اب آتے ہیں معاشرے کی اس صنف کی طرف جو
ہمیں فوتگیوں میں نظر آتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو زندہ رہتے ہوئے بھلے
آپکو منہ نہ لگائیں لیکن آپکی موت پر وہ بین کرتے دکھائی دیں گے گویا آپکی
موت نہیں انکی متاع حیات لٹ گئی ہو۔۔ یہ منظر اس وقت زیادہ رقت آمیز ہوتا
ہے جب یہ مرحوم کے لواحقین سے ملتے ہیں۔ انکی آواز یک دم درد اور سراسیمگی
سے بھر جاتی ہے۔ یہ عمل زیادہ تر خواتین میں مقبول ہے۔ لواحقین کو گلے
لگاتے وقت آنکھوں میں آنسو لانے کی کوشش میں جو طریقے اپناتے ہیں انہیں
کوئی پروڈیوسر دیکھ لے توجھٹ سے اپنی فلم میں کاسٹ کر لے۔۔۔ مرحوم کی یاد
میں یہ جملہ بازیاں زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ تک جاری رہتی ہیں اسکے بعد
انہیں اپنے 'مطلوبہ لوگ‘ مل جاتے ہیں جن کے ساتھ مل کر یہ اصناف خاندان بھر
کے ‘معاملات‘ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ علاقے بھر کی ٹوہ لیتے ہیں،اپنی بیکار کے
'لغو گوئی' پر قہقہے لگاتے ہیں، ایک دوسرے کے کپڑوں، خدوخال اور چال چلن کا
تفصیلی جائزہ لیتے نیز اپنی قیمتی آراء سے آگاہ کرتے ہیں۔ کہیں کسی کی سونے
کی چوڑیاں زیر بحث ہوتی ہیں تو کہیں برانڈز کے سوٹ میں ملبوس مہنگے
تعزیتیوں کے حسن اور امارت کے گن گائے جاتے ہیں. ایسے میں اچانک جب مرحوم
کا کوئی قریبی رشتہ دار قریب آ جائے تو انہیں یاد آتا ہے کہ وہ کسی میلے
میں نہیں بلکہ واقعی فوتگی پر آئے ہوئے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ
سارے امور سر انجام دینے کیلئے انہیں کہیں دور نہیں جانا پڑتا بلکہ میت سے
چند قدم کے فاصلے پر رہتے ہوئے یہ سب کرتے ہیں تا کہ اگر کوئی دور سے دیکھے
تو انہیں یہی لگے کہ مرحوم کیلئے زیادہ سوگوار یہی ہیں انہیں دیکھ کر بین
کو آرٹ کا درجہ دینے کی خواہش جنم لیتی ہے گویا. ..
بین کرنا بھی ایک آرٹ ہے
بین کرتا ہے وہی جو واقعی اسمارٹ ہے!
خیر..اس تمام ناٹک کو کامیابی سے تکمیل تک پہنچانے کیلئے انہیں مزید
توانائی کی بھی ضرورت ہوتی ہے جسے پورا کرنے کیلئے انہیں ‘چائے پانی‘ اور
‘خوراک‘ کی طلب لگی رہتی ہے۔ اس طلب کو مٹانے کیلئے بھی وہ ایک سو ایک
ڈرامے رچاتے ہیں۔ اب اگر ‘خوراک‘ انکے طبع کے مطابق ہوئی تو مزید کھانے کی
جستجو میں لگے رہیں گے اور اگر طبع نازک پر گراں گزری تو طنز و تشنیع کے
نشتر برسانے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ اس پورے عمل کے دوران وہ کن انکھیوں
سے یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔۔کھانے کے بعد فضا میں دبی
خاموشی محسوس کرنے کے بعد فی الفور اپنی پرسوز آواز کا جادو بکھیرتے ہوئے
ویران ماحول کو آہوں اور سسکیوں کے رنگوں سے سجا دیتے ہیں کہ اگر تو مرحوم
کے لواحقین کو کچھ دیر کیلئے صبر آ گیا ہے یا تھک کہ چپ ہو گئے ہیں تو پھر
سے اپنی اوقات میں آ جائیں اور یہ کبھی نہ بھولیں کہ سامنے پڑی ہوئی میت
نہیں دراصل انکی زندگی کا جنازہ ہے۔۔۔ جنازے سے یاد آیا کہ جنازے کے کچھ
گھنٹوں بعد جب لواحقین تھک کہ گر پڑتے ہیں تو بجائے حوصلہ دینے کے یہ انکو
وقفے وقفے سے یہ ضرور یاد دلاتے ہیں انہیں چپ نہیں ہونا کیونکہ بین کرنے،
رونے سے مرحوم کا حق ادا ہوتا رہے گا۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا اور معاشرہ
یونہی پلتا رہتا ہے۔
اور میں یہ سب دیکھ کہ سوچتی ہوں کہ کیا آنسو ہی اس بات کی گواہی دینگے کہ
مرحوم سے ہمیں کس قدر محبت تھی، کیا بین کہ چند بول فیصلہ کریں گے کہ ہماری
قربت کا معیار کیا تھا۔۔ کیا سر پر پٹی باندہ دینے سے کرب کا پیمانہ چھلکتا
دکھائی دے گا؟ کیا ساری زندگی مرحوم کو اذیتیں پہنچانے کے بعد یہ چند بول
محبت کا نقشہ کھینچنے میں کامیاب ہونگے؟ کیا ہر دو منٹ کے وقفے بعد یہ یاد
دلانا ضروری ہوتا ہے کہ ہمارے سروں سے محبت کی ٹھنڈی چھاؤں ختم ہوگئی؟ کیا
غم کے نام پر تیسرے، جمعراتیں چالیسویں اور برسیاں منانے سے ہی ظاہر ہوگا
کہ مرحوم کا ہماری زندگی میں کیا مقام تھا؟
اگر نہیں تو پھر ایسا کیوں ہے؟ ہم دکھاوے اور ریاکاری میں اس قدر بدنام
ہوگئے ہیں کہ ہماری فوتگیاں بھی ہم پر ماتم کناں ہیں۔ ہم اپنی منزل دیکھتے
ہوئے بھی ڈھٹائی کے آخری دہانے پر کھڑے ہیں۔
بہت سے لوگ ایسے بھی پیں جنکے آنسو شدید غم میں ختم پو جاتے ہیں. بہت سے
ایسے بھی ہیں جنہیں پریشانی اور تکلیف میں زیادہ بھوک لگتی ہے. بہت سے ایسے
لوگ ہیں جو اپنے والدین کی موت پر بھی صبر سے کام لیتے ہیں تو کیا یہ سب
محبت سے عاری ہیں یا احساس کی دولت سے محروم ہیں. لیکن معاشرہ آج بھی
آنسوؤں، جملہ بازیوں اور بین سے چلتا ہے...تف ہے اس روش پر اور تف ہے اس
معاشرے پر۔۔۔خداراہ اپنے اس ناٹک سے میت کو بخش دیں کیا خبر یہی عمل ہی
مرحوم کی نجات کا باعث بنے! |