کراچی میں بارش

برکھا رُت خوشی اور امنگ کے سندیسے لاتی ہے۔ پھوار پڑتے ہی دل جھوم اٹھتے ہیں اور پھر رم جھم جھم کے ساتھ روح رقصاں ہوجاتی ہے۔ برصغیر پاک وہند میں برسات کا اپنا حسن اور ایک الگ ہی کلچر رہا ہے۔ ان دنوں کا حال تو اب ہم بزرگوں سے سنتے یا کتابوں میں پڑھتے ہیں جب گھٹا اٹھتے ہی باورچی خانوں میں چولہے جل اٹھتے تھے اور پکوڑے، پوری اور آؒلو کی ترکاری، کچوریوں جیسے کتنے ہی پکوان پکائے جانے لگتے تھے۔ یہ ذکر ان دنوں کا ہے جب چھوٹے چھوٹے گھروں میں بھی بڑے بڑے صحن ہوا کرتے تھے، جن میں ہرے بھرے درختوں کی شاخیں جھوما کرتی تھیں۔ برسات کے موسم میں ان شاخوں پر جھولے پڑ جاتے تھے جن پر لڑکیاں جھولا کرتی تھیں جن کے شور اور ہنسی کے فواروں سے گھر بھرجایا کرتے تھے۔

نشیبی جگہوں پر جمع ہوجانے والا پانی بچوں کے لیے تفریح کا سامان بن جایا کرتا تھا، جس میں ان کے ننھے منے پیروں کی چھپ چھپ دن بھر گونجتی رہتی تھی۔ پھر وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی۔

برسات پر خوشی کے جذبات کا اظہار محض اس موسم کے باعث جنم لیتے خوب صورت نظاروں اور اس سے نکھرتے مناظر ہی کے باعث جنم نہیں لیتے، بل کہ اس جذبے کی جڑیں ہمارے زرعی ماضی میں پیوست ہیں۔ ایک کسان ہی جانتا ہے کہ بروقت بارش اس کی زندگی کے لیے کتنی اہم بل کہ ناگزیر ہے۔ آسمان سے لگنے والی جھڑی زمین میں اتر کر کسان کے لیے لہلہاتی فصلوں کا تحفہ لاتی ہے۔ سو بارش کی بوندیں سیدھی کسان کے دل پر گر کر دل کی سرزمین کو شاداب کردیتی ہیں اور یہ خوشی بے ساختہ رقص کی صورت میں سامنے آئی تو کبھی لوک گیتوں میں ڈھلی۔ ان کسانوں کی آل اولاد نے کھیتوں سے کارخانوں اور دفاتر اور گاؤں سے بڑے بڑے شہروں تک کا سفر کر لیا مگر ساون رُت سے محبت اور اس موسم کے آنے کی مسرت اب بھی اس کے جذبوں اور روایت کا حصہ ہے۔

ساون رت ایک رومان پرور موسم ہے، چناں چہ ہماری شاعری میں بادل، برسات، بوندیں، گھٹا اور چمکتی بجلی استعارات اور تشبیہات کا ایک جہان لیے ہوئے ہیں۔ برسات میں بھیگے ہوئے قدیم وجدید شعراء کے کتنے ہی اشعار کتنی ہی نظمیں ہماری زبان کا قیمتی اثاثہ ہیں۔

مگر جناب! بارش کا سارا رومان، بھیگی ہوئی شاعری، دل سے چھلکتی خوشی، درختوں پر پڑے جھولے، بارش کے ٹھہرے پانی پر رواں کاغذ کی کشتیاں اور باورچی خانوں میں پکتے مزے مزے کے پکوان․․․یہ سب ہم کراچی والوں کے لیے بس قصے کہانیاں اور خوش نما تصورات ہیں کہ بارش ہمارے لیے مصیبتوں اور پریشانیوں کا پیغام لاتی ہے۔ اس مصیبتوں کے مارے اور حکومتوں کے دھتکارے ہوئے شہر میں ابھی بادل آتے ہیں اور چند بوندیں ہی برسا پاتے ہیں کہ تاروں میں رواں بجلی کی لہریں دم توڑ جاتی ہیں۔ یوں سورج کے کالی گھٹا کے پیچھے منہہ چھپاتے ہیں ہمارے گھروں کو روشن کرتے بلب اور ٹیوب لائٹس بھی مایوس عاشق کے دل کی طرح بجھ جاتی ہیں۔ یہ اندھیرا کتنا طویل ہوگا، بجلی کی یہ بندش کب تک کے لیے ہے، روشنی کا سفر کب تک رکا رہے گا․․․․کوئی نہیں جانتا۔ یہ اندھیرا کئی گھنٹوں پر بھی محیط ہوسکتا ہے اور اسے جھیلتے ہوئے کئی دن بھی لگ سکتے ہیں۔

ہمارے بدقسمت شہر میں بجلی کے بعد بارش کا اگلا ہدف گلیاں اور سڑکیں ہوتی ہیں۔ وہ دنیا کے اور شہر ہیں جہاں بارش کا دھارا پختہ گلیوں اور مضبوطی سے تعمیر ہونے والی سڑکوں کو چمکادمکا کر اور دھودھلا کر مزید خوب صورت بنادیتا ہے، شہرقائد میں مدت سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکیں برسات کے ساتھ ہی تالاب میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور ان میں بنے ہوئے گڑھے کسی کے لیے بھی موت کا کنواں ثابت ہوسکتے ہیں۔ برسات کی جھڑی اگر دیر تک لگی رہے تو بہت جلد سڑکوں پر بن جانے والے تالاب دریا میں بدل جاتے ہیں۔ سڑکوں پر کھڑا پانی اگر نشیبی علاقوں کا رخ کرلے تو سیلابِ بلا بن کر گھروں میں گھستا چلا آتا ہے اور گھروں میں موجود قیمتی سامان کو پل بھر میں غرق کردیتا ہے۔

برکھا رُت کے ساتھ ٹریفک جام کا عذاب بھی دوچند ہوجاتا ہے۔ سڑکوں پر کھڑنے پانی میں گاڑیاں بند ہوجاتی ہیں، جو کتنی ہی دوسری گاڑیوں کے لیے دیر تک راستے کا پتھر بنی رہتی ہیں۔ پھر بڑے بڑے گڑھوں کا خوف گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو محتاط کردیتا ہے، یوں ٹریفک کی رفتار سست ہوتی چلی جاتی ہے۔ بارش میں یہ صورت حال معمول بن چکی ہے، اس لیے گھٹا اٹھتے ہی کراچی کے لوگ کہیں جانے کا ارادہ کرکے گھر بیٹھ رہتے ہیں۔ ٹریفک جام کی آفت جھیلنے والے تو وہ مجبور لوگ ہوتے ہیں جن کا گھر سے نکلنا معاشی مجبوری یا کسی ناگزیر وجہ کے باعث ہوتا ہے۔

آسمان سے پانی برستے ہی بجلی کے تاروں کا گرنا اس شہر میں ایک عام سی بات ہے، جس کے نتیجے میں لوگوں کو کرنٹ لگتا ہے اور جانیں جاتی ہیں، لیکن ان تلف شدہ جانوں کا کسی کو ذمے دار قرار دیا جاتا ہے نہ حالات کا مداوا ہوتا ہے۔

اس وقت بھی کراچی اسی قسم کے حالات سے گزر رہا ہے۔ بدھ سے شروع ہونے والی بارشوں کے باعث پانی کھڑا رہنے اور نکاسی نہ ہونے کے باعث شہر کی کتنی ہی شاہراہیں اور سڑکیں دھنس گئی ہیں اور جگہ جگہ کئی کئی فٹ کے گڑھے پڑ گئے ہیں۔ ان میں وہ سڑکیں بھی شامل ہیں جنہیں حال ہی میں تعمیر کیا گیا تھا، لیکن ناقص میٹریل کی وجہ سے یہ بارش کا بوجھ برداشت نہ کرسکیں۔

میرے شہر کی بدقسمتی دیکھیے کہ حکومت اور اداروں نے اس شہر کے لیے رحمت کو بھی زحمت بنادیا ہے۔ چناں چہ ہوتا یہ ہے کہ گرمی سے بے حال کراچی والوں کی آنکھیں آسمان پر پانی سے بھرے بادل دیکھ کر چمک اٹھتی ہیں، لیکن جونہی ان کی نظر زمین پر واپس آتی ہے ان کے دل خوف سے بیٹھ جاتے ہیں۔

 

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311864 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.