سیلف پروجیکشن ……

نہ کر ذکرِ فراق و آشنائی
کہ اصل زندگی ہے خودنمائی
گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک غریب ، یتیم بچی کی طرف سے کسی خیراتی ادارے کو ’’جاری شدہ‘‘ خط گردش کرتا رہا جس میں اس نے درخواست کی کہ ’’وہ امداد دیتے ہوئے اس کی تصویر نہ کھینچا کریں کیونکہ جب تصویر عام ہوتی ہے تو اس کی غربت کا مذاق اڑتا ہے ۔ بچی کی جانب سے اس دکھ کا اظہار کیا گیا کہ جب سے امدادی سامان وصول کرتے ہوئے اس کی تصویر اخبار میں چھپی ہے ، محلہ کے لوگ اسے بھکاری کہنے اور حقارت کی نظر سے دیکھنے لگ گئے ہیں ۔ اس نے اپنے خط کے ذریعے خیراتی اداروں سے یہ اپیل بھی کی کہ کسی غریب کی مدد کریں تو کہیں پر اس کی تشہیر نہ کیا کریں کیونکہ بعد میں اْسے جس پشیمانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ ’’مدد‘‘ کرنے والے کو نہیں ہوسکتا ۔ اس نے پیغام دیا کہ خیرات کریں ، غریبوں کا مذاق مت اڑائیں ‘‘۔

میں آج اسی معصوم بچی سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں جو خیراتی اداروں کو تشہیر سے روک کر انہیں اپنی موت آپ مارنا چاہتی ہے ۔

پیاری کنزہ! جان لو کہ اگر خیراتی ادارے اپنے ’’کارناموں‘‘ کا واویلا نہیں مچائیں گے تو ان کے پیسے پورے نہیں ہوتے ۔ یہ ادارے عطیات ہی اپنی خدمات گنوا کر سمیٹتے ہیں …… میری بچی ! ہمیں معاف کردینا ، تمہارا یہ مطالبہ بے جا ہے ، ہم تمہارا بھرم نہیں رکھ سکتے …… تصاویر کھینچنا اور انہیں میڈیا پر نشر کروانا خیراتی اداروں کی ’’مجبوری‘‘ ہے ۔ یہ فوٹو سیشن نہیں کریں گے تو ڈونیشن کے ’’حقدار‘‘ کیسے بنیں گے؟ …… انہیں عطیات نہیں ملیں گے تو تمہارے جیسے خاندانوں کی مدد کیلئے وسائل کہاں سے حاصل کریں گے ؟

میری بچی ! ہماری این جی اوز قائم ہی اسی دکھاوے کی بنیاد پر ہیں …… انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ تمہاری سفید پوشی کا بھرم رہتا ہے یا عزت نفس مجروح ہوتی ہے …… ان کا کلچر ہے کہ ایک 500 کا نوٹ یا آٹے کا تھیلا بھی کسی غریب کو دینا ہو تو اپنے کئی کئی رکنی وفد کے ہمراہ اسے بھی کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کرنا ہے …… تاکہ سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی زینت بنا کر داد تحسین وصول کی جاسکے ، اس کی بنیاد پر اپنی تشہیری مہمات چلا سکیں ، غرباء اور مساکین کے ہمدرد ظاہر ہوسکیں …… یہ فوٹو سیشن اور تشاہیری ’’حربے‘‘ ہی تو ان کے پاس ’’کُل ثبوت‘‘ ہوتے ہیں ، جسے دکھا کر خیراتی ادارے ہر سال زکوۃ و عطیات وصول کرتے ہیں ، وگرنہ وہ کچھ ’’مانگنے‘‘ کے قابل نہیں ہوتے …… تم یوں سمجھو کہ یہ خودنمائی ہماری زندگیوں کا لازمی جزو بن چکی ہیں …… تو پھر این جی اوز تمہاری درخواست پر کیوں غور کریں بھلا ؟ …… تم آخر کیوں ان کا ’’کاروبار‘‘ تباہ کرنا چاہتی ہو کنزہ ؟

یہ دکھاوا نہ ہوتا تو آج کئی خاندانوں کی زندگیاں پُرسکون ہوتیں ۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر بہتر سے بہتر آسائش کے حصول کی خواہش اور آپسی حسد نے ہمارے گھروں میں بے سکونی اور بے برکتی ڈال رکھی ہے ۔ اسی وجہ سے کتنے ہی خاندان ٹوٹ رہے ہیں ، مگر ہمیں ادراک نہیں ہورہا ۔

پیاری بہن ، اب تو یہ حالت ہے کہ ایک فرد غریبوں کیلئے دسترخوان سجاتا ہے ، تو اس کی بھی تشہیر سے گریز نہیں کیا جاتا …… کسی کی غمگساری کیلئے جانا ہو تو کیمرہ مین ساتھ ہوتا ہے …… بڑے بڑے لوگوں کی عیادت اور تعزیت کی خبریں تصاویر کے ساتھ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر شائع کروانے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے …… انہیں فیس بک اور ٹوئیٹر کی زینت بناکر اپنا ’’سوشل ورک‘‘ ساری دنیا کو دکھایا جاتا ہے …… اور تو اور ، اب تو رشتے بھی ٹی وی چینلز کے مارننگ شوز میں بیٹھ کر تلاش کئے اور کروائے جانے لگے ہیں …… غریب لڑکیوں کے جہیز کا بندوبست اور شادیاں ٹی وی پروگرامات میں سب کے سامنے ہورہی ہیں …… خیراتی اداروں کے پلیٹ فارم سے بڑے بڑے پروگرامات ترتیب دئیے جاتے ہیں جن میں یتامیٰ اور غرباء و مساکین میں امدادی اشیاء تقسیم کی جاتی ہیں …… اس موقع پر میڈیا کو بالخصوص مدعو کیا جاتا ہے تاکہ اس سارے ’’نیک کام‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹا جاسکے …… ہمیں تعلیم دی گئی تھی کہ کسی غریب کی مدد ایسے کرنی ہے کہ دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو …… مگر خودنمائی کو ہم نے اپنے اوپر فرض جان لیا ہے …… اور ہمیں اس سے کوئی عار نہیں کہ یوں کسی کی سفید پوشی متاثر ہوتی ہے یا نہیں؟ ۔پگلی کنزہ ! تم کس کس کو روکو گی ، کس کس سے التجا کرو گی ، کس کس کو احساس دلاؤ گی؟

میری بیٹی ! یہاں کئی خیراتی ادارے موسمی ہیں ، جو صرف ماہ رمضان میں سر ابھارتے ہیں ۔ اپنے ’’گمنام کارنامے‘‘ گنواتے ہیں اور عطیات طلب کرتے ہیں ۔ تم تو جانتی ہی ہو کہ ماہ رمضان میں لوگوں کا رجحان زکوۃ و خیرات کی جانب زیادہ ہوتا ہے ، اس جذبہ ہمدردی سے فائدہ اٹھانے کیلئے بیشتر ایسے ادارے بھی میدان میں آجاتے ہیں جن کے نام یا تو پہلی دفعہ سننے میں ملتے ہیں ، یا پھر یاد آتا ہے کہ آخری دفعہ اس کا ذکر گذشتہ ماہ رمضان میں سنا گیا تھا ، یہ اپنی تشہیر میں کروڑوں ، اربوں کی خدمات گنواکر داد تحسین کے ساتھ لوگوں سے خیرات وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ عطیات سمیٹتے کر واپس بل میں گھس جاتے ہیں ، جیسے کبھی تھے ہی نہیں …… یہ عطیات کب ، کتنے اور کہاں خرچ ہوتے ہیں ، واﷲ اعلم …… مجھے نہیں معلوم کہ تم نے جس ادارے کو خط لکھا ، وہ بھی ایسا ہی کوئی ادارہ ہے یا جینوئین درجہ سے تعلق رکھتا ہے …… ہاں ، اگر آئندہ رمضان سے قبل ان میں سے کسی بھی ادارے نے تم سے رابطہ کیا تو مجھے ضرور بتانا ، مجھے اس کے بارے میں جان کر خوشی ہوگی …… کیونکہ ہمارے ہاں صرف پندرہ سے بیس فیصد کے علاوہ تمام این جی اوز کھوکھلی ہیں ، جو چند ایک بڑے خیراتی ادارے ہیں ، ان کا اخلاص بھی واجبی سا ہے ……

بیٹا! میں تمہیں بتاؤں ، چند روز قبل ایک بڑی این جی او ، جو وسیع پیمانے پر یتیم بچوں کی کفالت کررہی ہے ، کے پروگرام میں شریک تھا …… کچھ یتیم بچیاں میرے گرد جمع ہوگئیں ، میرے ساتھ تصاویر بنوائیں اور مجھ سے درخواست کی کہ میں اس مرتبہ عید ان کے ساتھ مناؤں ۔ میں نے فیملی کے ہمراہ مری جانا تھا لیکن وہ پروگرام فی الفور کینسل کرکے ان پریوں کی لاج رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ بعدازاں اس ادارے کے منتظمین سے رابطہ کیا ، انہیں بچیوں کے خاکے بھیجے اور بتایا کہ میں ان کے ساتھ عید کے لمحات گزارنا چاہتا ہوں ، میرا ان سے رابطہ کروائیں ۔ مگر کئی دن گزر گئے انہوں نے بارہا یاددہانی کے باوجود مجھے ان شہزادیوں تک رسائی نہ دی …… میں نے اسی این جی او میں ایک دوسرا ذریعہ استعمال کیا ۔ وہاں سے بھی ٹال مٹول ہوتی رہی ، پھر باربار استفسار پر روایتی سا جواب ملا ۔ تب تک عید کا دن قدرے قریب آچکا تھا اور میں مزید ان کی تلاش کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔ میں بچیوں سے وعدہ خلافی پر سخت شرمندہ تھا …… مذکورہ این جی او کا یہ رویہ دانستہ تھا یا پھر نادانستہ ، میں نہیں جانتا ، لیکن مجھ پر یہ ضرور باور ہو اکہ یہ ادارے ، چاہے مستند ہوں یا موسمی ، فقط ظاہری چمک دمک دکھا کر عطیات وصول کرتے ہیں اور صرف موقع پر ہی ان کا ’’اخلاص‘‘ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے …… پیاری کنزہ ! اگر تم اور تمہارے جیسے پھول سے بچے ، بچیاں ان کے ساتھ تصاویر نہیں بنوائیں گے تو ان کے پاس ’’کمانے‘‘ اور لوگوں کو دکھانے کیلئے کیا رہ جائے گا؟ پس جان لو کہ سیلف پروجیکشن میں ہی ان اداروں کی زندگی اور بقا ہے ۔
ہر چیز ہے محوِ خودنمائی
ہر ذرہ شہیدِ کبریائی

چندا! کہنے کو ابھی بہت کچھ باقی ہے ، مگر تمہیں یہ باتیں سمجھ نہیں آئیں گی ۔ تھوڑی بڑی ہوجاؤ تو تم سے تفصیلی گفتگو ہوگی ۔ اﷲ جی سے تمہارے لئے بہت سی آسانیوں کی دعا کے ساتھ ۔
 

Muhammad Noor-Ul-Huda
About the Author: Muhammad Noor-Ul-Huda Read More Articles by Muhammad Noor-Ul-Huda: 85 Articles with 83173 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.