یارا سازندہ:ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

 ڈاکٹر غلام شبیررانا
اپنی طویل زندگی میں پیہم ایک سو دس برس تک معاشرتی زندگی کے متعدد نشیب و فراز،تضادات اور ارتعاشات کو قریب سے دیکھنے کے بعد جھنگ شہر کا ایک گم نام موسیقار مگر نیک نام خادمِ خلق یارا سازندہ تئیس جون 2017کی شام کو اچانک زینۂ ہستی سے اُتر کر یہاں سے بہت دُورعدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اُس کہنہ مشق اور مشاق سازندہ سے سارندہ چھین لیا جو تار چھیڑ کرموسیقی کی ہر محفل کو لُوٹ لیتا تھا۔ یارا سازندہ کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر خراباتِ آرزو پر غم و اندوہ کا بادل اس طرح ٹُوٹ کر برسا کہ اس کے ہر مداح کا دِل ٹُوٹ گیا اور صبرو تحمل کا دامن ہاتھ سے چُھوٹ گیا۔یارا سازندہ چُپکے سے ہماری بزمِ وفاسے اُٹھ کر راہِ رفتگاں پر چل نکلا مگر اس سانحہ پراہلِ شہر کا دِل بیٹھ گیا۔ پیرانہ سالی کے باوجود یارا سازندہ ہشاش بشاش دکھائی دیتا تھا اور اس کے چہرے پر نقاہت یا علالت کے کوئی آ ثار نہ تھے۔ ضعفِ پیری کے باعث اُس کی کمر میں معمولی ساخم تھا مگر وہ ہمیشہ گلی کوچوں میں چلتا پھرتا نظر آتا۔ گلے میں سلوکا پہنے کمر سے دھوتی باندھے اور سر پر صافہ لپیٹے جب وہ دکھائی دیتا تو گزشتہ صدی کی تاریخ کا ایک ورق سامنے آ جاتا۔صرف ایک روز قبل جب پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم نے بھارتی کرکٹ ٹیم کو شکست دے کر چیمپئین ٹرافی جیتی تو یارا سازندہ نے حب الوطنی اور فرط مسرت کے جذبات سے سرشار ہو کر اس قدر جوش اور ولولے سے ڈھول بجایا کہ سیکڑوں لوگ وہاں اکٹھے ہو گئے اور یہ منظر دیکھ کر سب لوگ اش اش کر اُٹھے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنے لگے۔گزشتہ شب اچانک ذہنی فالج کے شدید حملے کے باعث یارا سازندہ کا ساز ہستی ہمیشہ کے لیے ٹُوٹ گیا ۔ یارا سازندہ عوام میں خوشیاں بانٹنے والا ایک بے لوث اور مخلص کارندہ تھا۔ بر صغیر میں عہدِ اکبری میں یارا سازندہ کا پردادا سجاول سازندہ جو کر ناٹک میں مقیم معروف گلوکار تان سین کا ہم نوا اور معتبر نمائندہ تھا اُسے دہلی کے قصرِشاہی میں منعقد ہونے والی شادی بیاہ کی تقریبات میں ساز اور آواز کی جوہردکھانے کا موقع ملتا تھا۔یارا سازندہ کا باپ بہاول سازندہ جواپنے عہد کا مقبول گلوکار، ماہررقا ص اور مشاق ڈھولچی تھا سجاول سازندہ کا پڑپوتا اور اپنے زمانے کا ممتاز مو سیقار تھا۔بہاول سازندہ نے سال 1857میں اس عالم ِ آب و گِل میں پہلی بار آ نکھ کھولی اور سال 1960میں اس کی آ نکھیں مُند گئیں ۔بہاول سازندہ کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آ ئے مگر وہ سال 1907 ادھیڑ عمر میں اپنے گھر جنم لینے والے بیٹے یارا سازندہ کو ایک نیک شگون قرار دیتا تھا ۔یارا سازندہ کی پیدائش کے بعد بہاول سازندہ کے گھر تین سال کے مختصر عرصے میں دو اور بیٹے یکے بعد دیگرے پیدا ہوئے۔بہاول سازندہ نے اپنے تینوں بیٹوں کو اپنے آبائی فن موسیقی،رقص اور آلات موسیقی کے استعمال کاہنر خود سکھایا ۔یارا سازندہ نے راگ اور موسیقی کے جن آلات میں اپنی صلاحیت،محنت اور مہارت کا لوہا منوایا ان میں الغوزہ ،بِین، بانسری،بِگل،برقی گیٹار، پکھاوج،پیانو، پی پا، تنبورا، ترہی،خنجری، جل ترنگ، چمٹا، دف، دوتارہ،ڈُگڈگی ،ڈرم،ڈھول ،ڈھولک ، سارنگی،سنکھ،ستار،سرود ، سُر بہار،شہنائی، طبلہ، کرتال،کمانچی،گراموفون، گھنگرو، گھڑا، مُرلی، منجیرا ، وائلن، وینااور ہار مونیم شامل ہیں۔یہی آلاتِ موسیقی زندگی بھر ان سازندوں کا اوڑھنا بچھونا رہے۔
یارا سازندہ کی تعلیم واجبی سی تھی مگر دنیا کے تجربات و حوادث کی آنچ نے اُسے کندن بنا دیا تھا۔اُس سے مِل کر زندگی سے محبت کے جذبات کو نمو ملتی تھی۔اس کی مادری زبان پنجابی تھی اور اس نے زندگی بھر اسی شیریں زبان کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا۔وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ انسانی زندگی میں کئی ایسے سخت مقام بھی آ تے ہیں جب الفاظ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تقدیر کے جبر اور مشیت کے کرب نے لبِ اظہار پر تالے لگا دئیے ہیں۔ یاس و ہراس کے ایسے عالم میں انسان کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے،وہ گُم سُم بیٹھا تیل اور تیل کی دھار دیکھتا ہے مگر اُسے کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔ ان پُر آشوب حالات میں نہ تو کوئی اُمید بر آتی ہے اور نہ ہی اصلاح احوال کی کوئی موزوں صورت نظر آتی ہے ۔ایسے پُر ہول اور صبر آزماحالات میں موسیقی کے مدھرسریلے بول دِل کی نازک رگوں کو ٹوٹنے سے بچاتے ہیں ۔موسیقی کے یہ دل کش الاپ طلسمِ ہوش رُبا ثابت ہوتے ہیں اور ہجوم ِ غم و آلام میں دِل کو سنبھالنے کا ولولہ عطا کرتے ہیں۔بہاو ل سازندہ اپنے سب چیلوں کو یہ سمجھاتا تھا کہ جہاں اظہار و ابلاغ کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں وہاں سُر ،لے،تان اور آہنگ کی موجودگی جہانِ تازہ کی نوید سناتی ہے ۔موسیقی ایک ایسا معتبر لسانی ربط ہے جو اس کرۂ ارض کے تمام باشندوں کے فہم و ادراک پر انمٹ نقوش ثبت کرتا ہے۔ نسل در نسل سازندوں کے اس خاندان نے موسیقی کو سدا دِل و جگر ،کیف و مستی اور وجدان کے ایسے طوفان کا نام دیا جو مایوسیوں ،محرومیوں اورناکامیوں کے پیدا کردہ آلام کو بہا لے جاتا ہے ۔ان سازندوں کا خیا ل تھا کہ اپنی نو عیت کے اعتبار سے موسیقی بھی ایک ایسا ادب پارہ ہے جو اندیشۂ زوال سے قطعی نا آ شنا ہے ۔اس کے معجز نما اثر سے اس دور کی ظلمت میں ہوس ،افراتفری ،خود غرضی اور انتشار سے گلو خلاصی کی صورت پید اہو سکتی ہے ۔انھیں اس بات کا پختہ یقین تھا کہ معاشرتی زندگی میں امن ،اتحاد ،بے لوث محبت اور بے باک صداقت کا معدن مو سیقی ہی ہے ۔
آزادی سے قبل سجاول سازندہ اور بہاول سازندہ نے موسیقی اور فنون لطیفہ کے متعدد تربیتی اداروں میں اعزازی خدمات انجام دیں اور نئی نسل کو سُر ،تال اور گت کے اسرار و رموز کے بارے میں فکر پرور اور خیال افروز حقائق سے آ گاہ کیا ۔ اپنے عہد کے ان مقبول سازندوں کا خیا ل تھا کہ موج ِ حوادث کہ سامنے سینہ سپر ہونا عزم و ہمت کی دلیل ہے ۔مسائل ِ زیست سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ صبر و تحمل ، زندہ دلی،وسعت نظر اور شگفتہ مزاجی کو شعار بنایا جائے۔ان کی باتوں سے یہ تاثر ملتا تھا کہ انھوں نے رقص و موسیقی کو تہذیب و ثقافت کی ایسی علامت قرار دیاتھا جو دونوں ایک دوسرے کی نمو اور بقا کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ ان سازندوں کی متفقہ رائے تھی کہ دُھن، سُر ،لے ،آ ہنگ ،تال اور دھمال کا کمال یہ ہے کہ جب کسی مقام سے زندگی کے آثار عنقا ہونے کاخدشہ پیدا ہو جائے تواس کے باوجود موسیقی کی دل آ ویز دُھن طلوعِ صبحِ بہاراں کی ایسی نوید سناتی ہے جو قریۂ جاں کو معطر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتی ہے ۔نو آبادیاتی دور میں جب متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی کی پہلی خاتون رکن ڈاکٹر متھل لاکسمی ریڈی نے اپنے بر طانوی آقاؤں کی شہ پر رقص و سرود کے خلاف مہم شروع کی تو جن موسیقار گھرانوں نے اس مہم کی بھر پور مزاحمت کی ان میں جھنگ میں مقیم سازندوں کا یہ خاندان بھی شامل تھا۔معاشی زبوں حالی کے باوجود اس سازندہ خاندان نے اخلاقی دیوالیہ پن کی مظہر ہر قسم کی بد معاشی کے خاتمے کے لیے مقدور بھر جد و جہد کی ۔ شہر اور مضافات میں فنون لطیفہ اوررقص و موسیقی کے پر جوش حامی سجاول سازندہ اور بہاول سازندہ کے ہم نوا بن گئے اور ان سازندوں نے نو آبادیاتی دور کے عہدِ ستم میں جنگل کے قوانین کو ماننے اور بر طانوی استعمار کے مسلط کردہ فسطائی جبر کے سامنے سِپر انداز ہونے سے انکار کر دیا۔سال 1930کے بعد مسلسل دس سال تک ان سازندوں نے لُڈی، کتھک، دھریس،دھمال اوربھنگڑا میں اپنے کمالِ فن سے نہ صرف دیہی اور شہری علاقوں کے زندہ دِل ناظرین کو تفریح کے مواقع فراہم کیے بل کہ رقص و سرودکی مشرقی روایت کو بھی استحکام بخشا۔رقص کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایاجا سکتا ہے کہ نوجوان مرد، طوائفیں اورخواجہ سراسب اس کو اپنے لیے حصولِ رزق کا معقول وسیلہ سمجھنے لگے ۔اُسی زمانے میں سجاول سازندہ اور بہاول سازندہ نے اپنے ساتھیوں سمیت ممبئی ، گوالیار ، ڈھاکہ ،فتح پورسیکری ،مدراس،کرناٹک، پشاور، کراچی اور دہلی سمیت بر صغیر کے متعدد شہروں ،دیہات اور قصبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔تخلیقی اذہان کو فنون لطیفہ اور تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی سے متمتع کرنے میں سازندوں کے اس گھرانے کو لوک رقص اور موسیقی کے بنیاد گزار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔سال 1931میں نینی تال میں بہاول سازندہ ،یارا سازندہ اور ان کے ساتھیوں کے اس رقص پر سماں بندھ گیا۔
اساں لائیاں اکھیاں جل بھریاں
ایہناں بے قدراں نال لائیاں اکھیاں جل بھریاں
بدھیاں ڈھول دیاں اساں بنھ گڈھڑی سر چائیاں
اساں لائیاں اکھیاں جل بھریاں
ترجمہ:
پُر نم آ نکھوں سے ہم نے سہے عشق کے سب جھمیلے
تنہا چھوڑ کے کہاں گئے تم اے ساجن البیلے
تیرے ہجرکی گٹھڑی سر پہ اُٹھا کے دیکھے دنیا کے میلے
پُر نم آ نکھوں سے ہم نے سب صدمے سر پر جھیلے
ایہہ لسوڑا
راہے مینوں چھوڑ گیاایں
ہانویں کُوڑے دا کُوڑا
ترجمہ:
لسوڑے کا بُوٹا
رستے ہی میں چھوڑدیا
تُو نکلاجُھوٹے کاجُھوٹا
بہاول سازندہ اور اس کے ساتھی موسیقاروں ،گلوکاروں اور رقاصوں نے برطانوی استعمار کے خلاف مثبت عوامی شعور و آ گہی کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔ نو آبادیاتی دورکی مسلط کردہ جبر کی فضا میں بھی بہاول سازندہ اور یارا سازندہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ جانگسل تنہائیوں ،مہیب سناٹوں،اعصاب شکن پریشانیوں،لرزہ خیز مسائل، جان لیوا صدمات اور سکوتِ مرگ کے مظہرکھنڈرات میں بھی موسیقی کی گونج ایک طلسمی کلید کا درجہ رکھتی ہے جو درِ مقسوم پر لگے قفل کھولنے اور حقائق کی گرہ کشائی کاقرینہ سکھاتی ہے ۔اسی کے وسیلے سے بے خواب کواڑوں کے بند دروازوں پر نسیم ِسحر دستک دیتی ہے اور کٹھور دِلوں کے قفل بھی کُھل جاتے ہیں۔ان کا خیال تھا کہ موسیقی کی جذباتی،روحانی اور وجدانی کیفیات اس مسحور کُن انداز میں اس کے ساز ،آواز ،سُر ،تال ،راگ اورگت سے چھن کر نکلتی ہیں کہ سننے والے کے دم میں دم آتا ہے ۔موسیقی کی یہی ابد آ شنا کیفیات اس کا لائقِ صد رشک و تحسین امتیاز ہیں جسے سیلِ زماں کے تھپیڑوں سے کوئی خطرہ نہیں۔ تحریک پاکستان کے دوران بہاول سازندہ اور اس کے تربیت یافتہ مشاق رقاص ،گلوکار اورسازندے جلسوں ،جلوسوں اور ریلیوں میں شرکت کرتے جس سے لوگوں کے دلوں کو حریتِ فکر اور وطن کی آزادی کے بارے میں ایک تازہ ولولہ نصیب ہوتا تھا ۔تئیس مارچ 1940کو قدیم جھنگ شہر سے پُر جوش نو جوانوں کا ایک قافلہ آزادی کے حق میں نعرے لگاتا ہوا لاہور کے لیے روانہ ہوا۔ نوجوان طلبا کے اس قافلے میں امیر اختر بھٹی، محمد بخش، احمد یار ملک ، خادم مگھیانوی، کبیر انور ،محمد شیر افضل ،رفعت سلطان،اﷲ دتہ ،محمد وریام، اﷲ داد،محکم دین ،غلام علی چین ، کرم دین، مظہر علی ، خادم مگھیانوی ،رجب الدین مسافر،محمد موسیٰ ،شوکت حیات،سلطان محمود،شیر خان ، غلام فرید، مظفر علی ، محمدیوسف ، امیر خان ،صالح محمد،اسماعیل،منیر خان اور متعد د باہمت ،پر عزم اور آزادی کے متوالے نو جوان شامل تھے۔بس لاہور کے قریب شاہدرہ کے مقام پر مقبرہ جہاں گیر کے سامنے کھجور کے درختوں کے جُھنڈ کے پاس رُکی اور وہاں سے نوجوان ایک جلوس کی صورت میں منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک ) کی جانب ہنستے گاتے پیدل روانہ ہوئے ۔بہاول سازندہ اور یارا سازندہ ڈھول بجا رہے تھے اور ڈھول کی تھاپ پر جلوس کے شرکا اورسب را ہ گیر جھوم کر ناچ رہے تھے ۔ جلوس کے سب شرکا یہ فلک شگاف نعرہ لگا رہے تھے :
اب تو ایک ہی نعرہ ہے
آزادی حق ہمارا ہے
اس موقع پرجذبۂ آزادی سے سر شار لوگ عبدالغنی ظروف ساز کی بر جستہ پنجابی شاعری پر والہانہ انداز میں دھمال ڈالتے ہوئے جب یہ بول الاپتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ جبر کے ایوانوں پر لرزہ طار ی ہو گیاہے اور غاصب بر طانوی استعمار کے دِن گِنے جا چُکے ہیں ۔ اس تاریخی جلسے میں شامل ہونے والے ہر شخص کا یہی کہنا تھا کہ اب ظالم و سفاک غاصب برطانوی استعمار کا جانا ٹھہر گیا ہے ،اب یہ سامراجی نظام
صبح گیا کہ شام گیا ۔خاص طور پر اس جلوس میں شامل حریت ضمیر سے جینے والے آزادی کے پُر جوش متوالے جب بر طانوی استعمار کو مخاطب کر کے للکارتے اور لُڈی ،دھریس ،جھومر اور بھنگڑا ڈالتے ہوئے قدموں کی تھاپ پر زمین کی طرف اشارہ کر کے غیظ وغضب کے عالم میں یہ کہتے کہ استعماری نظام کے آلۂ کار استحصالی عناصر اپنا بستر گول کر کے اپنی راہ لیں اور مقامی باشندوں کے گلے سے غلامی کا طوق نکال کر انھیں مکمل آزادی اور خود مختاری کافرما ن دیں تو سب کو اس بات کا یقین ہو جاتا کہ عوامی اُمنگوں کے اِس بڑھتے ہوئے سیلِ رواں میں بہت جلد بر طانوی استعمار کا تمام کر وفر،قوت و ہیبت اور جاہ و جلال خس و خاشاک کے مانند بہہ جائے گا۔اُس زمانے میں آزادی کے متوالوں کی یہ دِلی تمناآج بھی دلوں کو مہر و وفا کا مر کز بنا دیتی ہے ۔
دور غلامی کٹ جاوے گا
ہر مظلوم ہُن ڈٹ جاوے گا
ظالما !جبر دا مزا تُوں چکھ
شالا تیرا رہوے نہ ککھ
فرمانِ آزادی ایتھے رکھ
پس نو آبادیاتی دور میں بہاول سازندہ اور یارا سازندہ نے اپنے آبائی شہر جھنگ میں مستقل ڈیرے ڈال دئیے۔یارا سازندہ کی موسیقی پارٹی کے ساتھ مِل کر کام کرنے والے کچھ خواجہ سرا بھی تھے ۔ معاشرتی زندگی میں یاراسازندہ کو سدا بہار خوشیوں کا بے لوث سفیر مانا جاتا تھا ۔اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ وہ جس انداز میں خوشی اور مسرت کے مواقع کا کھوج لگا لیتا تھا اس کا تعلق ما بعد الطبیعات یا پیرا سائیکالوجی سے تھا۔ادھر رات گئے شہر کے کسی گھر میں بیٹے کی پیدائش ہوئی اگلی صبح نماز فجر کے بعد یارا سازندہ اور اس کی رقص و موسیقی کی مشاق پارٹی بِن بلائے وہاں جا پہنچتی اور گلی میں سُر ،گیت اور دھمال سے خوشیوں کاسماں بندھ جاتا ۔خواجہ سرا صبوحی ،ظلو،پُونم اورروبی کی آواز میں ممتاز مغنیہ کوثر پروین کا گایا ہوا یہ مشہور گیت جب یارا سازندا اور اس کے ساتھیوں کی موسیقی میں سنائی دیتا تو بُوڑھے ، جوان، عورتیں ،مرد ،بچے اور بچیاں سب جی بھر کر داد دیتے اور وہاں موجود سب احباب ویلوں کی صورت میں رقاص پارٹی پر کر نسی نوٹ نچھاور کرتے ۔اس کے بعد یہ خواجہ سرا بلا تامل خوشیوں والے گھر میں داخل ہو جاتے اور زچہ کے ساتھ پنگھوڑے میں لیٹے ہوئے نو مولود بچے کو ہاتھوں میں اُٹھاکر لوری دیتے اور باہر گلی میں لاتے ۔اپنے نومولود کم سن بچے کو واپس لینے کے لیے بچے کے والدین کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے اور حرص و ہوس سے بے نیاز یارا سازندہ کو اپنی بساط کے مطابق انعام و اکرام دے کر رخصت کرتے ۔خوشی کے اس موقع پر گایا جانے والا یہ گیت آج بھی کانوں میں رس گھو لتا ہے :
راج دُلارے ،او !میری اکھیوں کے تارے
میں تو واری واری جاؤں
سارے جہان پر پھیلی ہے چاندنی
تیرے مُکھڑے کے آگے میلی ہے چاندنی
تاروں کا روپ تو پہلے ہی ماند ہے
چندا کو میں کیا جانوں تُو میرا چاند ہے
علاقے میں شادی ،بیاہ ،منگنی ،سال گرہ اور خوشی کی تمام تقریبات میں یارا سازندہ کی شرکت سے محفل کی رونق کو چار چاند لگ جاتے۔ معاشرے کے وہ افراد جو کم وسائل رکھنے کے باعث مشہور گلو کاروں ،موسیقاروں،رقاصوں اورفن کاروں کو اپنی خوشی کی تقریبات میں بُلانے کی استطاعت نہیں رکھتے، یارا سازندہ ان کے ہاں پہنچ جاتا اور بلا معاوضہ اپنی خدمات پیش کرتا ۔یارا سازندہ موسیقی سے والہانہ محبت کرتا تھا۔اس کا خیال تھا کہ فنون لطیفہ بالخصوص مو سیقی ایسا سر چشمہ ٔ آ ب ِ بقا ہے جو موجودہ زمانے میں دنیا کو خوف و دہشت ،ہوسِ زر اور سماجی برائیوں سے نجات دلانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔وہ اس بات پر اصرار کرتاتھا کہ یہ بات تو طے ہے کہ افراد کے ذہنوں کو بدلنے والی اہم قوت سُر اور لَے ہے تو پھر یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ حیات و کائنات کے تغیر و تبدل میں زندگی کے بے آواز ساز کے کلیدی کردار سے شپرانہ چشم پوشی ممکن ہی نہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے مایوسی ،اضمحلال ،پریشاں حالی اور درماندگی کی شبِ تاریک میں موسیقی ستارۂ سحر ثابت ہوتی ہے ۔وہ یہ بات بر ملا کہتا تھا کہ موسیقی کے بغیر اس کی اپنی زندگی ادھوری ہے ۔موسیقی کو وہ ایسا تیرِ نیم کش قرار دیتاتھاجس کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہو سکتا مگر اس کا حیران کُن پہلو یہ ہے کہ موسیقی کے تیر سے گھائل ہونے والے کے دِل سے کوئی ٹیس یا کسک بھی نہیں اُٹھتی اور نہ ہی کوئی خلش ہوتی ہے ۔یارا سازندہ واقعی قسمت کا دھنی تھا اس لیے ایسے مواقع پر خوشیوں میں شامل لوگ اُس کے کمالِ فن سے متاثر ہو کر دریا دلی کا مظاہرہ کرتے اوراس معمر سازندے کے مو سیقار، گلو کار اور رقاص ساتھیوں پر کر نسی نوٹ نچھاور کر کے ان کا خوب حوصلہ بڑھاتے تھے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ یارا سازندہ کسی بے یار و مدد گار خاندان کی خوشی کی تقریب میں شامل ہو کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا تو مداحوں کی طرف سے اسے جو رقم بہ طور انعام ملتی وہ اسی خاندان کے سر براہ کو دے دیتا۔ کھانے کے وقت غریب میزبا نوں کے شدید اصرار پر وہ اور اس کے ساتھی صر ف چند لقمے کھاتے اور دعا دے کر خاموشی سے اپنے گھر چلے آ تے۔ عجز و انکسار اور اخلاص و ایثار کی ایسی مثالیں اب شاز و نادر ہی ملتی ہیں۔ اگرچہ یارا سازندہ دولت کمانا خوب جانتا تھا مگر دولت خرچ کرنے کا بھی اس کا منفر د انداز تھا۔علاقے میں موجود نادار مریضوں،مفلس و قلاش لوگوں ،دردمندوں ،بے سہارا ضعیفوں، معذوروں ، بیواؤں ،یتیموں اور مسکینوں کی دست گیری زندگی بھر اس کا معمول رہا۔نیکی کے ایسے کام وہ اس راز داری سے کرتا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔نیکی کر اوردریا میں ڈال زندگی بھر اس کا شیوہ رہا۔
اس کے معاصر سازندو ں کی متفقہ رائے تھی کہ بِین بجانے میں یارا سازندہ کا کوئی ہم سر نہ تھا۔جب وہ بِین بجاتا تو گرو نواح کے سب زہریلے ناگ اور ناگنیں اپنے سوراخوں سے باہر نکل کر سر مستی اور وجد کے عالم میں جھومنے لگتے۔کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کئی نمک حرام مار ِ آستین بھی یارا سازندہ کی بِین کی مار نہ سہہہ سکتے اور بد مستی اور خرمستی کے باوجود در بہ در اور خاک بہ سر کُوڑے کے ہر عفونت زدہ ڈھیر سے مفادات کے استخواں نوچتے ،بھنبھوڑتے ،دُم ہلاتے اور دانت پِیستے پھرتے تھے۔بِین بجانے میں یارا سازندہ اپنے حلق کی پوری طاقت اور فنی مہارت استعمال کرتا تھا ۔ شہر میں ایک عرصہ تک یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ اگر یارا سازندہ بھینس کے آ گے بھی بِین بجائے تو بھینس اپنے سینگ جھکا کر ،سر بڑھا کر اور گردن ہلا کر داد دیتی ہے لیکن جب بِین کی آواز کر خت ہونے لگتی ہے تو بھینس دُم جھٹک کر بے وقت کی راگنی اور بے داد کے خلاف فریاد کرتی ہے ۔ یارا سازندہ کے عزیز و اقارب کے بھیس میں کئی عقرب،سانپ تلے کے بچھو،مشکوک نسب کے سفہا،اجلا ف و ارذال اور کینہ پرور حاسد بھی گھس گئے تھے ۔یارا سازندہ سادیت پسندی کے مہلک مرض میں مبتلا ان درندوں کے قبیح کردارسے آ گا ہ تھا۔ وہ یہ بات اچھی طر ح جا نتا تھا کہ اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ الاپنے والے یہ خسیس سنگِ ملامت ہاتھوں میں لیے مجبور اور بے بس انسانیت کے در پئے آ زار ہیں ۔ جہاں کہیں بھی کچھ نا ہنجار مُوذیوں میں کھٹ پٹ کی صور ت پیدا ہوتی یارا سازندہ جھٹ پٹ اپنے بچنے کی فکر کرتا۔وہ ان سفلہ مُوذیوں کی ایذا رسانی کے باجود نہایت صبر و تحمل سے کٹھن حالات کا سامنا کرتا اور خندہ پیشانی سے ان ذہنی مریضوں کے تیر ِ ستم سہتا مگر کبھی دِل بُرا نہ کرتا۔ دکھی انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا مطمح نظر بنانے والے اس فن کار کی زندگی شمع کے مانندگزری ۔ یارا سازندہ کا ایک ہی پیغام تھا وہ یہ کہ دُکھی انسانیت کو محبت ،مسرت اور راحت کا پیغام دیا جائے ۔اپنے آنسو سدا ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپا کر جس جرأت و استقامت سے اُس نے زندگی بسر کی وہ اس کی مستحکم شخصیت کا ثبوت ہے ۔موسیقی کی محفلوں میں وہ کم آمیز تھا اور احباب کی مفصل گفتگو سننے کے بعدنہایت مختصر سا جواب دیتاتھا ۔انسان شناسی کے حوالے سے وہ کم گوئی کو موسمِ برسات کی بوندا باندی کے مانند سمجھتا تھاجب کہ اس کے خیال میں بسیار گوئی کی مثال سیلاب کی طغیانیوں اور مہیب لہروں کی سی ہے جو احساس و شعور اور فہم و ادراک کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ وہ گیت گاتا مگر غیبت ،دروغ گوئی ،الزام تراشی اور ہجویات سے اسے شدید نفرت تھی۔وہ اس بات پر ہمیشہ زور دیتا کہ کردار کشی ،بہتان طرازی اور الزام تراشی کی طغیانیاں کسی صورت میں حق وصداقت اور حریت فکر و عمل کی ناؤ کو غرقاب نہیں کر سکتیں۔اپنے قریبی احباب اور شاگرد سازندوں کو وہ ہمیشہ یہی مشورہ دیتا کہ بے یقینی اور خوف و ہراس کے اُمڈتے ہوئے طوفانوں کو روکنے کے لیے صبر و تحمل اور عزم و ہمت کے مضبوط بند باندھنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
گزشتہ صدی کے پانچویں عشرے کے آغاز میں یارا سازندا فن کی بلندیوں پر پہنچ چکا تھا۔ اس نے ملک کاکوناکوناچھان مارا تھا اور دیہاتی زندگی کے جملہ نشیب و فراز اس کے سامنے تھے۔وہ اس بات پر اکثر دل گرفتہ رہتا کہ دیہاتوں میں مقیم لوگوں کو عملی زندگی میں تفریح کے مواقع بہت کم میسر ہیں ۔ محنت مشقت کرنے والے دہقانوں کی زندگی کے اوقات اس قدر تلخ اور کٹھن ہیں کہ وہ راحت ،مسرت اور شادمانی کے چند لمحات کے لیے ترس جاتے ہیں۔ وہ اس بات پر شدید کرب کا اظہار کرتا کہ بعض دیہاتوں کی زندگی آج بھی پتھر کے زمانے کے ماحول کی آ ئینہ دار ہے ۔پس ماندہ دیہاتوں کے مکینوں کے سینوں میں حوصلے،مسرت اور اُمید کی شمع فروزاں کرنے کے لیے اس نے وطن عزیز کے دیہی علاقوں کا انتخاب کیا ۔یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں میں منعقد ہونے والے سالانہ میلے ٹھیلے اُس کی توجہ کا مرکز تھے۔وہ اکثرپاکستان کے دُور دراز علاقوں کے دیہاتی میلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ۔ اُسے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ پاکستان کے دُور افتادہ دیہی علاقوں کے اکثر مکین آج بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی کے دِن پورے کر رہے ہیں۔زیریں اور زیریں متوسط طبقے کے لوگوں میں یارا سازندہ بہت مقبول تھا ۔ سال 1986کے وسط میں اس نے اپنے ساتھیوں،کرموں، نادر ،بہادر ،نورا ،منظور،رنگو،آ صفا اور زاہدو کے اشتراک سے’’فرہاد تھیٹرز‘‘کے نام سے اپنی ایک تھیٹریکل کمپنی بنائی۔فرہاد تھیٹرز کے زیر اہتمام تفریحی مقصد کے لیے کئی لوک داستانوں کی پنجابی زبان میں ڈرامائی تشکیل کی گئی اور انھیں دیہی علاقوں میں سرِ عام سٹیج پر پیش کیا گیا۔ان سٹیج ڈراموں میں خواتین کاکردار ادا کرنے کے لیے مشاق خواجہ سرا تلاش کیے گئے۔ان تھیٹرز میں جو خواجہ سرا رقص ،گیت اور کردار نگاری میں پیش پیش تھے ان میں ظلو،صبوحی ،ثباتی،شعاع،فوذی،پُونم اوررُوبی کا نام شامل تھا اور ان کے کام کو بے حد سراہا گیا۔ گزشتہ صدی کے اختتام تک فرہاد تھیٹرز نے اپنی کار کر دگی سے دلوں کو مسخر کیے رکھا ۔اس عرصے جن لوک داستانوں کو سٹیج پر پیش کیا گیا ان میں شیریں فرہاد، ہیر رانجھا،سسی پنوں ،سوہنی مہینوال،انار کلی،لیلیٰ مجنوں،عمر ماروی، وینس کا تاجر ،راول جگنی، اِندر سبھا ،سکندر اعظم ،رابن ہڈ اور ہڈسن کا انجام ،رومیو جولیٹ اورشانتی نابونے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دئیے۔حیران کن بات یہ تھی کہ فرہاد تھیٹرز نے پہلی بار شیکسپیر کے انگریزی ڈراموں کو پنجابی زبان کے قالب میں ڈھالااور تمام کرداروں کو پنجابی تہذیب و ثقافت کے رنگ میں اس مہارت سے سمو دیا کہ ناظرین حیرت زدہ رہ گئے۔ تراجم کے سلسلے میں یارا سازندہ کے ساتھ فضیلت بی بی اور احمد یار ملک نے بھر پور تعاون کیا ۔یہ تھیٹر در اصل واجد علی شاہ کے دور کے رہس کی طرز پر کام کرتا تھا ۔اس میں کہنہ مشق اداکار مختلف جانوروں کے ماسک اپنے چہرے پر چڑھا کر مکالمے ادا کرتے تو دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ۔اداکار جن جانوروں کے ماسک اپنے چہرے پر چڑھا تے تھے ان میں شیر،چیتا، بھیڑیا،ہاتھی ،لنگور ،گیدڑ،جنگلی سور،لومڑی،مگر مچھ ،سانپ اور بِجو شامل ہیں۔بعض اوقات کئی مافوق الفطرت عناصر کے ماسک چڑھا کر اداکار سامنے آتے اور اپنے بر جستہ مکالمات سے ناظرین کے فکر و خیال کو مہمیز کرتے تھے۔جن مافوق الفطرت عناسر کے کردار ناظرین میں بہت مقبول ہوئے ان میں جِن ،بُھوت،پری، ،چڑیلیں ،آدم خور ،آ سیب،پچھل پیری اور ہیولے قابلِ ذکر ہیں۔عینک اور انگوٹھی والے بھوت کے کردار بچوں کو بہت پسند تھے۔مختلف آوازیں اپنے منھ سے نکالنے میں یارا سازندہ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا ۔وہ انسانوں اور حیوانوں کی آوازیں نکالنے میں یکساں مہارت رکھتا تھا۔ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے وابستہ معروف شخصیات کی آوازیں اسے ازبر تھیں۔وہ جب انور بہزاد،شکیل احمد ،اشفاق احمد،نظام دین ،قائم دین اور حبیب جالب کے لہجے میں بو لتا تو سُننے والے سر دُھننے لگتے۔جہاں تک موسیقی کا تعلق ہے ،اس کا اپنا ایک خاص رنگ تھا وہ کسی کی نقالی نہیں کرتا تھا۔
فرہاد تھیٹر ز ایک فقیرانہ نوعیت کی تفریح تھی جس کا کوئی ٹکٹ نہ تھا بل کہ اس سے وابستہ اداکار بر ملا کہتے تھے سب تماشائیوں کے لیے صلائے عام ہے ۔پنجاب کے دیہی علاقوں میں گندم کی کٹائی کے بعد دہقان ،محنت کش اور ہاری قدرے پُرسکون ہو کر تفریح کے لیے میلوں میں شرکت کرتے ہیں۔ دیہاتوں کے اکثر میلے درباروں اور مزاروں پر عرس کے موقع پر لگتے ہیں جہاں میلے میں شرکت کرنے والوں کے لیے پینے کے پانی کے لیے نلکے لگائے جاتے ہیں اور قیام کے لیے سیکڑوں سایہ دار اشجار موجود ہوتے ہیں ۔میلے کے مقام پر کُھلے میدان میں عارضی بازار سج جاتے ہیں جہاں دکانوں پر مٹھائیاں ،کریانہ، پکوڑے،منیاری کا سامان،کسانوں کے پسندیدہ زرعی آلات اور بچوں کے کھلونے شہر سے دو گنا نر خوں پر دستیاب ہوتے ہیں۔ ان دیہاتی میلوں ٹھیلوں میں دیہاتوں میں مقیم کم آ مدنی والے با شندوں کا پسندیدہ پھل تربوز بہت فروخت ہوتاہے ۔ جسے دیکھو سُرخ رنگ کے گودے والے تربوز کی تلاش میں سر گرداں دکھائی دیتا ہے۔تربوز فروخت کرنے والے بیوپاری بھی دیہاتیوں کی نفسیات کو خوب سمجھتے ہیں ۔اسی لیے وہ کوئی ایک تربوز تربوز کاٹ کرسامنے اپنی ریڑھی پر رکھ دیتے ہیں اور گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنے گاہکوں کو متوجہ کرتے ہیں:
’’آ جاؤ! رتا لال تربوز ، ایہہ تربوزشہد جیسا میٹھا تے رتا لال اے۔قدرت دا کمال اے بھئی تربوز رتا لال اے۔اودھر نہ جاناں اوہ تربوز تے چٹے سفید نکلدے نیں۔‘‘
یارا سازندہ بھی تربوز کا دلدادہ تھا اور وہ موسم گرما میں اکثر اسی پھل سے اپنے مہمانوں کی تواضع کرتا تھا۔ د و پہر کے وقت میلے میں شرکت کرنے والے بیش تر لوگ تربوز کو دو برابر حصوں (کھوپے )میں کاٹنے کے بعد اس کا گودا کھا لیتے ہیں اورتربوز کا سرخ رنگ کا میٹھا پانی پی لیتے ہیں۔ تربوز کے دونوں کھوپے اپنے ہاتھوں میں تھام کر میلے کے شرکا دو پہرکے وقت لنگر خانے کا رخ کرتے ہیں۔لنگر خانے میں دال ،گوشت اور سبزی پکتی ہے اور ساتھ ہی تنوروں پر گاؤں کے نان بائی (ماچھی) روٹیاں پکاتے ہیں۔میلے کے پر جوش اور قناعت پسند شرکا تربوز کے ایک کھوپے میں گرما گرم دال گوشت بھرا لیتے ہیں،گرم تنوری روٹی صافے میں لپیٹ لیتے ہیں اور تربوز کے دوسرے کھوپے میں تازہ پانی بھر کر وافر مقدار میں مفت ملنے والایہ کھابا بڑے شوق سے جی بھر کر کھاتے ہیں،لنگر پکا کر با نٹنے والوں کے گُن گاتے اور اپنے رازق کا شکر ادا کرتے ۔دوپہر کے اس لذیذ طعام سے فارغ ہو کر میلے کے شائقین کھیل کے میدان کا رخ کرتے اور وہاں گُھڑدوڑ،رسہ کشی ، بیلوں کی دوڑ ،مرغوں کی لڑائی ،کبڈی ،پہلوانی اور کلائی پکڑنے کے مقابلے بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ میلے کے شرکا اسی انداز میں شام کا کھانا بھی لنگر خانے سے کھاتے ہیں اور عشا کی نماز کے بعدموت کے کنویں ،سرکس،تھیٹر اوررہس سے دِل بہلاتے ہیں۔فرہاد تھیٹر ز میں سب اداکار ایک بلند ٹیلے پر جمع ہو جاتے اور اس ٹیلے کے سامنے تماشائی فرشِ زمین پر اپنی اپنی چادریں بچھا کر بیٹھ جاتے ۔ جب اداکار ،گلوکار،موسیقار، سوانگ رچانے والے ،مسخرے ،نقال،جگت باز ،بہروپیے اور رقاص اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تو شوقین مزاج تماشائی کُھل کر داد دیتے اورویلوں کی صورت میں اپنے پسندیدہ فن کار پر کرنسی نوٹ نچھاور کرتے تھے ۔زندگی کی نا ہمواریوں ،بے اعتدالیوں اور تضادات کے بارے میں ہمدردانہ شعور کواجاگر کرنے کے لیے رہس کے اداکارپھبتی،ضلع جگت،نقالی اور وگتی کو نہایت سلیقے سے فن کارانہ انداز میں پیش کرتے۔یارا سازندہ اس بات پر توجہ دیتا کہ کسی صورت میں بھی پھکڑ پن ، بھونڈے پن اور ابتذال کی صورت پیدا نہ ہو ۔
فرہاد تھیٹر ز کو یارا سازندہ کی ایک بے لوث عوامی خدمت اور بلا قیمت تفریح سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اسی تھیٹر میں یارا سازندہ چارپائیاں کھڑی کر کے ،ان پر چادر تان کر ان کے پیچھے چھپ کر پُتلی تماشا بھی دکھاتا ۔جب وہ کٹھ پُتلیوں کی ڈوری کھینچ کر انھیں اچھلتا کُودتا اور نا چتا اورگاتا ہوادکھاتاتوسب ناظرین پتلیوں کا یہ تماشا دیکھ کر یارا سازندہ کے فن کے معترف ہو جاتے ۔ کٹھ پتلیوں کے اس تماشے میں سب آوازیں یار سازندہ خود نکالتا تھا ۔یارا سازندہ اور اس کے ہم نوا صحرا میں ایک بلندٹیلے پر کھڑے ہو کر بلند آواز میں جب ابیات باہوؒ، سیف الملوک،کلام شاہ حسین، کلام بلھے شاہ ، پنجابی کا فیاں ،عارفانہ کلام ،ہیر وارث شاہ، دوہڑے اور ماہیے سناتے تو ہر طر ف سناٹا چھا جاتا تھا۔ معاشرتی زندگی کے تلخ حقائق کی اساس پر استوار یہ ڈرامے محدود وسائل کے باوجود اس قدر محنت اور مہارت سے پیش کیے جاتے کہ تماشائی ان سے گہرے اثرات قبول کرتے تھے۔فرہاد تھیٹر دیکھنے والے یوں محسوس کرتے کہ بلند ٹیلے پر کھڑے ہو کرمختلف کردار نبھانے والے اداکار جو مکالمات ادا کر رہے ہیں وہ ان کی ذاتی زندگی اور معاشرتی حالات کی سچی ترجمانی ہے۔قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آ فرینی سے لبریز ان ڈراموں کے مکالمات تماشائیوں کے دِل و دماغ پر دُور رس اثرات مرتب کرتے ۔ یارا سازندہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ دیہی علاقوں کے لوگوں کی بے کیف زندگی میں رنگ بھرنے کے لیے وہ کھیل ،تماشے،گیت ،رقص اور مو سیقی کا سہار الیتا ہے۔فطرت کے مقاصد کی ترجمانی اس کا اولین فرض ہے وہ جانتا ہے کہ دیہاتی لوگوں کو تفریح کے بہت کم مواقع میسر ہیں۔سادہ لوح دیہاتیوں کو ہنسی ،مذاق اورتفریح کی احتیاج ہے ،اسی لیے وہ ان کے لیے تفریح کے نِت نئے مواقع تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کئی بار یارا سازندہ نے اپنے عوامی تھیٹر میں اپنے معاصر فن کاروں کو بھی دعوت دی ۔اس قسم کی دعوت ِ شیراز میں استاد جمن،خمیسو خان،سائیں اختر حسین،فیض محمد بلوچ،اسلم کو لسری،استاد گامن،چراغ مو لائی، پٹھانے خان اور طفیل نیازی جیسے ممتاز فن کاروں نے شرکت کر کے دیہی علاقوں کے باشندوں کی خوشیوں کو دو بالا کیا۔ایک میلے میں جب فرہاد تھیٹر ز میں یارا سازندہ کے تربیت یافتہ ڈھول بجانے والے ایک خواجہ سرا ثباتو نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تومیلے کے سب تماشائی دنگ ر ہ گئے اور سب نے اس امر پر اتفاق کیا کہ ڈھول بجانے میں جس بلند معیار تک اس خواجہ سرا نے رسائی حاصل کی ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔موسیقی کے ایک گم نام نقاد رُلدو موہانہ نے کہا کہ اس خواجہ سرا نے ڈھول بجا کر شہرت حاصل کرنے والی امریکی شہری کیرن کا ر پینٹر (Karen Carpenter) کو بھی پیچھے چھوڑ دیاہے ۔
سال 2017 میں جنوری کے مہینے کے آ غاز میں یارا سازندہ سے شادی کی ایک تقریب میں ملاقات ہوئی ۔وہ بہت جوش و جذبے کے ساتھ شادی کے نغمات سنا رہا تھا ۔اس موقع پر اس نے ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہا :
’’میں زندگی بھر سُر اور لَے کی فکر میں سر کھپاتا رہا اور ہوس ِ زر سے اپنا دامن بچاتا رہا ۔میرے کئی معاصر اور ہم عمر ساتھی مال و دولتِ دنیا ،رشتہ و پیوند ،املاک ،زر و جواہر کی جستجو میں خجل ہوتے رہے ۔ان لوگوں میں سے اکثر نے پُرتعیش زندگی بسر کی مگر دُکھی انسانیت کا دِل نہ جیت سکے ۔ میں اس قسم کے حریص اور خسیس لوگوں سے کہیں بڑھ کرخوش قسمت اور تونگر ہوں کہ لوگوں نے مجھ پر بے لوث محبت ،خلوص اور مروّت کے سدا بہار پُھول نچھاور کیے ۔موسیقی نے مجھے وادیٔ خیال کی سیر کرنے پر مائل کیا اور خوابوں کی خیاباں سازیوں کا قائل کیا۔ مجھے دکھی انسانیت میں خوشیاں بانٹ کر جو سکون قلب ملا ہے وقت کے قارون اور فراعنہ اس متاعِ بے بہاسے نا آشنا ہیں۔‘‘
یارا سازندہ کی زندگی کے کئی رُوپ تھے مگر انسانیت کے بے لوث خادم کی حیثیت سے اس کی ایک الگ پہچان تھی۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دکھی انسانیت کا درد و غم اس کے قلب حزیں میں رچ بس گیا تھا ۔ جھنگ کا قدیم اور تاریخی شہر دریائے چناب کے کنارے واقع ہے ۔حسن و رومان کی کئی داستانوں کے امین اس دریا کی طغیانیاں تاریخ کا دردناک باب ہیں ۔ جھنگ شہر کے مکینوں کودریا ئے چناب کے سیلاب کے عذاب سے بچانے کی خاطر مقامی انتظامیہ نے تیس کلو میٹر لمبا ،ساٹھ فٹ اونچا اورپچاس فٹ چوڑا مٹی کا ایک مضبوط بند تعمیر کر رکھا ہے ۔سال 1973میں شہر کے گرد تعمیر کیا گیا سیلاب کا یہ حفاظتی بند دریائے چناب کی طوفانی لہروں کے دس فٹ اونچے ریلے میں بہہ گیا۔نشیبی دیہاتوں ،بستیوں اور کچی آبادیوں میں پانی کی سطح دس فٹ بلند تھی۔مصیبت کی اس گھڑی میں یارا سازندہ اور اس کے ساتھی سیلاب میں گھرے لوگوں کی جان بچانے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔یارا سازندہ نے کرموں معمار سے لکڑی کے آ ٹھ تختے مستعار لیے۔ ان تختوں کوایک موٹے رسے کی مدد سے مضبوط بانسوں سے باندھااور ایک کشتی بنا کر چپو سے چلا کر دریائی علاقوں میں جا پہنچا جہاں لوگ جان بچانے کی فکر میں تھے۔اس نے ثابت کر دیا کہ یہ کشتی نہیں بل کہ کشتی کا کھیون ہارا ہوتا ہے جو سیلاب کے وقت دریا کی طوفانی لہروں سے ٹکر ا کر مصیبت زدہ مسافروں کو ساحل ِ عافیت پر پہنچانے کا قصد کرتا ہے ۔اپنی تیار کی ہوئی کشتی کو دریا کی مہیب طوفانی لہروں میں تیرنے کے لیے چھوڑ کر وہ اور اس کے اس کے وفادار ساتھی یہ گیت گا رہے تھے:
بیڑی دِتی ٹھیل اوئے ،محبتاں دا کھیل اوئے
رب نے کرایا ساڈا پتناں تے میل اوئے
انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کے طوفانی ریلے میں پھنسے دیہاتیوں کو پناہ گزینوں کے کیمپ تک پہنچانے کا یہ کام یارا زسازندہ نے مسلسل چھے روز جاری رکھا۔یہاں تک کہ سیلاب کا زور ٹُوٹ گیا اور لوگ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد اپنے تباہ شدہ کچے گھروندوں کے ملبے پر بیٹھے اپنے غیر یقینی مستقبل کے بارے میں سوچنے لگے۔ ارضی و سماوی آفات میں گھرے لوگوں کی مدد کرنے میں یارا سازندہ اور اس کے ساتھی ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ دریائے چناب کے اس قیامت خیز سیلاب کے بعد بھی یارا سازندہ نے اپنے محدود وسائل کے مطابق سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے متوازن غذا اور پینے کے صاف پانی کا انتظام بھی کیا ۔ یارا سازندہ نے اپنی زندگی میں انسانیت کی بے لوث خدمت کی جو مثالیں پیش کیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
ہر میلے میں یارا سازندہ کے تربیت یافتہ با صلاحیت فن کار اپنی فنی مہارت سے لوگوں کے دِل جِیت لیتے ۔ساری رات میلے میں موسیقی ،ڈرامہ ،رقص اور سُریلے بول سُن کر تماشائی جھوم اُٹھتے۔ میلے میں صبح صادق سے کچھ پہلے فرہاد تھیٹرز کے شو کا اختتام یارا ساز ندہ کے اس دبنگ اعلان سے ہوتا :
لے او یار حوالے رب دے میلے چار دِناں دے
اُس دِن عید مبار ک ہوسیں جِس دِن فیر مِلاں گے
حیف صد حیف یارا سازندہ سے اب کبھی ملاقات نہ ہو سکے گی۔ہر سال عید منائی جاتی رہے گی مگر دائمی مفارقت دینے والے احباب سے ملاقات کبھی نہ ہو سکے گی ۔یارا سازندہ نے ہم سے بہت دُور اپنی ایک الگ بستی بسا لی ہے ۔اس کے ساتھ ہی اس کے آلاتِ موسیقی ،گت، رقص،سُر اور تان کے سبھی سلسلے بھی پیوندِ خاک ہو گئے ۔ اس دنیا کے آ ئینہ خانے میں زندگی بھر دیہاتی میلوں میں ایک ٹیلے پر کھڑا ہو کر ایک شانِ استغنا سے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والا سازندہ فقیرانہ آیا اور صدا کرکے چپکے سے رخصت ہو گیا ۔اس بھری دنیا کا پر ہنگام اور پُر رونق میلہ بھی بہت کم وقت کے لیے لگتا ہے۔اس دنیا کے میلے میں ہنستے مسکراتے اور قہقہے لگاتے ہوئے دِن تو گزر جاتا ہے مگر کسے معلوم کہ شبِ تاریک جو سر پر کھڑی ہے اس کے دامن میں اجل کی دی ہوئی لمبی جدائی کی گھڑی ہے جو کسی صورت بھی ٹل نہیں سکتی۔شام کی تاریکی بھی مقدر کی سیاہی کے مانند بڑھنے لگی تھی ۔نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد یارا سازندہ کی میّت جھنگ کے ایک ہزار سا ل قدیم شہر ِ خموشاں کر بلا حیدری پہنچائی گئی۔ یارا سازندہ کی میّت کے سر ہانے کھڑے اس کے
سب پس ماندگان ،عزیزاور مداح دِ ل گرفتہ تھے اور اس خادم ِخلق کے حضور آنسوؤں ،آ ہوں اور سسکیوں کا نذرانہ پیش کر ر ہے تھے۔ لحد تیار تھی فنون لطیفہ کے اس آ سمان کو کر بلا حیدری کی زمین نے ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا ۔دُور کہیں سے یارا سازندہ کی پُر سوز آواز کی با زگشت سُن کر سب لوگ دم بہ خو د رہ گئے:
یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 679973 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.