“وباڑی کا بجرنگی بھائیجان“

نور الدین اپنے علاقے کیطرح زمانے کی دوڑ سے کئ گنا پیچھے، سہولیات سے کئ کوس دور اور شعور سے کئ خانے خالی تھا۔ گنجان آبادی، ایک مڈل سکول اور چھ مدرسوں نے لوگوں زمانے سے دور اور مدرسوں کے قریب کر دیا تھا۔ سو ویاں کے شاہیں بمشکل مڈل پاس کر کے سروں پر عمامہ باندھ کر یا تو مبلغ دین بن جاتے یا پھر کندھے پر مزدوری کی رسی ڈالے سخت جان مزدور، جو رہ جاتے وہ یا تو امامت کامنصب سنبھالتے یا جانورو ں کی پسند کا چارہ تیار کرتے ہوے بسر اوقات کرتے۔ نور الدین بھی مقامی مسجد کا امام تھا جسکا رزق گاوں والوں کے سپرد تھا۔ پانچ بیٹیوں کے بعد الله نے بیٹے کی نعمت سے تو نوازہ لیکن وہ پیدائشی گونگانکلا۔ ہزار علاج کراےمگر زبان کی گرہیں بدستور بند رہیں اور درالدین ‘گونگے‘ کے نام سے جوان ہو گیا۔ خدی کی وہ بستی جہاں ہنستے بستے لوگوں کیلیے جگہ کم تھی ایک گونگے کو پناہ کیسے دیتی چنانچہ باپ کے فالج زدہ ہونے کے بعد ماں نے اپنے نور چشم کو باقی لڑکوں کیساتھ مزدوری کی تلاش میں ملتان روانہ کر دیا۔ ہیاں آکر کچھ نے تو لوگوں کے گھروں میں نوکریاں کرلیں تو کچھ مزدوری پر جت گئے۔ صدرالدین کا رزق جہاں لکھا تھا وہ جگہ باقی لڑکوں سے کافی دور تھی۔ ایک رات واپسی پر صدرالین منزل کا راستہ بھول گیا اور اسی پریشانی میں شناختی کارڈ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ اسکی دو کمزوریاں تھیں، گونگا پن اور ان پڑھ دماغ۔ جسکی سزا یہ ملی کہ نہ وہ اپنی شناخت کرا سکا نہ ہی کسی اور کو جان سکا۔ چنانچہ تھک ہار کے چلتی گاڑی میں نا معلام سفر پر چلتے ہوئے وہاڑی پہنچ گیا۔ جگہ انجان تھی اور لوگ اجنبی اسلیے کمزور اور معذور سمجھ کر ہر کوئئاپنا اپنا الو سیدھا کرنے کیلے اسے استعمال کرتا رہا۔ حلیہ بھی راستوں اور رویوں کی سختیوں نے ایسا مشکوک بنا دیا تھا کہ کوئ اسے افغانی کہہ کر جھڑکتا تو کسی کو پٹھانوں کے لطیفے یاد آجاتے، کوئ پنجابی کی لغویات سے نوازتا تو کوئ سندھ کا پنوں کہہ کر چڑاتا، غرض ہر شخص نے تیرہ سالوں تک اپنے اپنے ظرف کے مطابق صدرالدین کو تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنائے رکھا۔ یہ معروف سیاسی شخصیت جناب جمشید احمد دستی کا حلقہ تھا جنکے خاندان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جنکا طریق امیری نہیں فقیری ہے اور انہوں نے غریبی میں ہی اپنا نام ایک فلاحی تنظیم کی صورت میں پیدا کیا ہے جن میں سے ایک صفدر عباس صاحب بھی ہی ہیں۔ ایک دن راہ چلتے ہوئے انکی نظر التفات صدرالدینپر پڑگئی تو گویا اسکی زندگی ایک نئے رخ پر گامزن ہو گئی۔ انہوں نے نہ صرف اس گونگے کو پناہ دی بلکہ عزت و تکریم بھی بخشی لیکن ہر صبح صدرالدین کے بستر پر پڑا آنسوؤں سے تر تکیہ عباس کے دنوں کا چین اور راتوں کا سکون چھینے ہوئے تھا چنانچہ انہوں نے ہر قیمت پر صدرالدین کو گھر پہنچانے کا مصمم ارادہ باندھ لیا۔ خدا کا نام لے کر ملک کا چپہ چپہ چھاننا شروع کیا۔ سندھ بلوچستان،پنجاب اور آخر میں خیبر پختونخواہ کی خاک چھانتے ہوئے طورخم بارڈر پہنچے تو وہاں کے قبائلیوں نے صدرالدین کو اپنے علاقے کا کہہ کر روکنا چاہا لیکن عباس صاحب کا دل نہ مانا۔ عین اسی وقت ایک دوست کے ٹیلی فون نے انکا رخ کوہاٹ کی جانب موڑ دیا۔ وہ کوہاٹ پہنچے تو ظہر کا وقت تھا اور بھوک کی شدت۔ کھانے پر ٹوٹ پڑے لیکن سالن کے پھیکے پن نے نمک کا تقاضہ کیا تو عباس صاحب نے اپنی پلیٹ پر نمک چھڑکنے کے بعد صدرالدین کے پلیٹ کا ضائقہ بھی بدل دیا۔ یہ جگہ کا فیضان تھا یا ڈالنے والے کا خلوص کہ صدرالدین نے خوشی اور جوش میں آکر نمک کیطرف اشارہ کرتے ہوئے ہاتھ سے پہاڑ بنا دیا۔ کہتے ہیں کہ جن پر بھلائی کا کرم ہوتا ہے وہ آدمی نہیں معجزے ہوتے ہیں اور عباس بھی اپنی ذات میں ایک معجزہ ہی تھے کہ جو صدرالدین کا اشارہ بھانپ گئےاور تمام ایسے علاقوں کی کھوج شروع کر دی جہاں قدرت نے نمک کے پہاڑ بنائے ہیں۔ تمام علاقوں میں نزدیک ترین بہادر خیل(کرک) کے پہاڑ معلام ہوئے چنانچہ سفر شروع ہو گیا لیکن فلاح انسانیت کے اس سفر میں جوں جوں گاڑی اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی صدرالدین کا چہرہ خوشی سے کھلتا جا رہا تھا ۔ وہ ہر موڑ کو ایسی خوشی اور تڑپ سے دیکھتا گویا کسی قریبی آشنا کو دیکھ رہا ہو اور پھر ایک مقام پر بے اختیار جیب سے دس روپے کا نوٹ نکال کر عباس صاحب کے سر کے گرد پھیرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ رو دیا۔ ابھی جذبات سرد نہ ہوئے تھے کہ دور سے ایک سوزوکی ڈرائیور صدرالدین کو حیرت اور خوش سے گھورتا ہوا گاڑی کے قریب آیا اور ‘گونگے‘ کی آواز لگائی۔ یہ تھا عباس صاحب کی منزل کا آخری دروازہ جو پڑوسی کے رشتے ڈرائیور نے کھول دیا۔ گاوؤں والوں کو صدرالدین کی آمد کی خبر ملی تو گویا معجزہ تھا کیونکہ لوگ تو اسے مردہ سمجھ کر بھول ہی گئے تھے اور پھر وہ عالم تھا کہ جو اپنے رشتوں سے ملنے کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام کا تھا۔۔وہی آنسو، وہی ہچکیاں، وہی جدائی اور کرب میں ڈوبی آہیں۔ تیرہ سالوں نے بہت سے چہروں پر مٹی ڈال دی تھی، بہت سے چراغ گل ہو گئے تھےلیکن کچھ دیے اب بھی انتظار میں جل رہے تھے ۔۔۔بوڑھی ماں، دو عمر رسیدہ بہنیں اور ایک منکوحہ جو اسی شام کسی اور کے نکاح میں جانے والی تھی کہ دعا قبول ہو گئی۔ ماں کے لرزتے ہونٹوں سے نکلتی دعائیں اور بہنوں کی ممنون نگاہوں سے چھلکتے آنسو عباس صاحب کی روح کو تازہ اور کسی اور انسان کی خدمت کیلیے تیار کر رہے تھے۔

ارشاد پاک ہے کہ “تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جس سے لوگوں کو بھالائی پہنچے“۔ پاکستان دنیا میں فلاح انسانیت اور صدقات و خیرات کے حوالے سے سر فہرست ہے۔ یہ بستی میری بستی ہے اسے نہ رائیگاں سمجھو، یہاں اہل نظر بھی ہیں، یہاں سوز جگر بھی ہے، یہاں پاس وفا بھی ہے، یہاں ایدھی کا سنٹر بھی، یہاں کینسر مٹاتے قوم کے روح رواں بھی ہیں، یہ میر کارواں، مشکل کشاو رہنما بھی ہیں، یہاں ہر شخص جانے ہے کہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو،
ورنہ خدمت کیلیے کچھ کم نہ تھے کیروبیاں!

یہ کہانی یہاں تک تو دلچسپ ہے لیکن آگے دلخراش۔ سوالوں کا ایک جم غفیر جوابوں کا متقاضی ہے کہ جس صدرالدین نے اپنی معذوری کو گکے کا طوق بنا کر تیرہ سال سزا پا لی، اسے آئے ہوئے تین دن گزر چکے ہیں۔ باپ کو کئے پانچ سال کا طویل عرصہ بیت گیا ہے۔ بہنوں کی عمریں شادیوں کی حد گزر چکی ہیں۔ گھر کا چولھا پھر سے بجھا پڑا ہے۔ اب کیا ماں پھر سے گونگے کو کمانے بھیجے گی؟ گونگا پن پھر سے گناہ بن کر اسکے تیرہ سالوں کا کفارہ مانگے گا؟ پھر تو شاید عباس بھی ملیں کہ نہ ملیں کیونکہ معجزے بھی تو بار بار نہیں ہوتے۔ خیبر پختونخواہ حکومت نے کمال مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خصوصی افراد کیلیے ادارہ تو قائم کر دیا ہے لیکن کیا صوبائی سطح پر لوگ اس سے متفید ہو سکیں گےِ؟ کیا کوئی اس پراجیکٹ کو تمام تر افادیت سمیت ان پڑھ لوگوں کے ذہنوں میں ڈال سکے گا؟ کیا ملک میں ایسے ادارے مقامی سطح پر بنانے کی ضرورت نہیں ہےِ؟ خداراہ سوچیئے اوراحتساب کیجئے کیونکہ
خدا کا رزق تو ہرگز زمیں پر کم نہیں یارو،
مگر یہ بانٹنے والے، مگر یہ کا ٹنے والے!

یہ کہانی ایک گونگے کی نہیں بلکہ ہزاروں ایسے معذور اور بے سہارا افراد کی ہے جو اپنی عزت اور بقا کی جنگ میں بری طرح زخمی ہیں جن میں شاید ہی کسی کو عباس صاحب جیسے لوگ انگلی پکڑکے لائے ہوں۔
آخر میں یہی کہنا چاہوں گی کہ میری کسی تنظیم سے وابستگی ہے نہ ہی کسی شخصیت کی نمائیندگی کا شوق لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جب کسی کو محسوس نہ ہوتا ہو اسلیے حکومت سے درخواست ہے کہ وہ قومی سطح پر ایسے افراد کی سرپرستی کرے، ایسے فلاحی اداروں کی مالی معاونت کرے، خصوصی افراد کیلیے بنائے گئے اداروں کو فعال بنائے، انکی تعداد میں اضافہ کرے، محکمہ زکوہ ایسے لوگوں کو ماہانہ وظائف مہیا کرے، میڈیا ایسے لوگوں اور عباس صاحب جیسے فرشتہ صفت انسانوں کی نیک نیتی اور خلوص کو سلام پیش کرے، اور ہم لوگ کہ جوکردار، معیار اور افکار سے فلمی ہو گئے ہیں جیسے فلموں میں بجرنگی بھائیجان کو دیکھ کر آنکھ سے آنسو، ہونٹوں سے سیٹی اورہاتھوں سے تالیاں نکالتے ہیں ویسے ہی اپنے اصلی ہیروز کو بھی پہچانیں، انکی قدر کریں، انکے احسان مند رہیں کیونکہ یہی تو ہیں ہمارے اصل “ بجرنگی بھائیجان“۔
 
Sidra Subhan
About the Author: Sidra Subhan Read More Articles by Sidra Subhan: 18 Articles with 20622 views *Hafiz-E-Quraan

*Columnist at Daily Mashriq (نگار زیست)

*PhD scholar in Chemistry
School of Chemistry and Chemical Engineering,
Key Laborator
.. View More