مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے!

ہم کیا کرسکتے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ نعرہ بازی کرسکتے ہیں، زیادہ سے زیادہ حکومت کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں، سڑکوں پر نکل آسکتے ہیں، قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں، اس کے علاوہ؟ سوئی ہوئی قوم کو بیدار تو کیا جاسکتا لیکن بے غیرت قوم کے ساتھ کیا سلوک کیا جاسکتا ہے؟ سوئے ہوئے کو تو تھوڑی کوشش کے بعد جگایا جاسکتا ہے لیکن سونے کا ناٹک کرنے والے کو لاکھ کوشش کے بعد بھی نہیں جگایا جاسکتا، یہی حال ہمارے رہبران ملت کا ہے، جن کو امت نے اپنا امام سمجھا، چاہے وہ عالمی سطح پر ہو یا ملکی سطح پر، ہر کوئی اپنی گدی پر مست مولا بنا ہوا ہے اور سکون کی نیند لے رہا ہے. وہ قوم جس کے نبی صلعم نے اسے ایک جسم کی مانند قرار دیا اور کہا کہ اس کے ایک حصہ پر زخم لگنے پر سارے جسم کو اس کی تکلیف محسوس ہوگی لیکن آج وہی قوم کے نوجوان بے دردی کے ساتھ قتل کئیے جارہے ہیں، عالمی سطح پر ملکوں کی جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اور ملکی سطح پر 'ترقی' کے نام پر، انسانیت رسوا ہورہی ہے خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے لیکن امید کی جائے تو کس سے کی جائے؟ ملک کا وزیراعظم جو بھگوا دہشت گرد کا آلہ کار ہے اس سے امید کرنا باشعور طبقہ کی بے وقوفی ہے، وہ آئے ہی اس لئے ہیں کہ ملک کو زعفرانی رنگ میں رنگ دیا جائے لیکن امت کے وہ امراء جنھوں نے مسلمانوں کی نمائندگی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کیا ان سے بھی امید کی جاسکتی ہے؟ کیا وہ بھی کسی قسم کا درد محسوس کرتے ہیں؟

ہندوستان کی جو حالت گزشتہ تین سالوں میں تبدیل ہوئی ہے وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے، جس پر مرثیہ خوانی ہر محرر، مقرر اور ادیب کررہا ہے اور اپنا اپنا غم ظاہر کررہے ہے، لیکن یہ نام نہاد تنظیمیں جو دعوی کرتی یے کہ ہم ہی مسلمانوں کی واحد جماعت ہے جو اسلام کی نمائندگی کرسکتی ہیں ان کا کیا رول ان حالات میں نظر آرہا ہے؟ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے تو اس بات پر کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ تمام جماعتیں نہی کے برابر کام کررہی ہے بعض تحریکیں ہیں جو اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں لیکن ان کا بھی کوئی خاص وزن موجود نہیں.

ملی جماعتوں کا مختصر جائزہ اگر لیں تو حالت واضح ہوجائے گی.کئی لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ کو محض مساجد کی چار دیواری تک مقید کئیے ہوئے ہیں اور ان کا کوئی تعلق معاشرتی مسائل سے نہیں ہے اور کئی افراد ایسے بھی ہیں جن کا تعلق معاشرتی مسائل سے تو ہے لیکن سوائے نام و نمود کے کوئی ان کا مقصد نہیں ہے، اس کے علاوہ بعض لوگ تو ابھی تک بشر اور نور کے مناظروں سے نکل نہیں سکے. اب ایسے افراد سے کیا امید کی جاسکتی ہیں کہ وہ امت کی قیادت کا حق ادا کرسکیں؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں کئی افراد ایسے بھی ہیں جو امت کا حقیقی درد رکھتے ہیں اور ان کی فلاح کے لیے آگے آتے ہیں اور اپنی زندگیاں قربان کرتے ہیں لیکن ان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے کام میں مزید تیزی پیدا کریں تاکہ امت کو معلوم ہوسکے کہ ایسے بھی لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں اور ان کے ساتھ جڑ کر کام کیا جاسکتا ہے.

اگر ملی جماعتوں کے اتحاد کی بات کی جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ سب جماعتوں نے محض اپنے مسلک کو ہی مکمل اسلامی جماعت سمجھ لیا ہے اور وہ اسلام کی تشہیر کے بجائے اپنے مسلک اور جماعت کی تشہیر میں مصروف ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے سوا دیگر جماعتوں کی توہین و تحقیقر کا کام شروع ہوگیا، اگر کوئی جماعت متحدہ پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے تب بھی دوسرے ان کے تعاون سے گریز کرتے ہیں، بعض اوقات وہ ایک دوسرے سے ملاقات تو کرتے ہیں لیکن مجموعی طور پر امت کی خیر خواہی کے لئے سب کا ایک ساتھ آنا مشکل نظر آتا ہے، اگر قائدین کا کردار یہ ہے تو ان کے کارکنوں کا کردار بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی. حقیقت یہ بھی ہے کہ امت میں ایسے لوگوں کہ تعداد بھی موجود ہیں جو اتحاد امت کے لیے درد رکھتے ہیں اور کوشاں ہیں لیکن ان دوسرے افراد کی بے حسی کا کیا کیا جائے جو ان دگرگوں حالات میں بھی اتحاد کی دعوت پر لبیک نہیں کہتے بلکہ لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں.

ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ افسوس اس امت واحد میں ایسے افراد کی بھی کثیر تعداد موجود ہیں جو خود کو تمام جماعتوں سے آزاد مانتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم تو نماز بھی پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں اور جو کسی جماعت سے جڑے ہوئے ہیں وہ بھی یہی کام کرتے ہیں تو ہم میں اور ان میں فرق کیا ہے. یہ درحقیقت تمہارا مکر ہے جو خود کو اجتماعیت سے منسلک ہونے نہیں دیتا،نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "جس شخص نے امام ؍ امیر کی طاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تو قیامت کے دن وہ اللہ سے ایسے ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہوگی اور وہ شخص جس کی گردن میں کسی امام ؍ امیر کی بیعت کا قلادہ نہیں ہے اور اسی حالت میں اس کی موت ہوجائے تو گویا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔‘‘ (مسلم) اس لیے ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ اپنی خوش فہمی سے باہد نکلیں اور اپنے آپ کو اطاعت امر کا حصہ بنالیں.

گزشتہ تین سالوں میں مسلمانوں پر جو ظلم اس ملک میں کیا جارہا ہے اس پر بھی مسلمانوں کی بے حسی افسوسناک ہے، بعض اوقات جزوقتی احتجاج ہوجاتا ہے لیکن مستقل لائحہ عمل ہمارے پاس موجود نہیں جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہم ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہونے کے باوجود تشدد کا شکار ہے اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو امت کا انتشار، قرآن نے بنیان مرصوص کا جو پیغام دیا ہے اس کو بھلا دیا گیا اور ذلت و رسوائی مقدر بن گئی ہے. دوسری وجہ نبی کریم صلعم کی حدیث میں ملتی ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ دنیا کی قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑے گی جس طرح بھوکے بھیڑئے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں دوسری روایت میں ہے کہ تمہارا وزن سمندر کے جھاگ کی مانند ہوگا، صحابہ اکرام پوچھتے ہیں کہ کیا اس وقت ہماری تعداد کم ہوگی، فرماتے ہیں نہیں بلکہ تعداد میں تو زیادہ ہونگے لیکن دو خصلتیں تمہارے اندر پیدا ہوجائے گی، ایک حُب الدنیا دوسری کراہت الموت. یعنی دنیا کی محبت اور موت سے نفرت.

ان وجوہات کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے آپ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہماری صورتحال کیا ہے اور ہم کیوں رسوا ہورہے ہیں. اگر اب بھی ہم اپنی اہمیت کو جاننے کی کوشش نہیں کرینگے کہ ایک وقت ہم نے قیصر و کسرا کی طاقت کو بھی کچل دیا تھا، تب ہمارا حال اس سے بھی بدتر ہوگا.

ہاں امید ہے... نہ ان حکمرانوں سے اور نا ہی نام نہاد نمائندوں سے، بلکہ اللہ سے امید ہے جو کہ ہر رات کے بعد طلوع آفتاب لاتا ہے، اور کہتا ہے کہ ہر تنگی کے بعد فراغی ہے. اور ہمیں یقین ہے کہ اللہ ہماری ضرور مدد کرےگا لیکن اس کے لئے بھی ہم تمام کو آپسی اختلافات کو چھوڑ کر طاغوتی طاقتوں کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا.

تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے

تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے!

Mohammed Faraz Ahmed
About the Author: Mohammed Faraz Ahmed Read More Articles by Mohammed Faraz Ahmed: 10 Articles with 10042 views Working as Assistant Editor of Rafeeq e manzil, Urdu Monthly, New Delhi, India. Student of Political Science & History, interested in current affairs,.. View More