جل مرنے والوں کے نام!

 اگلے روز عید تھی، کراچی سے لاہور جانے والی مرکزی شاہراہ پر ٹریفک رواں دواں تھی، سورج صبح سات بجے ہی پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر تھا۔ بہاول پور کی تحصیل احمد پور شرقیہ سے پانچ کلومیٹر کی دوری پر ایک آئل ٹینکر سڑک پر الٹ گیا، وہ کسی سواری کو بچا رہا تھا، یا اس کا ٹائر پھٹ گیا تھا، کوئی نہیں جانتا۔ پچیس ہزار لیٹر تیل سڑک سے ہوتا ہوا کھیتوں کی جانب بہنے لگا۔ چند ہی لمحوں میں قریبی آبادیوں سے لوگ ٹینکر کی طرف لپکے، بالٹیاں، بوتلیں، پتیلیاں،جس کے ہاتھ میں جو برتن آیا اس نے اٹھایا، ٹینکر کی طرف بھاگا ۔ سیکڑوں لوگ اس عمل میں شامل ہو گئے، سڑک پر گزرنے والے مسافر بھی یہ منظر دیکھنے لگے۔ لوگ نہایت یکسوئی اور تیزی سے اپنے برتنوں میں پٹرول ڈال رہے تھے کہ کہیں سے چنگاری بھڑکی۔ ایک زور دار دھماکہ ہوا، چند ساعتوں میں وہ پوری جگہ جہاں تک پٹرول پہنچا تھا، آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ آگ کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ تیل برتنوں میں بھرنے والا کوئی ایک فرد بھی نہ بچ سکا۔ سڑک پر سے گزرنے والی گاڑیاں بھی اس کی لپیٹ میں آئیں۔ چونکہ وہاں سڑک پر بہت سے لوگ بھی جمع ہو چکے تھے، وہ بھی لقمہ اجل بن گئے۔ مرنے والوں کی تعداد 130 کے قریب بتائی جارہی ہے، 75موٹر سائکل جل گئے۔

جہاں چند لمحے قبل زندگی رواں دواں تھی، وہاں آگ کے شعلے تھے، گہرے سیاہ دھوئیں کے بادل تھے۔ شعلے بجھے، بادل چھٹے ، تو تیل برتنوں میں بھرنے والوں کی کوئلہ ہوئی لاشیں تھیں، جلی ہوئی سواریاں تھیں، کھیتوں کی کھالیوں میں بکھرے پڑے برتن تھے۔ ان میں وہ مسافر بھی شامل تھے، جو صرف یہ منظر دیکھنے کے لئے سڑک پر رک گئے تھے۔ اگر ایک سو تیس جاں بحق ہوئے تو سو سے زیادہ زخمی بھی ہیں۔ ظاہر ہے یہ لوگ جل کر زخمی ہوئے ہیں، اور ایک خاص حد سے زیادہ جلنے والے کم ہی صحت یاب ہوا کرتے ہیں۔ زیادہ تر لاشیں ناقابلِ شناخت ہیں، غریبوں کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کا بندوبست بھی ناممکن ہے۔ آگ بھڑکنے پر قریبی بستیوں کے باقی ماندہ لوگ بھی آہ وبکا کرتے ہوئے موقع پر پہنچے، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ان کے گھر سے بھی خواتین، مرد اور بچے پٹرول بھرنے آئے ہوئے ہیں، وہاں پہنچ کر انہیں یہ بھی یقین ہوگیا کہ ان کا کوئی بھی پیارا زندہ نہیں ہے، وہ بے بسی سے آگ اور دھوئیں کے ختم ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ ایسا کربناک اور تکلیف دہ منظر انہوں نے زندگی میں نہ دیکھا تھا۔ ریسکیو کے لئے بہاول پور سے ٹیمیں پہنچ گئیں، پاک فوج کے ہیلی کاپٹر بھی جائے حادثہ پر پہنچے، زخمیوں کو بہاول وکٹوریہ ہسپتال پہنچایا گیا، کچھ کو فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعہ نشتر ہسپتال ملتان پہنچایا گیا۔

بات یہاں ختم نہیں ہوئی، مرنے والے تو چند لمحوں میں راکھ ہوگئے، زخمیوں کو بہاول پور پہنچایا گیا، مگر ستم ملاحظہ فرمائیے، کہ بہاول پور کے خوبصورت شہر میں بہاول وکٹوریہ کے نام سے ایک بہت بڑا ہسپتال ہے، جہاں سندھ تک کے مریض لائے جاتے ہیں، جہاں قائد اعظم میڈیکل کالج موجود ہے، چند برس قبل ہی یہاں ایک سول ہسپتال بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں کایہ خوبصورت شہر ، کہ جسے حکمران بھائی اپنا دوسرا گھر قرار دیتے ہیں، کبھی ریاست کے زمانے میں یہ پاکستان کی امیر ترین ریاست تھی، مگر تمام تر خوبصورتیوں اور حکومتی کارروائیوں کے باوجود نہایت پریشان کن خبر یہ ہے کہ بہاول پور کے ہسپتالوں میں ’’برن یونٹ‘‘ کا وجود نہیں ہے، سنجیدہ مریضوں کو ملتان بھیجا جاتا ہے۔ یہ تنقید کی روایت کا معاملہ نہیں، عوامی بے بسی اور حکومتی بے حسی کا المیہ ہے کہ حکومت اپنی ترجیحات پر توجہ دیتی ہے، غیر ضروری کاموں پر اربوں روپے اجاڑتی ہے۔ اب بھی عید کے موقع پر بہاول پور کی ’سرکلر روڈ‘ کو اس قدر زیادہ برقی قمقموں سے سجایا گیا ہے، جیسے کوئی صد سالہ جشن ہو، لاکھوں روپے کی یہ فضول خرچی ان لوگوں کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف ہے، جو عید پر اپنے بچوں کو جوتی کپڑے لے کر نہیں د ے سکتے۔ ہمارے حکمران تو اپنے علاج کے لئے لندن چلے جاتے ہیں، مگر غریب عوام کے لئے صرف نعرے ہیں۔ اپنے خادمِ اعلیٰ نے تین روز پہلے ہی فرمایا ہے، کہ’’ عوام کو صحت کی تمام سہولتیں بہم پہنچانے تک چین سے نہیں بیٹھوں گا‘‘۔ اس حادثے میں مرنے والے اور زخمی مطمئن رہیں کہ خادم اعلیٰ اُن کے لئے بہت بے چین ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473225 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.