پریم نگر نامی گاؤں کے ہندو مسلم باہم شیر وشکر ہوکر رہتے
تھے۔ تیج وتہوارپر رواداری کا رنگ واضح نظر آتا تھا۔امسال رمضان میں گرمی
کی شدت اتنی تھی کہ نل سے نکلنے والا تازہ پانی بھی اُبلا اُبلا سا
لگتا۔ایسے جھلسادینے والے موسم میں روزے کی ہمت جٹا پانا معمولی بات نہیں
تھی۔ مسلمان خیر جیسے تیسے روزہ رکھتے تھے لیکن اُن برادران وطن کی آزمائش
تھی،جو ٹھنڈی میں رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورا رمضان رکھتے آئے تھے۔
عید آتے آتے اس سال بھی خلاصہ ہوگیا کہ تمام بالغ براد رانِ وطن کی ہمت کے
سامنے گرمی کی تپش پست․․․!
اب گا ؤں کے تمام لوگوں کو عید کا شدت سے انتظا ر تھا۔ گرمی سے تپتے پھونس
کے گھربھی گواہ تھے کہ بس عید کی آمدآمد ہے ۔ بچوں کے ذہن ودماغ میں عید کی
خوشیاں جمع ہورہی تھیں۔ بڑے اُن طریقوں پر غو رکررہے تھے ، جن پر چل کر وہ
عید کے دن کی خوشیاں بانٹ سکیں۔اسی درمیان موسم کی حدت وشدت میں تیزی آتی
جارہی تھی۔ پورے دن آسمان سے لُو برستی تھی۔ شام ہوتے ہی ہوا کو ہزاروں پر
لگ جاتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہوا صرف چل نہیں رہی ہے۔ بہہ نہیں رہی
ہے بلکہ ادھم مچاکراڑرہی ہے ۔ اٹھنے والی اس کی سائیں سائیں آواز وں میں
خوف ناکی شامل ہو گئی تھی ۔ اس لیے پورے علاقہ میں اعلان کردیا گیا کہ شام
میں کھانا وغیرہ بڑے احتیاط سے بنایا جائے ۔ تمام باشندوں کے لیے یہ مسئلہ
انتہائی گمبھیر ہوگیا تھا۔
عین عید سے ایک دن قبل جو حادثہ یہاں ہوا ، اس کے سننے کی تاب بھی کوئی
نہیں لاسکا۔ شا م میں ایک چولہے سے چنگاری اڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں
کے تمام گھر چنگاری سے قریب ہوگئے اور چنگاری اتنی توانا ہو تی گئی کہ مت
پوچھئے ۔گویاعید کے لیے جمع کی گئیں چیزوں کو نگل لینے کے بعد ہی وہ سکون
سے بیٹھ سکی ۔
ہر طرف ہاہاکار ․․گاؤ ں لٹ گیا۔ بچوں کی خوشیاں ٹو ٹ گئیں۔ بڑوں کی ہمت
بکھر گئی ۔بقائے باہم کا ستارہ چنگاری کے درمیان کہیں کھوگیا تھا۔ کسی کی
سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ عید کی نماز کے لیے کیسے جائیں۔وقت بھی نہیں
تھا کہ تیاری کی کوئی سبیل نکلے۔ نہ چاند سے درخواست کی جاسکتی تھی کہ وہ
اس گاؤں والو ں کے لیے کچھ دن بعد نکلے۔
گاؤں کے نقشے پر کوئی گھر نہیں بچا تھا کہ عید کے کپڑے بچ پاتے۔ البتہ گاؤں
کے باہر ایک دھوبی تھا ، جو کھلے میدان میں شام کو کپڑے پریس کرتا تھا۔ اسے
پریس کے لیے دیے گئے مسلمانوں کے کپڑے، کرتے تھے یا پھر پینٹ شرٹ وغیرہ۔
لیکن عمر دراز غیر مسلم بھائیوں نے دھوتیاں دی تھیں ۔ گاؤں والوں نے دیر
رات مشورہ کیا کہ آخر کیا جائے۔ بیشتر لوگوں کے کپڑے جل گئے۔ آخر عید کی
نماز کیسے ادا کی جائے گی۔ کرتے یا شرٹ کاٹ کر لوگوں کے درمیان بانٹ دینا
کوئی عقلمندی نہیں ،بلکہ خود کو مزید نیلام کرنا اور ذہن وعقل کا مذاق
اڑانا لازم آئے گا۔ مشورہ میں مختلف باتیں ہوتی رہیں۔ بالآخر یہ طے پایا کہ
غیر مسلم بھائیوں کی جو دس بیس دھوتیاں پریس کے لیے آئی تھیں، وہ کاٹ کاٹ
کر لوگوں کے درمیان تقسیم کردی جائیں۔ کیوں کہ ایک دھوتی میں کئی سفید
لنگیاں بن جائیں گی ۔ |