طرح بڑھیں گے جیسے سخت اندھیری رات چھا جاتی ہے۔ آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور شام کو کافر ہوگا، شام کو ایمان کی حالت میں ہوگا اور صبح کافر ہوگا۔ آدمی دنیا کی بہت تھوڑی قیمت پر اپنے دین کو بیچ دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں جن فتنوں سے ڈرایا گیا ہے اُن میں عورتوں کا سرکش ہوجانا، جوانوں کا فسق میں مبتلا ہوجانا، جہاد کا ترک کر دیا جانا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل نہ ہونا، بلکہ اُن پیمانوں ہی کا بدل جانا، یعنی لوگوں کا اچھائی کو بُرائی اور بُرائی کو اچھائی سمجھنے لگنا بھی شامل ہیں۔ برادرانِ اسلام! اس اُمت کے لیے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ قرآن ہی ہے، انسانوں کے وضع کردہ قوانین نہیں۔ نہ دائیں بازو اور بائیںبازو کی تنظیمیں اس کے مرض کا علاج کرسکتی ہیں۔ یہ صرف قرآنِ مجید ہے جو اسے بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔ ہمارے اُوپر یہ فرض ہے کہ ہم اس کی طرف واپس آئیں اور اس کی ہدایت پر چلیں۔ ہم نے اُوپر رمضان اور قرآن کی بات کی، تو یہ حقیقت ہے کہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے اور قرآن کی برکت، اس کی پیروی اور اس کے مطابق عمل کرنے میں ہے۔ اس کی برکت اس میں نہیں ہے کہ ہم اس کی آیات کے فریم زینت کی غرض سے دیواروں پر لٹکا لیں، یا اسے مُردوں کے پاس تلاوت کرلیں، یا اس کو بچوں اور عورتوں کے لیے تعویذ بنا لیں۔ قرآن تمام انسانیت کے لیے ہرقسم کی گمراہی سے بچنے کے لیے آڑ ہے۔ قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ زندوں کے معاملات کا فیصلہ کرے، نہ اس لیے کہ مُردوں پر پڑھا جائے۔ قرآن نازل ہوا ہے کہ عدالتوں میں اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے نہ کہ اسے محض ثواب اور اپنے مُردوں کے ایصالِ ثواب کے لیے پڑھا جائے۔ قرآن اس اُمت کا دستور ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اسی کی طرف رجوع کریں۔ اس کی آیات کو سمجھیں، اس کے فہم میں گہرائی پیدا کریں، اور اسے اپنا اخلاق بنا لیں، جیساکہ نبی کریمؐ کے اوصاف میں بیان کیا گیا ہے کہ قرآن آپؐ کا اخلاق تھا۔ قرآن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰــتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِo (صٓ ۳۸:۲۹) یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبیؐ) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔ برادرانِ اسلام! اس موقع پر یہ بہت مناسب ہوگا کہ ہم پوری اُمت کو رجوع الی الاسلام کی دعوت دیں۔ قرآن کی طرف بلائیں، دین کی طرف بلائیں۔ ہم نے دائیں بازو یا بائیں بازو کی تنظیموں اور مشرق و مغرب سے درآمد شدہ حل آزمائے۔ ہم نے دوسروں سے امداد کی بھیک کا تجربہ بھی کرلیا۔ ان تمام نے ہمیں کیا دیا؟ شکست، رسوائی، ندامت، نقصان، اخلاقی فساد اور غلامانہ انتشار کے سوا ہمیں کیا ملا ہے! ہمیں نہ معاشی آسودگی میسر آسکی، نہ سیاسی استحکام نصیب ہوا نہ معاشرتی تعلقات میں بہتری آسکی، اور نہ اخلاقی ترقی ہوئی نہ روحانی رفعت حاصل ہوسکی۔ ہمارے پاس اسلامی اصول، ربانی شریعت، محمدی طریق ہاے کار اور عظیم ورثہ موجود ہے۔ لہٰذا ہم امیر ہیں اور دوسروں سے ان چیزوں کے معاملے میں بے نیاز ہیں۔ پھر کیوں سب کچھ درآمد کرتے اور بھیک مانگتے پھرتے ہیں؟ ہمیں اپنے قرآن، آسمانی ہدایت اور نبویؐ سنت کی طرف پلٹنا چاہیے۔ ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم اللہ کی کتاب اور رسولؐ اللہ کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں۔ ببانگِ دہل توحید کے عقیدے پر کاربند ہوجائیں۔ اسی طرح مسلمان ہوجائیں جیسے کبھی ہوا کرتے تھے، یعنی حقیقی مسلمان، نہ کہ نام کے مسلمان، یا موروثی مسلمان۔ مسلمانوں کو مستعد و متحرک ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دین کے راستے میں اپنا سب کچھ نچھاور کرسکیں، اس دین کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ لہٰذا ملت کا ہر فرد اور مسالک کے تمام ذمہ دار اپنے دین کے لیے قربانی دیں۔ کیا ہم اسلام کی راہ میں قربانی نہیں دے سکتے؟ برادرانِ اسلام! یہ دین اللہ کے فضل اور مومنوں کی نصرت کے ذریعے بالآخر فتح یاب ہوگا، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ سے فرمایا: ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ (انفال ۸:۶۲) وہی (اللہ) تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی۔ برادرانِ اسلام! مسلمانوں کی تعداد اس وقت اربوں میں ہے، لیکن اہمیت تعداد کے زیادہ ہونے یا لشکروں کے بھاری ہونے کی نہیں ہوتی بلکہ اہمیت معیار کی ہوتی ہے۔ جب مسلمان ۳۱۳ تھے تو انھوں نے عظیم فتح حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس دن کو ’یوم الفرقان‘ کا نام دیا، یعنی جس میں حق اور باطل کے درمیان فرق سامنے آگیا اور اللہ نے تو سچ ہی فرمایا ہے کہ: وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۲۳) اور اللہ نے بدر میں تمھاری مدد کی حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے۔ لہٰذا تمھیں چاہیے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو، اُمید ہے کہ اب تم شکرگزار بنو گے۔ وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَ اَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo (انفال ۸:۲۶) یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جاے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمھارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمھیں اچھا رزق پہنچایا، شاید کہ تم شکرگزار بنو۔ گویا جب مسلمان کم تھے مگر اللہ کے ساتھ تھے، حق، یعنی اسلام کے ساتھ تھے، تو اللہ نے لاکھوں پر انھیں غالب کیا۔ آج اُن اربوں مسلمانوں کی کوئی وقعت نہیں جو انصارِ مدینہ کی صفات سے متصف نہ ہوں۔ انصار کی صفت تھی کہ وہ خوف کے موقع پر سب اُمڈ آتے تھے اور طمع و طلب کے وقت خال خال دکھائی دیتے تھے۔ آج ہماری حیثیت آخری دور کے ان مسلمانوں جیسی ہے جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان کی حیثیت سیلاب کے کوڑے کرکٹ جیسی ہوگی جنھیں سیلاب بہا لے جاتا ہے۔ برادرانِ اسلام! عظیم فیصلے اور عظیم ارادے بڑے اجتماعات ہی میں ہوتے ہیں۔ اہلِ اسلام کو عید کے موقع پر اسلام کی نصرت کا عزم کرنا چاہیے۔ روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز اپنے اصحاب کی ایک جماعت سے پوچھا: سب سے زیادہ کن لوگوں کا ایمان تمھارے نزدیک عجیب ہوسکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: فرشتوں کا۔ آپؐ نے فرمایا: وہ کیوں ایمان نہ لائیں گے وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر انبیا کا۔ آپؐ نے فرمایا: وہ کیوں نہ ایمان لائیں گے، جب کہ ان کے اُوپر تو وحی نازل ہوتی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر ہمارا۔ آپؐ نے فرمایا: تم کیوں ایمان نہ لاتے، جب کہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: سنو! میرے نزدیک سب سے زیادہ عجیب ایمان اُن لوگوں کا ہے جو تمھارے بعد آئیں گے اور کتاب کو پڑھ کر ہی ایمان لے آئیں گے‘‘۔ برادرانِ اسلام! یہ ہیں وہ بنیادیں جن کے اُوپر ہمیں اپنی عملی زندگی کی عمارت تعمیر کرنی ہے، لہٰذا آیئے اور اللہ کے انصار بن جایئے۔ رسولؐ اللہ کے پیروکار بن جایئے۔ بعید نہیں کہ تمھی وہ گروہ قرار پائو جو اللہ کے دین کو غالب کرنے ولا ہو ، --------------------------- (3 ) ، ہمارا خواب قرآنی کلچر ،
آج ہمارے پاس قرآن صامت بعینہ اس طرح موجود ہے اور قران ناطق کی زبان مبارک سے نکلے ہوےؑ ارشادات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہویؑ تشریحات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قا ؑم کردہ سنت ثابتہ سب کچھ اسی طرح موجودہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کو دے کر گےؑ تھے ، اس کے باوجودآج مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن مجید کووہ مقام حاصل نہں جس کی یہ کتاب مستحق ہے ، ہمارا یہ دور اس اعتبارسے انتحایؑ افسوسناک وہ اندوہناک ہے کہ قرآن مجید سے آج ہمارا وہ مضبوط تعلق منقطح ہوتا نظر آتاہے جس نے ہمارے جسدملی کو تحفظ بکشا آج ہم میں سے بہت سوں کا قرآن مجید سے وہ تعلق نہں رہا جو ہونا چاہیے اس کی پیشین گویؑ بھی قران مجید میں موجودہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں گے کہ ،
پروردگار میری اس قوم نے قرآن مجید کو چھوڑدیا تھا ،،
قرآن مجید کو چھوڑنے کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں یہ سمجھنا کہ قرآن مجید کوچھوڑنے کا کویؑ کاص پیمانہ یا معیار ہوتاہے اور وہ ابھی تک سامنے نیں آیا ، ایک بڑی خطرناک غلط فہمی ہے،
ترک قرآن کا یہ خطرناک مرحلہ آچکا ہے، ترک قرآن آخرکیاہے،یہی نا کہ قرآن مجید کے الفاظ سے تعلق ختم ہو جاےؑ قران مجید کے متن کو لوگ یادکرنا چھوڑدیں قران کو سمجھنے کی ضرورت کا احساس نہ رہے قرآن مجید کے پڑھنے پڑھا نے سے دلچسپی ختم ہوجےؑ ، لوگ قرآن مجید کے احکام پرعمل درآمد کرنا چھوڑدیں ۔ قرآن مجید کو قانون کا اولین اوربرترماخز تسلیم کرنے سے عملاۤ انکار کردیں یہ ساری چیزیں قرآن مجید کو چھوڑنے ہی کی مختلف شکلیں ہیں ،،
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلےروزسے اس کا اہتمام فرمایا کہ قرآن مجید کے جو حصے نازل ہوتے صحابہؓ کرام تک پہنچاےؑ جاتے وہاں ہرگھرقرآن کی درسگاہ ےتھا، وہاں ہر مسجد قرآن کی یونیورسٹی تھی،وہاں ہربستی قرآنی تربیت گاہ تھی،وہاں ہردرسگاہ میں علم وبصیرت کی بنیاد کتاب الٰہی تھی
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دار ارقم میں تشریف فرما تھے اور سیدنا عمرفاروقؓ وہاں کسی غلط ارادے سے جانے کے لیے نکلے تو اپنی ہمشیرہ کے گھرانہونے کیا منظردیکھاتھا، یہ ہم سب کےعلم میں ہے کہ حضرت خباب بن ارتؓ دوپہر کے وقت وہاں موجود تھے اور عمرفاروقؓ کی بہن اور بہنویؑ کو سورة طہ کی آیات پڑھارہے تھے ، اس سے پتہ چلتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےدارارقم جیسے مشکل زمانہ میں بھی جب لوگوں کے لیے یہ بتانا بھی دشوارتھا کہ وہ اسلام قبول کرچکے ہیں ، گھرگھر تعلیم قرآن کا انتظام کیا ہواتھا ، وقت کا تقاضا ہے کہ ملت قرآن کی طرف پلٹ آئے ملت کے ہرفرد کا یہ خواب بن جاےؑ کہ ہم قرآنی ماحول کلچر بناینگے ہمارا ہرفرد ونوجوان کہیں خالی نہ رہے گھر میں صفرمیں دوستوں میں جہاں کہیں بھی وقت ملےؑ اپنے جیب سے یا موبیل سے قرآن نکالےؑ اور پڑنا شرو کردے مسلمانو!رُک جاؤ، لوٹ آؤ اس کتاب کی طرف۔ ہر مسلمان اس کتاب کوسمجھ کر پڑھنے کا دل سے عہد کرے۔پھر اس کی آیات میں اپنی استطاعت کے مطابق غور و تدبر کرے، اس کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرے،جو سمجھتا جائے اس پر عمل کرتا جائے۔ اس کے نتیجے میں زندگیوں میں اعمالِ صالحہ کی بہار آنی شروع ہو جائے گی۔معاشرے اور گھروں کا منظر بدلناشروع ہو جائے گا۔ قرآن کے دامن میں چھپی مومنین صالحین کی تصویریں گلیوں،با زاروں میں چلتی پھرتی نظر آنے لگیں گی، تو انشا اللہ ہمارا ہر دھا ہر ماہ ہرسال رحمت مغفرت اور نجات کا ہوگا
اے ہمارے آقا! تو ہی نیکیوں کی توفیق دینے والا ہے اور توہی نیکیوں کو شرف قبول عطا کرنے والا ہے، ہمیں توفیق دے کہ ہم تیری پسندیدگی کی راہیں اختیار کرسکیں اور آخرت میں تیری چاہتوں کے تخت و تاج حاصل کرسکیں، ہم انتہائی کوتاہ بندے ہیں، اگر تونے ہمیں اپنی توفیق سے محروم کردیا تو ہمارا ٹھکانا کہاں ہوگا؟
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ وَصَلِّ اَللّٰھُمَّ عَلٰی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَ علٰی آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ أَجْمَعِیْنَ۔

 
ابو خا لد خان
About the Author: ابو خا لد خان Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.