کچھ بھی کر لو تم نے سوکھی ہی رہنا ہے‘‘،،ندا
کے چھوٹے بھائی نے چینخ کے کہا‘‘،،ندا نے بڑے آرام سے کہا‘‘اماں نے تجھے جو
ہم سب کے حصے کی بوٹیاں سالن میں سے نکال نکال کے کھلائی ہیں نا‘‘،،ان کا
ذرا بھی تجھ پر اثر نہیں ہوا ویسے کا ویسا شاپر جیسا ہے‘‘،،چھوٹا
سکندر،،رونے کے انداز میں چلایا‘‘،،،اماں،،اماںںںںں،،،اماںںںںںںںںںں،،
بانو کے متوجہ نہ ہونے پراس کا سپیکر لاؤڈ سپیکر بنتا جارہا تھا،،،ارے
ماں،،سن کیوں نہیں لیتی اپنے شاپر کی آہ زاری
کیا ہوا؟ بانو اک دم سے نازل ہوئی،،،ماں مجھے باجی شاپر کہہ رہی ہے‘‘،،خود
دیکھو سوکھی کہیں کی‘‘،،ندا کاگھر میدان ِجنگ بنا ہوا تھا‘‘،،،جیت آخر میں
سیکو یعنی سکندر کی ہی ہوئی‘‘،،ندا ہنس کے بولی،،ماں کیاسوچ کے اس کا نام
سکندر رکھا تھا‘‘،،اس روتی شکل کا‘‘،،بانو سر پر ہاتھ مار کے بولی معاف کر
دو میرے بچوں،،معاف کر دو‘‘،،،سلمان کمرے سے باہر نکلا،،بانو نےسلمان کو
دیکھ کرکہا‘‘،،،بیٹا آلوکے پراٹھے بنائے ہیں،،کھا کے جانا،،سلمان اس کے
پیار کی وجہ سمجھتا تھا‘،،مگر،،اسنے بانو کا دل رکھنے کے لیے اک ٹوٹی ہوئی
کرسی کو کھینچ کر،،خود کو اس پربیلنس کرنے لگا،،
ندانے غور سے سلمان کو دیکھا‘‘،،بہت چمک رہے ہو،،،کونسا بیوٹی سوپ یوز کر
رہے ہو آجکل‘‘،،سلمان مسکرادیا،،پانی بہت پیو،،واک کرو ،،اپنا منہ صاف
رکھو،،گلو آہی جاتی ہے‘‘،،ندانے حیران ہو کے کہا‘‘،،اچھا یہ کس نے
فرمایا‘‘،،
سلمان نے ہنس کے کہا‘‘،،حکیم سلمان نے‘‘
ندا:سوپ کا یا حکیم کانام روزی تو نہیں‘‘،،ابھی میں نے حکیم کا نام بتایاتو
ہے‘‘،،سلمان کی بات پرندا بولی‘‘،،سلمان تم پوئٹ،،رائٹر،،مزدور
،،ڈرائیور،،سوشل ورکر،،کرائے دار،،اور اب حکیم بھی ،،میں نہیں
مانتی‘‘،،،ابھی یہ بحث جاری تھی‘‘،،بانو
نے آلو کا پراٹھا لاکر سامنے رکھ دیا‘‘،،،ندا مسکرا کے بولی،،اب اس میں آلو
ڈھونڈتے رہنا‘‘،،بانو نے غصے سے نداکو دیکھا
ابھی بھائی سے لڑکر ارمان پورے نہیں ہوئے،،سلمان نے حالات بگڑتے دیکھے،،تو
بیچ میں کود گیا‘‘،،ارے انٹی رہنے دیجئے‘‘،،اب بھلا کیا کشمیری چائے میں
کشمیر بھی ہوگا‘‘،،یہ تو بس خواہ مخواہ کی باتیں ہیں‘‘،،ندا کی زور سے ہنسی
نکل گئی‘‘،،،مجھے کریم صاحب کے بنگلو جانا ہے دیر سویر ہو جایا کرے
گی‘‘،،ندا نے عجیب سی معنی خیر نظروں سے سلمان کو دیکھا‘‘،،،کریم صاحب یا
روزی‘‘،،،انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند‘‘،،،سلمان نے مسکرا کے ندا
کو دیکھا‘‘،،ہاں صحیح کہا‘‘،،لاڈلا کھیلن کؤ مانگے چاند‘‘،،،مجھ سے لوگوں
کو بس چاند میں بھی گول سی روٹی ہی دکھائی دیتی ہے‘‘،،،نہ میں انوکھا‘‘نہ
میں کسی کا لاڈلا‘‘،،،جس کا تھا وہ تو چاند سے بھی پرے چلی گئی‘‘،،کبھی نہ
آنے کےلیے‘‘،،،پتا بھی تھاکہ اس کےلاڈلے کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہاں
تک جاسکے‘‘،،،
سلمان نے ہاتھ صاف کیے،،اپنا کپڑوں والابیگ اٹھایا‘‘،،،آج تو بتادو،،،نداکی
آواز پروہ رک گیا‘‘
آہستہ سے کہا‘‘،،،پوچھو،،،ویسے مجھ سے لوگوں کے پاس بتانے کو کچھ ذیادہ
ہوتانہیں‘‘،،
ندا نےشکست خوردہ لہجے میں کہا‘‘،،،تم سے جیتنا اتنا مشکل کیوں ہے‘‘،،سلمان
مسکرا دیا‘‘،،،ندا خاموشی سے خالی دروازے کو دیکھتی رہی‘‘،،،،(جاری)
|