پوری دنیا میں مسلمان رمضان کے 29 یا 30 روزے رکھنے کے
بعد یکم شوال کو عید مناتے ہیں عید الفطر کے دن نماز عید (دو رکعت چھ
تکبیروں)کے ساتھ پڑھی جاتی ہے، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی
عیدگاہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس میں چھ زائد تکبیریں ہوتی ہیں (جن میں سے
تین پہلی رکعت کے شروع میں ہوتے ہیں اور بقیہ تین دوسری رکعت کے رکوع میں
جانے سے پہلے ادا کی جاتی ہیں) یہ نماز دو رکعت نفل سنت موکدہ ہے عید الفطر
ایک اہم مذہبی تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک
کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔اس عید کو میٹھی عید،چھوٹی عیداور عیدالفطر
کہا جاتا ہے حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلی مرتبہ 2 ہجری میں عید
الفطر کی نماز ادا کی، شوال کا پہلا دن اور اس کی پہلی تاریخ اﷲ تعالیٰ کی
میزبانی اور روزے داروں اور عبادت گزار بندوں کی مسرت و شادمانی اور اکرام
کا دن ہے رمضان المبارک جو کہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہوتا ہے اس کے
بعدشوال کا مہینہ آتا ہے عید کے دن مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا
ہے مسلمانان عالم کے لئے حکم ہے کہ’’رمضان کے آخری دن تک روزے رکھو۔ اور
عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرو‘‘۔ کسی بھی قمری ہجری مہینے کا آغاز
مقامی مذہبی رہنماؤں کے چاند نظر آجانے کے فیصلے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
دنیا کے مختلف ممالک میں عید مختلف دنوں میں منائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس
کچھ ممالک ایسے ہیں جو سعودی عرب کی پیروی کرتے ہیں ہجری سال اور اسلامی
کیلنڈر میں دسواں مہینہ شوال المکرم ہے۔’’عید ‘‘کا لفظ عود سے ماخوذ ہے جس
کے لغوی معنی باربار آنا،مسلمانوں کے جشن کاروزاور نہایت خوشی کے ہیں یہ
ماہِ مبارک نفسانی خواہشات کی قربانی سے عبارت ہے اﷲ بزرگ وبرترکی حکمت
دیکھئے پہلے شعبان پھر رمضان اور پھر شوال کا مہینہ آتا ہے
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمدصلی اﷲ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے ۶
روزے رکھے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوگیا جیسے نومولود بچہ ماں کے پیٹ
سے پیدا ہوتے وقت (گناہوں سے) پاک ہوتا ہے۔
سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ صدقہ فطر، ایک صاع کھجوریں
یا ایک صاع جو، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہر مسلمان مرد، عورت اور آزاد
اور غلام سب پر فرض کر دیا ہے۔(مختصر صحیح بخاریحدیث نمبر : 768)۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد ۶(نفل)روزے
شوال کے مہینے میں رکھے تو اسے پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ہوگا اگر
ہمیشہ ایسا ہی کرے گا تو گویا اس نے ساری عمر روزے رکھے (ترمذی۱/۹۴)۔
سیدنا انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ
’’ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عیدالفطر کے روز دن چڑھنے دیتے تھے یہاں تک کہ
چند کھجوریں کھا لیتے (یعنی نمازعید سے پہلے)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم طاق کھجوریں کھاتے تھے‘‘۔(مختصر صحیح بخاری حدیث نمبر
: 528)۔
جس طرح عیدالفطر کی نماز سے پہلے فطرانہ ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح نماز
عید سے قبل کچھ کھا کر جانا بھی ضروری ہے
حضرت انس رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے
’’ عید الفطر کے دن جب تک نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم چند کھجوریں نہ کھا
لیتے عید گاہ تشریف نہ لے جاتے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم طاق کھجوریں تناول کرنا
پسند کرتے تھے ‘‘۔
سیدنا ابوسعیدخدری رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے
عہد میں عیدالفطر کے دن ایک صاع کھانا (محتاجوں کو) دیا کرتے تھے اور ہمارا
کھانا ‘‘ جو، خشک انگور، پنیر اور کھجور’’ تھا۔(مختصر صحیح بخاری حدیث نمبر
: 767)۔
حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ
۔’’ عیدالفطر کے دن روزہ نہ رکھو بلکہ خوب کھاؤ پیو‘‘۔
حضرت وہب روایت کرتے ہیں کہ۔
۔’’ہر عید کے روز ابلیس (شیطان) چیخ چیخ کر روتا ہے تو دوسرے شیاطین اس کے
گرد اکٹھے ہو کر پوچھتے ہیں اے ہمارے آقا کیوں روتے ہو تو وہ کہتا ہے اس
روز حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی امت کو اﷲ تعالی معاف کر دیتا ہے لہذا اب
تم پر لازم ہے کہ انہیں شہوات و لذات میں ڈال کر غافل کر دو‘‘۔
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
۔’’ جب عید الفطر کی رات آتی ہے تو فرشتے آپس میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں
اور اﷲ تعالی اپنے خاص انواروتجلیات کا ظہور فرما کر فرشتوں سے پوچھتا ہے
فرشتو!اب اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے پورا پورا کام کیا فرشتے عرض کرتے
ہیں اے اﷲ اس کو پورا پورا ثواب دیا جانا چاہئے ،اس پر اﷲ تعالی ارشاد
فرماتا ہے تم گواہ بن جاؤمیں نے ان سب کو بخش دیا جن لوگوں نے رمضان کا
احترام کیا دن کو روزے رکھے اور رات کو قیام کیا ‘‘۔
حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ اپنے دور خلافت میں عید کے دن اپنے گھر
تشریف فرماتھے کچھ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ آپ ؓکو عید کی مبارک باد دینے کے
لئے گھر آگئے تو دیکھا حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ زار و قطار رو رہے
تھے توصحابہ کرام رضی اﷲ عنہ نے آپ ؓ سے رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ ؓ نے
یوں جواب دیا
’’آج کا روزعید بھی ہے وعید بھی آج جس کے روزے اور نمازیں قبول و منظور کر
لی گئیں اس کے لئے تو عید ہے جبکہ میں اس لئے رو رہا ہوں کیا خبر میرے روزے
اور نمازیں منظور ہوئیں یا نامنظور‘‘۔
حضرت وہب بن عنہ کہتے ہیں کہ
۔’’اﷲ تعالی نے جنت کو عید الفطر کے روز پیدا کیا اور طوبی کا درخت بھی عید
ہی کے روز بہشت میں لگایاگیا حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھی عید کے دن
وحی پہنچانے کے لئے منتخب کیا گیا‘‘۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہا سے ایک اور جگہ روایت ہے
آقا جی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
۔’’ رمضان المبارک میں جن لوگوں نے روزے رکھے ہوتے ہیں انہیں اﷲ تعالی تمام
نعمتیں بخشتا ہے اور پوراپورا اجر دیتا ہے اور عیدالفطر کے دن صبح کے وقت
اﷲ تعالی فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ تم زمین پر جاؤ فرشتے حکم کی بجا آوری
لاتے ہوئے زمین پہ اترتے ہیں اور راستوں پر عام مجمعوں ،چراہوں اور بازاروں
میں بڑی اونچی آواز سے پکارتے ہیں کہ اس کو تمام مخلوق سوائے جن اورانسان
کے سن لیتی ہے اور کہتے ہیں اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت تم اپنے
پروردگار کی طرف نکلو کہ وہ تمہاری کم قیمت متاع کے عوض میں تمیں بہت بڑی
عطا فرمانے کو ہے اور کبیرہ گناہوں کو بخشنے والا ہے پس جب آدمی نماز کے
لئے نکلتے ہیں اور نماز پڑھنے کے بعد دعا کرتے ہیں تو اس وقت رب کائنات
اپنے بندوں کی تمام حاجات اور مرادیں پوری کرتا ہے جو سوال کرتے ہیں وہ
قبول ہوجاتا ہے کوئی گناہ باقی نہیں رہتا سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں
اور وہ بخشے ہوئے لوٹ جاتے ہیں ‘‘ (حوالہ غنیتہ الطالبین)۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں چاہئے کہ عیدسعید کے روز اپنی خوشیوں اور
مسرتوں میں اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ غریب اور مستحق لوگوں کو بھی
شامل کریں انہیں بھی تحائف دیں ان کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھیں انہیں بھی
گلے لگائیں شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملئے
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
نفسانفسی،مادہ پرستی اور بڑھتے ہوئے مہنگائی کے عفریت میں جہاں ہم اپنے لئے
ضروریات زندگی سمیت آرائش زندگی کے لئے سرگرداں ہوں وہاں ہمیں اپنے
اردگرد،عزیز و اقارب،مستحق،ناداراور مفلس افراد جن کے پاسسر چھپانے کے لئے
چھت نہیں ،تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا نہیں اور پیٹ بھرنے کے لئے ایندھن نہیں
انہیں بھی عید کے پرمسرت موقع پہ اپنی خوشیوں میں شامل کریں ہمیں انفرادی
سوچ کو چھوڑتے ہوئے اجتماعی سوچ کو اپناتے ہوئے خط غربت سے نیچے جینے والوں
کو سینے سے لگانے کی روایت کو فروغ دینا ہوگا کیونکہ دین اسلام کے سنہری
اور لازوال اصول ہمیں انہیں خطوط پہ چلنے کی تلقین کرتے ہیں ہمیں یہ ذہن
میں رکھنا ہوگا کہ وقت کبھی بھی ایک جیسا نہیں رہتا اور پھر وقت بدلتے دیر
بھی نہیں لگا کرتی امیری اور غریبی اس ذات اقدس کے ہاتھ میں ہے جو سب کا
مالک و خالق ہے صراط مستقیم پہ چلتے ہوئے اپنی خوشیوں میں اپنے اردگرد بسنے
والے مستحق افراد کو بھی شامل کریں اسی میں دنیا اور آخرت میں کامیابی کا
راز چھپا ہوا ہے۔ |