کل یعنی 16 جون 2017 کومجھے ایک دوست کی جانب سے
کافی عرصہ کے بعد فون کال آگئی۔اس نے نہایت ہی پراگندہ لہجے میں مجھے سے
پوچھا کہ کیا میں فدا حسین جْو سے ہی بات کر رہا ہوں۔ میں نے کہا جی ہاں
میں ہی ہوں۔ مگر آج یہ پہلی مرتبہ تصدیق کرنے کی ضرورت کیا پڑھ گئی ہے
بھائی؟ کیا میری آواز کی شناخت بھی اب آپ نے گنوا دی ہے۔۔۔؟ نہیں نہیں ایسا
نہیں ہے میں آپ کی آواز کیونکر بھول سکتا ہوں اس نے کچھ اس انداز سے کہا کہ
جیسے اس کا ایک ایک لفظ اپنے آپ ہی پریشان حالی کا غمازتھا۔ اس کے گفتگو کا
انداز بتا رہا تھا کہ وہ کسی الجھن میں ہے۔میں نے پوچھا کہ بات کیاہے آپ کی
وہ بے تکلفی اور روانیء کلام کہاں گئی ؟ آپ رک رک کر بات کیوں کر رہے ہو
خیریت تو ہے نا؟ پہلے تو اس نے میرے سوال کو ٹالنے کی کوشش کی لیکن میرے
اصرار کرنے پر یوں گویا ہوئے کہ شکر ہے خدا کا۔۔۔۔۔۔۔۔ در اصل مجھ سے کسی
دوست نے واٹس اپ کے ایک پوسٹ کے بارے میں فوں پر تصدیق چاہی۔ جس سے میں
حواس باختہ ہوگیا۔۔۔۔ شکر ہے خدا کا کہ آپ سلامت ہیں۔ میں نے جب پوچھا کہ
کون سا پوسٹ اور اسے میری سلامتی کا کیا تعلق؟ تو اس نے کہا کہ کسی نے یہ
خبر واٹس اپ پر نشر کر دی ہے کہ فدا حسین جْو اب اس دنیا میں نہ رہے۔
چنانچہ راقم الحروف واٹس اپ کا استعمال نہیں کرتا ہے لہٰذا میں نے اس دوست
سے گزارش کی کہ آپ اس خبر کے متعلق مزید معلومات جمع کر کے مجھے مطع کریں
کہ آخر معاملہ کیا ہے؟ چنانچہ اس نے تھوڑی دیر بعد مجھے پھر سے فون کیا اور
جب اظہار معذرت کے ساتھ کہا کہ یہ در اصل تنظیم المکاتب کے سابق رکنِ رکین
اور ایجوکیشنل ٹرسٹ کشمیر کے نائب صدر ہیں تو میرے پیروں تلے زمین ہی کھسک
گئی۔ میں نے من ہی من میں کہا کہ جی ہاں میری موت واقع ہوئی ہے۔دنیا میں
بہت کم افراد ایسے ہیں کہ جن کی موت صرف ان کی اپنی موت نہیں ہوتی بلکہ یہ
موت ان سے وابسطہ اور ان کی شخصیت سے متاثر افراد کی بھی جزوی موت ہوا کرتی
ہے۔یقیناً یہ متاثر اور وابسطہ افراد اسوقت محسوس کرتے ہیں کہ جیسے ان کے
ہی وجود کا ایک اہم اور بنیادی حصہ ان سے الگ ہو گیا ہے۔ انہیں نہ صرف
بیرونی دنیا میں ایک ایک خلا دکھائی دیتا ہے بلکہ وہ اپنی درونِ ذات بھی
ایک خالی پن محسوس کرنے لگتے ہیں۔ نہ جانے کیوں فدا حسین جو کے ساتھ مرحوم
لکھ کر مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے میں اپنے ہی مرقد کا کتبہ لکھ
رہا ہوں۔حالانکہ مرحوم کے ساتھ میرے بہت زیادہ گہرے اور قریبی تعلقات نہیں
تھے۔اور ان کی زندگی کے بارے میں کافی ووافی معلومات بھی نہیں رکھتا ہوں۔
ان سے چند ایک مرتبہ ہی فون پر علیک سلیک ہوئی۔میرے اور ان کے درمیان گاہے
بگاہے فون پر ہی بات ہوا کرتی تھی۔ بس ایک یا دو بار چند منٹوں پر مشتمل دو
بدو ملاقات کا شرف مجھے حاصل ہوا ہے۔یہ امر لازمی نہیں ہے کہ اگر آپ کسی
شخصیت سے مرعوب ومتاثر ہوں توآپ ہمیشہ اس کے ساتھ ساتھ رہیں۔ اور ہر شادی و
غمی میں اس کا دستِ شفقت آپ پر سایہ فگن رہے۔کسی کا بظاہر معمولی سا احسان
اگر آپ کی زندگی کو صحیح سمت دے۔تو زندگی بھر اگر آپ اپنے اس محسن کا تذکرہ
کرتے رہیں گے تو بھی احسان مندی کا حق ادا نہیں ہوگا۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے
کہ فیض رسانی کا ملکہ فقط مشہور و معروف انسانوں کی ہی مخصوص ملکیت ہے۔بعض
اوقات بظاہر معمولی انسان بھی غیر معمولی ہوا کرتے ہیں۔یہ اور ہے کہ ظاہر
بین نگاہیں ظاہری ہیولا پر ہی اکتفا کرتی ہیں"درونِ خانہ ہنگاموں کی تماشہ
بینی ان کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے۔ ظاہر بین نگاہوں کا کیا قصور ،اس
معاملے میں تو بقول علامہ اقبال ان کا (یعنی ظاہری آنکھوں کا )ملجا و ماویٰ
یعنی عقلِ نارسا بھی نامراد و ناکام ہے
خرد سے راہ رو روشن بصر ہے
خرد کیاہے چراغ رہ گزر ہے
درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب راقم الحروف نے چند ایک مقامی اخبارات اور
رسائل میں مضامین اور کالم لکھنے کی شروعات کی تھی۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی کام
کے آغاز میں ہر شخص ایک غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہوتا ہے۔ شوقِ تحریر
نے میرے ہاتھ میں قلم تو تھما دیا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی ذہن
میں بار بار میرے ذوق شوق کی کشتی کو جیسے ناامیدی کے بھنور کی جانب دھکیل
رہی تھی کیا ایک محض میٹرک پاس اور ناتجربہ کار نو جوان اس وادی میں تنہا
سفر کرنے کا متحمل ہو پائے گا کہ جہاں بڑے بڑے کہنہ مشق اور عالم و فاضل
افراد کے قدم بھی ڈھگمانے لگتے ہیں؟چہ جائے مجھ جیسا کم ظرف ، کم سواد اور
کم عمرشخص اس وادی میں قدم رنجہ ہونے کی جرئت کرے۔ میرے وجود کے اندر عجیب
قسم کی رستا خیزی چل رہی تھی ،اور یاس و امید آپس میں گتھم گتھا ہو کرایک
دوسرے پر حاوی ہونے کی کوشش میں تھے۔ اور قریب تھا کہ ظاہری حالات و کوائف
کے پشت پناہی سے ناامیدی امید پر غلبہ حاصل کر لیتی کہ اچانک ایک فون کال
نے میرے عزم و جزم کو نئی جلا بخشی اور مجھے حکیم الامت کا یہ حیات بخش
پیغام سنا کر جیسے میرے سوچ و اپروچ میں انقلاب برپا کردیا۔
نہ ہو ناامید ناامیدی زوالِ علم و عرفان ہے
امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
فون کرنے والے شخص کے پوچھنے پر کہ کیا آپ فلاں ہے میں نے اثبات میں جواب
دیا جی ہاں میں ہی ہوں۔اور ساتھ ہی جب اسے بیتابانہ پوچھا کہ آپ کون ہے تو
ان کا جواب تھا "جی کوئی اور نہیں کوئی غیر نہیں بلکہ یہ سمجھئے میں "آپ"
ہوں اور آپ "میں"۔مزید وضاحت کرتے انہوں نے کہا" میں آپ کا ہم نام ہوں میرا
نام بھی فدا حسین جْو ہے پیشہ سے انجینیر ہوں اور مطالعہ کا کافی شوق رکھتا
ہوں اور چند ایک دینی اور فلاحی تنظیموں میں بحیثیت ادنیٰ کارکن حقیر سی
خدمت انجام دے رہا ہوں۔"حسن اتفاق دیکھئیے نہ صرف وہ بلکہ ان کے والد بھی
میرے والدِ مرحوم کے ہم نام تھے۔چنانچہ میں ان دنوں فدا حسین بالہامی کے
بجائے فدا حسین جوکے نام سے لکھتا تھا۔اور مرحوم انجینیر فدا حسین جو کے
احباب اور جاننے والے میرے ہلکے پھلکے مضامین کو ان کی قلمی کاوش سمجھ کر
ان کی پزیرائی کرتے تھے۔اس لئے انہوں نے مجھ سے کہا "کام تو آپ کر رہے ہیں
اور پزیرائی میری ہو رہی ہے۔" بہرحال یہ تو ظاہری مشابہت ہوئی لیکن جب
انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو میں نے اپنے آپ کو ان کا ہم خیال
پایا۔ ایسا لگا جیسا کوئی میرے ما فی الضمیر کو پڑھ کر میرے سامنے ہی پیش
کر رہا ہے ا ن کے ایک ایک لفظ پردل گواہی دے رہا تھا
" میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"
اوردوسری جانب گویا وہ بزبانِ حال کہہ رہے تھے کہ
من تو شدم تو من شدی،
من تن شدم تو جان شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں
من دیگرم تو دیگری
اپنا تعارف پیش کرنے کے بعدانہوں نے یہ کہتے ہوے حوصلہ افزائی کی اور چند
ایک مضامین کے حوالے سے اپنا نقد و تبصرہ بھی بیان فرمایا میرے مضمون کے
متعلق تفصیلی گفتگو ہوئی۔ دورانِ گفتگو مجھے یہ محسوس ہوا جیسے میں کسی
انجینئیر سے نہیں بلکہ ایک نہایت ہی سلجھے ہوئے ادیب اور منجھے ہوئے قلم
کار سے بات کر رہا ہوں۔ مذکورہ مضمون کے حوالے سے اظہار پسندیدگی کے ساتھ
ساتھ جب انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ـ’’یہ مضموں تعلیمی نصاب میں شامل کئے
جانے کے لائق ہے۔‘‘تو اپنے تمام تر نقائص و عیوب کے با وجود میرا عزم و
حوصلہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا۔میں جو اس وادی سے راہ فرار اختیار
کرنے کی سوچ رہا تھا۔دیوانہ وار قدم اٹھاتا گیا۔اس کی بڑی وجہ ہے کہ انہوں
نہ صرف میرا ہر وقت حوصلہ بڑھایا بلکہ مفید آرا سے بھی وقتاً فوقتاً نوازتے
رہے۔ چنانچہ جب بھی میں کچھ لکھنے لگتا ہوں تو مرحوم فدا حسین جُو کا خیال
شعوری یا غیر شعوری طور میرے ذہن میں آ ہی جاتا ہے۔ افسوس!آج ان کے سانحہ
ارتحال پر کالم لکھ رہا ہوں۔
یہ تو ہوئی مجھ ناچیز پر مرحوم کے احسانات کی ایک جھلک۔۔ ان کی عام اور
سیدھی سادھی زندگی بھی دو اہم اور خاص پہلووں کی حامل ہے جن کا مختصر سا
جائزہ یہاں پر بے محل نہیں ہے۔ مرحوم فدا حسین جُوسرینگر کے ایک گنجان آباد
علاقہ لال بازار میں پیدا ہوئے۔انجینئیرنگ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے
بعد نہایت ہی دیانت داری کے ساتھ مختلف محکموں میں نا قابل فراموش خدمات
انجام دیں۔ انجینئرنگ کے متعلق جو اس وقت ہمارے یہاں اغلب رائے پائی جاتی
ہے۔ ان کا نظریہ اس سے بالکل مختلف تھا۔جیسا کہ اس عمومی طور پر یہ تاثر
ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے کہ انجینئیر نگ کا شعبہ دولت کمانے کا ایک
اچھا ذریعہ ہے۔لیکن مرحوم نے اس شعبے کو کبھی بھی حصولِ زر کا ذریعہ نہیں
جانا۔ پوری ایمانداری کے ساتھ اپنی سروس انجام دی۔ اور چند سال پہلے
ایکزیکیٹو انجینئیر کے عہدے سے فارغ ہوئے۔ قابلِ ذکر ہے انہوں نے فرض شناس
افسرہونے کے ناطے نہ صرف اپنے فرضِ منصبی کو نبھایا۔ بلکہ اپنی سماجی
،دینی، علمی،اور ذاتی زندگی کے فرائض سے کبھی بھی چشم پوشی نہیں کی۔ مرحوم
ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو رٹائر ہونے کے بعد اپنی بے کاری سے چھٹکارا
پانے کے لئے کسی سماجی،فلاحی یا دینی ادارہ وابسطہ ہو جاتے ہیں۔ بلکہ انہوں
نے اوائل سے ہی ان دو محاذوں پر زندگی کی جنگ لڑی۔ وہ جہاں اپنی ڈیوٹی میں
کسی طرح کی کوتاہی کو برداشت نہیں کرتے تھے وہاں وہ اپنی دینی،معاشرتی ،
اجتماعی ،اور عائلی زندگی کے فرائض بحسن خوبی نبھاتے تھے۔ ان کی خاص خوبی
یہ ہے کہ انہوں نے ان دو جہات پر کام کرتے ہوئے کبھی بھی توازن کو ہاتھ سے
جانے نہیں دیا۔تحریکِ تنطیم المکاتب کشمیر اور ادارہ نشر علوم اہلبیت کے
تئیں مرحوم کی خدمات اور ایجوکیشنل ٹرسٹ کشمیر میں ان کی فعالیت اس بات کے
ناقلِ تردید ثبوت ہیں۔اس سلسلے میں مرحوم نے اپنی زندگی میں بہت سے مشکلات
کا سامنا کیا۔در واقع ان ہی مشکلات کا سامنا کرتے کرتے وہ اس قدر فولادی
ارادوں کے حامل بن گئے تھے۔ کہ زندگی کے ہر چلنیچ کو خندہ پیشانی کے ساتھ
قبول کیا۔اگر چہ زندگی کے آخری ایام میں مصائب نے مرحوم کو چاروں اور گھیر
لیا تھا۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی آہ تک نہیں کی۔ قابلِ ذکر ہے کہ چند سال
قبل ان کے جوان سال داماد فوت ہو گئے۔ اور گزشتہ سال ان کی ایک بیٹی اور ان
کا واحد بیٹا بھی یکے بعد دیگرے جواں مرگ ہو گئے۔مگر قابلِ داد ہے ان کا
عزم و ہمت !کہ گھر کا گھر خالی ہونے کے باوجود بھی وہ زندگی سے بد دل ہوئے
اور نہ ہی معاشرے یا مقدر سے شکوہ سنج۔ بلکہ احصاب شکن حالات میں بھی حسبِ
معمول ہر سطح پر اپنی سرگرمی کو جاری رکھا۔وہی خندہ روئی ، اوروں کے تئیں
وہی درد و سوز، اپنے فرائض کے حوالے سے وہی لگن اور علمی امور میں وہی ذوق
و شوق دیکھنے کو ملتا تھا۔المختصرمرحوم فدا حسین جُواس خدا جُو شخصیت کا
نام ہے کہ محرومیت اور مجہولیت کے باوجود ہدفِ زندگی کے جویا رہے۔وہ ہدفِ
زندگی عبادتِ الٰہی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے عبودیت حقوق اﷲ اورحقوق
العباد جیسے دو ابعاد پر مشتمل فرض ہے کہ جس کی انجام دہی میں انہوں اپنی
جان جان آفرین کے حوالے کردی۔
حق مغفرت کرے عجب آزد مرد تھا۔ |