صوبہ بلوچستان ہمیشہ سے ہی مشکلات کا شکار رہا
ہے،محرومیوں نے بلوچ عوام کو گویا ذہنی مریض سا بنا دیا ہے۔کبھی ان
محرومیوں کا ذمہ دار بلوچ قبائلی نطام قرار پایا تو کبھی اس کا الزام وفاق
پر لگایا گیا۔بحرحال یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
بلوچستان قدرتی طور پر خدا کی عطا کردہ دولت سے مالا مال صوبہ ہے،افسوس کہ
صوبے میں موجود وسائل کو اچھے طریقے سے یوٹالائز نہیں کیا جا رہا ہے۔جن
علاقوں میں معدنیات نہیں پائے جاتے ان علاقوں میں حکومت نے زراعت کو فروغ
دینے کیلئے نہریں بنائی ہیں تاکہ لوگ خوشحال ہو سکیں،ان علاقوں میں ضلع
نصیرآباد و جعفراباد سر فہرست ہیں۔یہ دونوں اضلاع بلوچستان کے گرین بیلٹ
کہلاتے ہیں۔یاد ریے زراعت ملکی معیشیت میں ریڑھ کے ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
بلوچستان کے ان اضلاع کو زرخیز بنانے کیلئے حکومت پاکستان نے دو
نہریں“کیرتھر کینال اور پٹ فیڈر کینال“ دریا سندھ سے نکالے ہیں۔یہ کینالز
بنائے تو بلوچستان کے لئے گئے ہیں،مگر ان کا زیادہ تر پانی سندھ ہی اپنی
صوبے کیلئے استعمال کرتا ہے۔اس حوالے سے کئی بار عوامی احتجاج ہوئے مگر کسی
کے کان پر جوں تک نہیں رینگتا۔پٹ فیڈر کینال کیلئے گورنمنٹ کا عجیب و غریب
قانون ہے،یعنی جہاں سے پٹ فیڈر کینال نکلتی ہے اس کے پانی کا حقدار صرف
جنوبی علاقے والے ہیں،شمالی علاقہ والے صرف پانی کو دیکھ سکتے ہیں،یعنی
چراغ تلے اندھیرا۔نوٹ پٹ فیڈر کینال مشرق سے مغرب بہتا ہے،یہ کشمور سے جھل
مگسی کے علاقے تک زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔
آجکل بارشوں کی وجہ سے سندھ اور پنجاب میں شہر نہر دکھائی دیتے ہیں،مگر
بلوچستان میں لوگ پانی کے بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ بہتر
حکمت عملی کے زریعے بلوچستان کے گرین بیلٹ کو سرسبز بنانے کیلئے بہتر کوشش
کرے،تاکہ جہاں سیلاب سے فصلیں تباہ ہو رہی ہیں وہی پانی بلوچستان کو فراہم
کرکے بلوچستان میں زراعت کو فروغ دے،اس سے دیگر صوبوں میں سیلاب سے نقصان
کم ہوگا،اور بلوچ عوام کی محرومیں بھی کمی آئے گی۔
مشرف دور میں بلوچستان کیلئے ایک اور نہر“کچھی کینال“ صوبہ پنجاب کے علاقے
تونسہ شریف سے شروع کیا گیا تھا،مگر تا حال اس کا بھی پتا نہیں۔
بلوچستان ایک زرخیز صوبہ ہے،گورنمنٹ کو چاہیے کہ اس کی زرخیزی کیلئے مزید
کینالز بنائے اور موجود انہار میں پانی کی مطلوبہ مقدار مہیا کی جائے۔اس سے
نہ صرف ملکی معیشیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا،بلکہ عوامی روزگار کے ساتھ
ساتھ ماہی گیری کے شعبے کو بھی پزیرائی ملے گی۔ |