نماز عید کی زائد چھ تکبیریں احادیث کی روشنی میں

نمازِعید کی زائد چھ تکبیروں کا ثبوت احادیث مبارکہ و آثار صحابہ کی روشنی میں

امام اعظم زندہ باد. ٧٨٦ امام احمد رضا زندہ باد


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ وَابْنُ أَبِي زِيَادٍ- الْمَعْنَى قَرِيبٌ- قَالاَ: حَدَّثَنَا زَيْدٌ- يَعْنِي ابْنَ حُبَابٍ- عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مَكْحُولٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو عَائِشَةَ جَلِيسٌ لأَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ سَأَلَ أَبَا مُوسَى الأَشْعَرِيَّ وَحُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ فِي الأَضْحَى وَالْفِطْرِ فَقَالَ أَبُو مُوسَى كَانَ يُكَبِّرُ أَرْبَعًا تَكْبِيرَهُ عَلَى الْجَنَائِزِ. فَقَالَ حُذَيْفَةُ صَدَقَ. فَقَالَ أَبُو مُوسَى كَذَلِكَ كُنْتُ أُكَبِّرُ فِي الْبَصْرَةِ حَيْثُ كُنْتُ عَلَيْهِمْ. وَقَالَ أَبُو عَائِشَةَ وَأَنَا حَاضِرٌ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ.(سنن ابي داود، كتاب الصلاة، باب التكبير في العيدين، رقم الحديث؛ 1155

ترجمہ : حضرت مکحول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک ہمنشین ابوعائشہ نے بتایا کہ میں نے حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح تکبیر کہتے تھے؟ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ (ہر رکعت میں) چار تکبیریں کہتے تھے جیسا کہ آپ نماز جنازہ میں کہتے تھے۔ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سچ کہتے ہیں. حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے (مزید) بتایا کہ جب میں بصرہ والوں پر حاکم (گورنر) بنایا گیا تو میں وہاں بھی اسی طرح تکبیریں کہا کرتا تھا. ابوعائشہ نے کہا کہ (اس سوال و جواب کے موقع پر) سعید بن العاص کے ساتھ موجود تھا۔
[سنن ابوداؤد: جلد اول: حدیث نمبر1155، نماز کا بیان : عیدین کی تکبیرات کا بیان]

پہلی رکعت میں تین (٣) زائد تکبیرات چونکہ تکبیرِ تحریمہ کہکر ثنا کے متصل بعد کہی جاتی ہیں اور دوسری رکعت میں یہ تکبیرات کہکر متصل رکوع کی تکبیر کہی جاتی ہے، اس لئے اس اتصال کی وجہ سے پہلی رکعت میں رکوع کی تکبیر سے مل کر چار. گویا ہر رکعت میں چار تکبیرات شمار ہوں گی.خلاصہ کلام یہ ہے کہ پہلی رکعت میں مع تکبیر تحریمہ چار تکبیریں کہا کرتے تھے اور دوسری رکعت میں مع تکبیر رکوع چارتکبیریں کہا کرتے تھے۔

قال الملا علي القاري
- ( وعن سعيد بن العاص ، قال : سألت أبا موسى وحذيفة : كيف كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يكبر في الأضحى والفطر ؟ ) أي : في صلاتهما . ( فقال أبو موسى : كان يكبر ) : أي : في كل ركعة . ( أربعا ) أي : متوالية ، والمعنى مع تكبير الإحرام في الركعة الأولى ، ومع تكبير الركوع في الثانية . ( تكبيره ) أي : مثل عدد تكبيره . ( على الجنائز ) قال ابن حجر : يؤخذ منها أن الأربعة منها تكبيرة الإحرام ، والزوائد إنما هو ثلاثة اهـ . وهو موهم أن الزوائد ثلاثة في صلاة العيد ، وليس كذلك ، وإنما الزوائد في كل ركعة ثلاثة ، فالتشبيه في العدد فقط كما أشرنا إليه ، خلافا لتقدير ابن حجر أي : مثل تكبيره على الجنائز . ( فقال حذيفة : صدق ) أي : أبو موسى . ( رواه أبو داود ) : زاد ابن الهمام فقال أبو موسى : كذلك كنت أكبر في البصرة حيث كنت عليهم . قال : وسكت عنه أبو داود ، ثم المنذري في مختصره ، وهو ملحق بحديثين إذ تصديق حذيفة رواية لمثله ، وسكوت أبي داود والمنذري . تصحيح أو تحسين منهما
)مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، المجلد الثالث، ص؛ 494

) أَنَّ الْقَاسِمَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " صَلَّى بِنَا ، النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عِيدٍ ، فَكَبَّرَ أَرْبَعًا ، وَأَرْبَعًا ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ حِينَ انْصَرَفَ ، قَالَ : لا تَنْسَوْا ، كَتَكْبِيرِ الْجَنَائِزِ ، وَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ ، وَقَبَضَ إِبْهَامَهُ " .
[شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ الزِّيَادَاتِ » بَابُ صَلاةِ الْعِيدَيْنِ كَيْفَ التَّكْبِيرُ فِيهَا ...، رقم الحديث: 4820]


ترجمہ : ابو عبدالرحمٰن قاسم فرماتے ہیں کہ مجھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے بتایا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھائی تو چار چار (4،4) تکبیریں کہیں، جب نماز سے فارغ ہوۓ تو ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا : بھول نہ جانا عید کی تکبیرات جنازہ کی طرح (چار) ہیں. آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہاتھ کی انگلیوں کا اشارہ فرمایا اور انگوٹھا بند کرلیا.
[شرح معانی الآثار، لطحاوی :، بَابُ صَلاةِ الْعِيدَيْنِ كَيْفَ التَّكْبِيرُ فِيهَا]

قال الطحاوي رحمه الله :
"فهذا حديث حسن الإسناد ، وعبد الله بن يوسف , ويحيى بن حمزة , والوضين والقاسم : كلهم أهل رواية , معروفون بصحة الرواية ليس كمن روينا عنه الآثار الأول فإن كان هذا الباب من طريق صحة الإسناد , يؤخذ , فإن هذا أولى أن يؤخذ به , مما خالفه" انتهى .
امام طحاوی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند حسن کا درجہ رکھتی ہےالخ

ثبت عن ابن مسعود رضي الله عنه أنه كان يكبر في الأولى أربعاً وفي الثانية أربعاً ، وورد عن غيره من الصحابة غير ذلك .
انظر : "مصنف ابن أبي شيبة" (2/78 – 81) .
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ پہلی رکعت میں چار اور دوسری رکعت میں بھی چار تکبیریں کہا کرتے تھے۔ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام سے بھی اس طرح کا قول مروی ہے ہے (۔مصنف ابن ابی شیبہ)

3)عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، " أَنَّهُ صَلَّى خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي الْعِيدِ ، فَكَبَّرَ أَرْبَعًا ، ثُمَّ قَرَأَ ، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ ، ثُمَّ قَامَ فِي الثَّانِيَةِ فَقَرَأَ ، ثُمَّ كَبَّرَ ثَلاثًا ، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ " . حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، مِثْلَهُ .(شرح معانی الآثار، رقم الحدیث، 4825

ترجمہ : حضرت عبدالله بن حارث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ کے پیچھے نماز پڑھی. حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ نے پہلے چار تکبیریں کہیں، پھر قرأت کی، پھر تکبیر کہہ کر رکوع کیا. پھر جب آپ دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوۓ تو پہلے قرأت کی پھر تین تکبیریں کہیں، پھر (چوتھی) تکبیر کہہ کر رکوع کیا۔

) عَنْ عَلْقَمَةَ ، وَالأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ : كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ جَالِسًا ، وَعِنْدَهُ حُذَيْفَةُ ، وَأَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ ، فَسَأَلَهُمَا سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ عَنِ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى ، فَجَعَلَ هَذَا يَقُولُ : سَلْ هَذَا ، وَهَذَا يَقُولُ : سَلْ هَذَا ، فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ : سَلْ هَذَا ، لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، فَسَأَلَهُ ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ " يُكَبِّرُ أَرْبَعًا ، ثُمَّ يَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْكَعُ ، ثُمَّ يَقُومُ فِي الثَّانِيَةِ فَيَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ أَرْبَعًا بَعْدَ الْقِرَاءَةِ " .
[مصنف عبد الرزاق » كتاب صلاة العيدين » بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْعِيدِرقم الحديث: 5528]

ترجمہ : علقمہ اور اسود بن یزید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالله بنِ مسعودؓ بیٹھے ہوۓ تھے، ان کے پاس حضرت حذیفہؓ اور حضرت ابو موسیٰؓ بھی بیٹھے ہوۓ تھے. تو ان سے حضرت سعید بن العاصؓ نے عید الفطر اور عید الأضحى کے متعلق سوال کیا، حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ نے کہا : ان (حضرت حذیفہؓ) سے پوچھو، پھر حضرت حذیفہؓ نے کہا : یہ مسئلہ حضرت عبدالله بنِ مسعودؓ سے پوچھو، چناچہ انہوں نے پوچھا تو حضرت ابنِ مسعودؓ نے فرمایا : نمازی چار تکبیریں (ایک تکبیرِ تحریمہ اور تین تکبیراتِ زائد کہے، پھر قرأت کرے، پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرے، دوسری رکعت میں تکبیر کہے، پھر قرأت کرے، پھر قرأت کے بعد چار تکبیریں کہے. (تین تکبیراتِ زائد اور ایک تکبیر رکوع کے لئے)
امام ہیثمی مجمع الزوائد، جلد ثانی، کتاب الصلاۃ، حدیث نمبر3247 یعنی اسی حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں
رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالہ موثقون
امام طبرانی نے اس حدیث کو معجم الکبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں ۔
امام ابن حجر عسقلانی الدرایہ فی تخریج احادیث الھدایہ میں اسی حدیث کے تحت فرماتے ہیں ۔
رواہ عبدالرزاق عن ابن مسود باسناد صحیح
اس حدیث کو امام عبد الرزاق نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے ۔

ان احادیث نے بالکل واضح کردیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رکعت میں چار مرتبہ تکبیر کہتے تھے پہلی رکعت میں مع تکبیر تحریمہ چار تکبیر یں اور دوسری میں مع تکبیر رکوع چار تکبیریں کہا کرتے تھے تھے جیساکہ محدثین نے اس کی وضاحت کی ہے ۔
بعض احادیث میں جو مروی ہے کہ پہلی رکعت میں پانچ اور دوسری میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی رکعت میں تکبیرِ رکوع اور تکبیرِ تحریمہ کو ملاکر پانچ تکبیریں اور دوسری رکعت میں تکبیر رکوع کو ملاکر چار تکبیریں کہا کرتے تھے۔لہذا کل ملاکر نو تکبیریں ہوئیں لیکن ہر رکعت میں زائد تکبیریں تین تین ہی رہی) یعنی چھہ زائد تکبیریں)
جیساکہ رسول اللہ کے ساتھ سفر و حضر میں رہنے والے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ: " فِي الأُولَى خَمْسَ تَكْبِيرَاتٍ بِتَكْبِيرَةِ الرَّكْعَةِ ، وَبِتَكْبِيرَةِ الاسْتِفْتَاحِ ، وَفِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى أَرْبَعَةٌ بِتَكْبِيرَةِ الرَّكْعَةِ " .
[ مصنف عبد الرزاق » كتاب صلاة العيدين » بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْعِيدِ , رقم الحديث: 5526

ترجمہ : حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نمازِ عید کی پہلی رکعت میں رکوع اور تحریمہ کی تکبیر کو ملاکر پانچ (٥) تکبیریں ہوتی ہیں اور دوسری رکعت میں رکوع والی تکبیر کو ملاکر چار (٤) تکبیریں بنتی ہیں.
[خلاصہ یہ کہ ہر رکعت میں زائد تکبیروں کی تعداد تین (٣) ہے]

دوسری حدیث کی تشریح میں جو ملا علی قاری کی توضیح گزری ہے اس سے بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں و ہویدہ ہوجاتی ہے۔

ان احادیث اور آثارِ صحابہ کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ (اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ) کی بھی یہی رائے ہے کہ عیدین میں چھہ(6) تکبیریں سنت ہیں جیساکہ امام محمدرضی اللہ عنہ نے بھی اس کی صراحت فرمائی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے ذہن میں اس عبارت(امام۔۔۔۔۔۔۔۔۔تکبیریں سنت ہیں) کو پڑھنے کے بعد یہ سوال آئے کہ انہوںنے تو تکبیراتِ عیدین کو سنت قرار دیا حالانکہ یہ واجب ہیں تو اس کا جواب بحسن و خوبی بایں طور دیا جاسکتا ہے کہ تکبیراتِ عیدین کے متعلق بہت ساری احادیث مروی ہیں بعض میں تکبیرات کی تعداد نو ہے، بعض میں سات سات، اور بعض میں چھہ ہے، ۔یہ ایسا اجتہادی مسئلہ ہے جس میں صحابہ کرام، تابعین عظام، اور ائمہ کرام کا دس سے زائد اقوال پر اختلاف ہے۔
چنانچہ علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ نے عیدین کی زائد تکبیرات کے بارے میں 19 اقوال ذکر کیے ہیں۔" انتہی
مشہور غیر مقلد عالم قاضی شوکانی کہتے ہیں
علمائے کرام کے نماز عید میں تکبیرات کہنے کی تعداد اور مقام کے تعین سے متعلق دس اقوال ہیں۔جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :
احناف اور امام احمد کی ایک روایت کے مطابق نماز عیدین میں چھ تکبیرات زائد ہیں، تین پہلی رکعت میں اور تین ہی دوسری رکعت میں، یہ موقف ابن مسعود، ابو موسی اشعری، حذیفہ بن یمان، عقبہ بن عامر، ابن زبیر، ابو مسعود بدری، حسن بصری، محمد بن سیرین، ثوری، علمائے کوفہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم جمیعاً کا ہے۔
شافعی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ : پہلی رکعت میں سات تکبیرات زائد ہیں اور دوسری میں پانچ تکبیرات زائد ہیں۔
اس طرح مختلف مکاتبِ فکر کے علما نے تکبیراتِ عیدین کے متعلق مختلف اقوال نقل کیے ہیں ۔
امام الائمہ فی الحدیث امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے چھہ تکبیرات کو راجح کیوں قرار دیا؟ اس کی متعدد وجوہ ہیں ۔
ا) یہ سنت متوترہ سے ثابت ہے۔
....یہ بے شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا مذہب رہا ہے
...۔یہ ایسے صحابہ کرام اور تابعین عظام کا مذہب رہا ہے کہ جو اپنے وقت کے محدث، فقیہ اور صوفی تھے۔
ذرا غور کیجیے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضور سرورِ کونین، عالمِ ماکان ومایکون صلی اللہ علیک وسلم کے ساتھ سفر و حضر میں روز و شب رہا کرتے تھے۔آپ سے زیادہ کس نے کونین کے والی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز عید پڑھاتے ہوئے دیکھا ہوگا؟جبکہ آپ کے اندر ایک دوسری خوبی یہ بھی تھی کہ آپ صف اول میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت انور کے پیچھے تشریف فرما رہتے تھے۔علاوہ ازیں حضرت عبد اللہ بن مسعود کا یہ فرمانا عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ: " فِي الأُولَى خَمْسَ تَكْبِيرَاتٍ بِتَكْبِيرَةِ الرَّكْعَةِ ، وَبِتَكْبِيرَةِ الاسْتِفْتَاحِ ، وَفِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى أَرْبَعَةٌ بِتَكْبِيرَةِ الرَّكْعَةِ " .
[ مصنف عبد الرزاق » كتاب صلاة العيدين » بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْعِيدِ , رقم الحديث: 5526

ترجمہ : حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نمازِ عید کی پہلی رکعت میں رکوع اور تحریمہ کی تکبیر کو ملاکر پانچ (٥) تکبیریں ہوتی ہیں اور دوسری رکعت میں رکوع والی تکبیر کو ملاکر چار (٤) تکبیریں بنتی ہیں.
[خلاصہ یہ کہ ہر رکعت میں زائد تکبیروں کی تعداد تین (٣) ہے]
اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل یہی رہا ہوگا ورنہ تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےدوسرے عمل کو ضرور اپنالیتے۔اور دوسرں کو بھی اسی کی تعلیم دیتے۔
دوسرےصحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ہیں کہ جن کا موقف بھی یہی رہا ہے ۔ان کا شمار بھی فقہا میں ہوتا ہے ۔لوگوں کوان پر اتنا اعتماد تھا کہ اپنے فیصلوں میں ان کو حکم بنایا کرتے تھے۔تو پھر کیوں نہ ہم ان کو اپنا حکم بنالیں ان مختلف احادیث میں سے کسی ایک حدیث کو اختیار کرنے میں ۔
ان کے علاوہ حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت حذیفہ بن یمان،حضرت عقبہ بن عامر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت ابو مسعود بدری، حضرت حسن بصری،امام محمد بن سیرین، امام سفیان ثوری اور بے شمارعلمائے کوفہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا بھی یہی موقف ہے۔
یہ تمام قرائن و شواہد اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ چھہ تکبیرات والے قول کو اختیار کرنے میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر زیادہ سے زیادہ عمل ہوجائے گا۔اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان وَسَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلاَفًا شَدِيدًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِا)(ابن ماجہ) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک "أصحابي كالنجـــوم بأيهم اقتديتم اهتديتم" پربھی بحسن و خوبی عمل ہوجائے گا۔
تکبیرات تو واجب ہی ہیں لیکن چونکہ نماز عید میں زائد چھہ تکبیرات والی روایت پر عمل کرنے میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ پیروی ہے اس لیے نماز عید میں زائد چھہ تکبیرات کے لیے لفظ سنت کا استعمال کرنا غلط نہ ہوگا۔
وہ احادیث جو بظاہر مذکورہ احادیث وآثار کے خلاف ہیں اگر کوئی ان پر عمل کرتا ہے تو ہمیں اس کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیئے کیونکہ اس قسم کے مسائل میں اختلاف کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ مخالف کے عمل کو مسترد کہنا مشکل ہوتا ہے؛ مسترد ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ یہ عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے؟! جبکہ صحابہ کرام کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ ان سے بڑھ کرمجتھد، اصحاب حدیث اور قابل اتباع کون ہوسکتا ہے؟

یہی وجہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ عیدین کی نماز میں زائد تکبیرات سے متعلق ہر اس عمل کو جائز قرار دیتے ہیں جو صحابہ کرام سے منقول ہے، چنانچہ امام احمد کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا عیدین کی زائد تکبیرات کے متعلق اختلاف ہے، اور سب پر عمل کرنا جائز ہے۔"
" الفروع " (3/201) واضح رہے کہ یہ امام احمد کا اپنا طریقہ ہے کہ وہ جس مسئلہ میں صحابہ کرام کے درمیان کثیر اختلاف دیکھتے ہیں اس مسئلے میں تمام تر روایتوں پر عمل کو جائز قرار دیتے ہیں ۔
لیکن امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک سنت اور افضل یہی ہے کہ دونوں رکعتوں میں تین تین زائد تکبیرات کہی جائیں ۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
مدنی التجا
اگر کوئی خامی نظر آئے تو اس کی اصلاح آپ ہی فرمالیں یا آگاہ فرمادیں۔

خاک ہوجائیں عدو جل کر مگر ہم تو رضا
دم میں جب تک دم ہے ذکر ان کا سناتے جائیں گے

نام : محمد اویس
سکونت. : مرادآباد
 

Moahd Uvais
About the Author: Moahd Uvais Read More Articles by Moahd Uvais: 5 Articles with 8936 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.