کرائم

کراچی پولیس میں بہتری کے لئے ایک نئے رجحان کا آغاز

ایک پرانی کہاوت ہے کہ ایک کامیاب انسان یا ادارہ کے پیچھے ایک خاتون کاہاتھ کارفرما ہوتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی پولیس نے بھی اس کہاوت پر یقین کرتے ہوئے کامیابی کی سمت اپنے سفر میں نئے رجحان کو فوقیت دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔اسی رجحان کے نتیجے میں مختلف اعلیٰ اور ذمہ دار عہدوں پر خواتین افسران کی تعیناتی کی گئی ہے۔گو کہ پولیس فورس میں خواتین کی ایک بڑی تعداد گزشتہ کئی دہائیوں سے خدمات انجام دے رہی تھی۔ تاہم ان کی اکثریت سپاہی کے عہدے کے بعد بمشکل ہیڈ کانسٹبل ترقی پانے کے بعد ریٹائرمنٹ کی منزل تک پہنچ پاتی تھی۔

سیدہ غزالہ کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی پہلی خاتون تھانے دار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ان کے ماتحت تقریباً 100اہلکاروں میں سب مرد ہیں۔ رواں سال 10جون کو شہر کے ایک اہم علاقے میں واقع کلفٹن تھانے کی انچارج ہونے کی حیثیت سے ان کی تقرری مقامی پولیس میں خواتین افسران اور اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ اورانہیں اعلی عہدوں پر جگہ دینے کی کوششوں کا حصہ ہے۔محکمہ پولیس کی جانب سے 44 خواتین پر مشتمل کمانڈوز کے پہلے گروپ کی تربیت بھی جاری ہے،اس دوران انہیں سخت جسما نی مشقت ،مختلف ہتھیاروں کے استعمال اور ہیلی کاپٹر اور بلند عمارتوں سے کودنا بھی سکھایا جارہا ہے۔اس وقت صرف کراچی میں صرف 2 تھانوں کی نگرانی خواتین افسران کے ہاتھ میں ہے۔

انسپکٹر زیب النساء دوسری پولیس افسر ہیں جنہیں شہر کے ایک اور پوش علاقہ بہادرآباد کا تھانیدار تعینات کیا گیا ہے۔حالانکہ میٹروپولیٹن کے112میں سے صرف دو تھانوں میں خواتین ایس ایچ اوز کی تعیناتی کی گئی ہے جو کہ2فیصد سے بھی کم شرح بنتی ہے۔ تاہم خواتین افسران کی تعیناتی کراچی پولیس کی تقریباًدو صدیوں سے زیادہ طویل تاریخ میں ایک نئے رجحان کی عکاسی کر رہی ہے۔ خاتون تھانیداروں کے بعد ملک کی تاریخ میں پہلی بار خاتون پولیس افسراے ایس آئی نسیم ملک کو اولڈ سٹی ایریا کے رسالہ تھانے میں ہیڈ محرر کا چارج دے کر تعینات کیا گیا ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہیڈ محرر کا عہدہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ہیڈ محرر کے فرائض میں تھانیدار کے احکامات پرعمل درآمد یقینی بنانے کے علاوہ تھانے کاتمام ریکارڈ تیاراور محفوظ کرنا،تھانے کی پوری حدودمیں نفری کی تعیناتی یقینی بنانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ روزنامچہ چیک کرنا اورگشتی موبائیلوں کی ڈیوٹیاں لگانا بھی ہیڈ محرر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق اس وقت کراچی کے تھانوں میں خواتین افسران کی تعیناتی کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے ۔

اسی اثناء میں نسیم آرا پنہور کو پاکستان کی پہلی ضلعی پولیس افسر(ڈی پی او) ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جبکہ شہلاقریشی کو کراچی کے علاقہ فریئر میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس تعینات کیا گیا۔قبل ازیں ٹریفک پولیس میں معصومہ چنگیزی سپرنٹنڈنٹ کے عہدہ پر کامیابی کے ساتھ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ٹریفک پولیس میں ہی ایک اور خاتون پولیس افسر جلیس فاطمہ طویل عرصہ سے سپرنٹنڈنٹ کے عہدہ پر فائز ہیں۔کراچی کے قلب میں واقع آرٹلری میدان ویمنزپولیس اسٹیشن میں حاجرہ صبیحہ کی بطور اسٹیشن ہائوس آفیسر(ایس ایچ او) تعیناتی کی گئی ہے۔مقابلہ کا امتحان پاس کر کے پولیس فورس جوائن کرنے والی عذرامیمن کی بطور اسسٹنٹ ڈپٹی انسپکٹر جنرل(اے ڈی آئی جی) ٹریفک تعیناتی بھی واضح طور پر کراچی پولیس میں ایک نئے رجحان کا پتہ دے رہی ہے ۔ یہی نہیں پولیس حکام نے فورس کو میٹروپولیٹن کراچی کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے مزید کئی انقلابی اقدامات کئے ہیں۔

یہ امر باعث مسرت ہے کہ گورنر سندھ اور کمشنر کراچی سمیت اعلی انتظامی اور سیاسی قیادت بھی اس حقیقت تک پہنچ چکی ہے کہ پولیس فورس کوجدیدتقاضوں سے ہم ا ٓہنگ کرنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے۔ گورنر سندھ عشرت العباد خان نے گزشتہ دنوں گورنر ہائوس میں ایک این جی او ’’ سٹیزن ٹر سٹ اگینسٹ کرائم ‘‘کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جرائم پر قابو پانے کے لیے جلدازجلد جدید ٹیکنالوجی کانظام نافذکیاجائے جس میں فنگرپرنٹس ، بائیو میٹرک سسٹم ، فیس اینڈوائس ڈیٹیکشن سمیت شناخت کے دیگر جدیدنظا م شامل ہوں،جدید ڈیجیٹل نظام میں تھانوں کا تمام ریکارڈاورہر تھانے کا مرکزی سینٹرسے رابطہ جرائم کی روک تھام میںانتہائی مفید ثابت ہوگا۔گورنر سندھ کی ہدایات پر عمل درآمد کر لیا جائے تو اس نظام کو متعارف کرانے کے بعد اسلحہ کو بھی رجسٹرڈ کیا جاسکے گا تاکہ شہر سے غیر قانونی اسلحہ کا خاتمہ کیا جا سکے۔

کراچی کو اس وقت سب سے بڑا جو چیلنج درپیش ہے وہ بلا شبہ امن وامان کا قیام ہے۔امن و امان کے قیام کا مقصد شہر سے ناجائز اسلحہ ضبط کئے جانے تک حاصل نہیں کیا جا سکتا۔پولیس کے سنیئر سپرنٹنڈنٹ مظہر مشوانی کے بقول کراچی میں قتل ہونے والے افراد کے مقدمات میں جو بات اب تک سامنے آئی ہے ان میں نائن ایم ایم اور تیس بور کی پستول کا استعمال کیا جارہا ہے۔اس ہتھیار کو استعمال کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ30 بور کا پستول پرانا ہوچکا ہے لہذا جرائم پیشہ افراد اب نائن ایم ایم کو زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ مقامی طور سے تیار کیے گئے یہ پستول سستے ہیں بھی ہیں اور باآسانی دستیاب ہیں۔ان ناجائز ہتھیاروںکی ضبطی اور قانونی ہتھیاروں کے بارے میں مکمل ریکارڈ سازی جدید ٹیکنالوجی کے حصول سے ہی ممکن ہو سکے گا۔تاہم اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا کہ ماضی میں پولیس فورس کو جن جدید سہولیات سے آراستہ کیا گیا ان سے حقیقی طور پر استفادہ نہیں کیا جا سکا ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد جب کراچی کی آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہونا شروع ہوا،تو جنوری1948 میں کراچی کے لیے ممبئی طرز کی پولیس کمشنریٹ کا مسودہ قائد اعظم کو پیش کیا گیا تاہم بانیِ پاکستان کی زندگی نے وفا نہیں کی اور وہ اپنی قائم کردہ مملکت کو شاہراہ ترقی پر رواں دواں دیکھنے سے قبل ہی انتقال کر گئے۔ ان کی ناگہانی وفات کے بعد کراچی کے لیے پولیس کمشنریٹ کا تصور سرخ فیتے کی نذر ہو گیا۔قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت نے کراچی کو ایک نیم خود مختار میٹروپولیٹن بنانے پر توجہ نہیں دی۔دنیا کے تقریبا ً تمام ترقی یافتہ ممالک نے اپنے بڑے شہروں کے لیے الگ انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا ہے تاکہ ان شہروں کا انتظام بخوبی چلایا جا سکے۔ پولیس کمشنریٹ کا تصور صرف ترقی یافتہ ممالک تک محدود نہیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیاء، وسطی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کے اکثر بڑے شہروں میں بھی امن و امان کے بہتر قیام اور جرائم کی بیخ کنی کیلئے پولیس کا خود مختار نظام قائم کیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے کراچی میں پولیس کمشنریٹ سسٹم بحال کرنے کا نہ صرف فیصلہ کرلیا تھابلکہ ان کے فیصلے کو نافذ بھی کر دیا گیا۔ تاہم سیاسی مجبوریوں یا ضروریات کے پیش نظر وہ اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے ۔اب وقت آگیا ہے کہ ارباب اقتدار کو یہ حقیقت سمجھنا ہوگی کہ شہر میں آبادی کا بڑھتا ہوا حجم اور آبادی کی تیزی کے ساتھ دیہاتوں سے شہر کی جانب منتقلی کے نتیجے میں بے شمارمسائل جنم لے رہے ہیں۔ان مسائل سے نمٹنے کے لیے نچلی سطح پر بااختیار انتظامیہ کی ضرورت درپیش ہوتی ہے ۔ دقیانوسی پولیس سسٹم کو ختم کر کے اس کی جگہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ پولیس سسٹم کا نفاذ ہی میٹروپولیٹن کراچی میں امن و امان کا قیام یقینی بنا سکتا ہے۔

کراچی میں گزشتہ تین دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ بدامنی جاری ہے، لیکن کسی بھی وفاقی یا صوبائی حکومت نے80 فیصد ریونیو فراہم کرنے والے اس شہر کے مسائل حل کرنے اور ٹھوس بنیادوں پرطویل المدتی پالیسی تشکیل دینے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔شہر میں 5ستمبر2013 سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے جو بڑے بڑے دعوئوں کے ساتھ شروع کیاگیا۔ مگر تقریباً11ماہ گذرجانے کے باوجود کوئی مثبت تبدیلی تو درکنار صورت حال مزید ابتر محسوس ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لگ بھگ گیارہ ماہ گزر جانے کے باوجودوہ مقاصد کیوں حاصل نہیں ہوسکے جن کے حصول کے لئے یہ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس سوال کا حقیقی جواب یہ ہے کہ نوآبادیاتی دور کے انتظامی اور پولیس ڈھانچے کے ساتھ تقریباً دو کروڑ آبادی والے کراچی میٹروپولیٹن شہر کے انتظامی امور نہیں چلائے جاسکتے۔

کراچی میں پولیس کا محکمہ جو پولیس ڈپارٹمنٹ کے نام سے معروف ہے، اسے امن و امان کے قیام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعیناتی کے لئے قیام پاکستان سے بھی تقریباً ایک صدی قبل قائم کیا گیا تھا ۔ آج کا پولیس ڈپارٹمنٹ 140,914مربع کلومیٹر کے علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کا ذمہ دار ہے جس کے لئے پولیس ڈپارٹمنٹ کو 105,234 افسران اور اسٹاف کی خدمات حاصل ہیں۔ برطانوی سلطنت کے ایک جنرل اور برصغیر ہند میں برطانوی فوج کے کمانڈر انچیف سر چارلس جیمس نپیئر جنہوں نے صوبہ سندھ کا وہ علاقہ فتح کیا تھا جو کہ اب پاکستان میں شامل ہے1843میں ایک پولیس سسٹم تشکیل دیا۔یہ سسٹم نو آبادیاتی آئرش کانسٹبلری کی طرز پر قائم کیا گیا ۔برٹش آرمی کے اعلیٰ افسران نے اس کی کڑی نگرانی کی اور پولیس فورس کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھا جس کے نتیجے میں یہ فورس نظم و ضبط کی زیادہ پابند، موثر اور کرپشن سے پاک رہی۔

سر نپیئر کی پولیس فورس کی کامیابی سے متاثر ہو کرایسٹ انڈیاکمپنی کے درباری امراء نے یہ تجویز دی تھی کہ آئرش کانسٹبلری کی طرز پرپولیس کا ایک کامن سسٹم قائم کیا جائے ۔ برٹش انڈین حکومت نے 1860 میںمسٹر ایچ ایم کورٹ کی زیر قیادت ایک پولیس کمیشن قائم کر دیا۔اس پولیس کمیشن کو جو ہدایات دی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ ’’ حالانکہ پولیس کی ذمہ داریاں فوج کی بجائے مکمل طور پر سول ہونی چاہئیں تاہم اس کا انتظام و انصرام اور ڈسپلن قطعی طور پر فوج کے ادارے جیسا ہونا چاہئے۔بلا شبہ کراچی پولیس اب شاہراہ ترقی پر گامزن ہے اور اس ادارہ کو اس کے حقیقی موٹو کے تحت چلایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ شہر میں امن و امان کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔

ہمارے ملک بشمول کراچی میں موجودہ پولیس سسٹم کو اسی چارٹر کے تحت قائم کیا گیا ہے۔برٹش انڈین پولیس کے زمانے میںصوبہ پنجاب میں پیرداد(حضرو) سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور پولیس سپرنٹنڈنٹ محمد عمر خان ہوتے تھے جنہیں ان کی اعلیٰ ترین خدمات اور جرائم کی سرکوبی میںموثر کامیابی کے اعتراف میں بہت سے تمغے اور اعزازات دیے گئے تھے۔انہوں نے جرائم کے خاتمے کے لئے ایسے اقدامات کئے تھے کہ کوئی تحریری ضابطے کی عدم موجودگی کے باوجود کوئی جرم ہونے کی صورت میں ذمہ داری مقامی تھانے دار پر ہی عائد ہوتی تھی۔ بدقسمتی سے بعد میں آنے والے وقتوں میں دیسی سیاسی رہنمائوں اور افسران نے پولیس کو ذاتی مفادات کے حصول اور اورمخالفین کو کچلنے کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں پولیس اپنے اصل فرائض منصبی ادا کرنے میں ناکام ہو گئی۔

کراچی میں پولیس فورس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے سندھ پولیس کے ای۔پولیسنگ منصوبے کے تحت جولائی2012میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ نے سینٹرل پولیس آفس سمیت 16دفاتر میں وڈیو کانفرنسنگ سسٹم نصب کئے تھے ۔اس سسٹم کے ذریعے اعلیٰ افسران کو بر وقت اور براہ راست رابطوں اور اپنے ماتحتوں کوہدایات و احکامات دینے کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اس انقلابی سہولت سے اس کی استعداد کے مطابق استفادہ نہیں کیا گیا۔ باخبر ذرائع کے مطابق وڈیو کانفرنسنگ سسٹم میں نصب کئے گئے جدید کیمرے حساس سینسرزکی مدد سے کانفرنس میں شامل کسی بھی افسر کے چہرے کو خودکار نظام کے تحت زوم کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ وڈیو کانفرنسز کے ذریعے منعقد کئے جانے والے اجلاسوں کی ریکارڈنگ کے لئے سینٹرل پولیس آفس میں ایک ڈیٹا سینٹر بھی بنایا گیا تھا جہاں مخصوص اجلاسوں کی کارروائی کو ریکارڈ کرنے کی سہولت بھی موجود ہے ۔ یہ جدیدترین وڈیو کانفرنسنگ سسٹم آئی جی پولیس، تمام ایڈیشنل آئی جیز،ڈی آئی جی سی آئی ڈی، ڈی آئی جی اسپیشل برانچ، ڈی آئی جی کرائم برانچ،ڈی آئی جی ٹریفک، ڈی آئی جی ٹریننگ، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن بشمول تما م آپریشنل ڈی آئی جیز کے دفاتر، صوبائی وزیر داخلہ، صوبائی سیکریٹری داخلہ اور صوبائی ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ کے دفاتر میں بھی نصب کئے گئے تھے۔بلا شبہ اس سسٹم کی مدد سے شہر میں امن و امان کے قیام اور جرائم کے خلاف نچلی سطح پر پولیس اہلکاروں کی کارروائی کو مانیٹر کیا جا سکتا ہے تاہم اسے بدقسمتی ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ پولیس حکام موجود سہولیات سے بھی ان کی استعداد کے مطابق استفادہ کرنے میں ناکام ہیں۔

قبل ازیں اکتوبر2010میں مجرمین کو قانون کی گرفت میں لانے کیلئے حکومت نے پولیس فورس کو فون ٹریکنگ سسٹم استعمال کرنے کی منظوری دی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں کراچی شہر کی سڑکوں سے اغواء برائے تاوان کے جرائم اور کرپشن کے خاتمے میں بھی مدد ملی۔ستمبر2013میں شہری حکومت کے زیر انتظام چلنے والا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بھی پولیس کے حوالے کردیا گیا جو کہ قبل ازیں سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی کی نگرانی میں کام کر رہا تھا۔بعد ازاںصنعتی علاقوں میں سیکورٹی اینڈ سیفٹی کے حوالے سے لگائے جانیوالے سی سی ٹی وی کیمروں کوایک نظام کے تحت کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم سے منسلک کر دیا گیا۔

تاہم کراچی میں ٹیکنالوجی کو جرائم کے خاتمے کے لئے استعمال کرنے میں حکومت کی عدم دلچسپی کا ثبوت یہ ہے کہ سابقہ فیصلوں کے تحت جن مقامات کی نشان دہی کی گئی تھی وہاں بھی اب تک سی سی ٹی وی کیمرے پوری طرح نصب نہیں کئے جاسکے۔ دوسری جانب نجی اداروں کے تعاون سے جن مقامات پر یہ کیمرے نصب کئے گئے وہاں بھی ان مستقل دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث ان کی بڑی تعداد ناکارہ ہو گئی ہے اور مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔حقیقت یہ ہے کہ جرائم پر قابو پانے کے سلسلے میں سرویلنس کیمروں کا استعمال انتہائی مفید ہے مگر تمام اداروں بشمول بینک، پٹرول پمپس، صنعتی و تجارتی علاقے، تفریحی مقامات سمیت دیگر اہم مقامات پر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اور پولیس کے تحت لگائے جانے والے سرویلنس کیمرہ سسٹم کا ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کیا جانانہایت ضروری ہے۔

توقع کی جا سکتی ہے کہ کراچی پولیس کے ذمہ دار اعلیٰ افسران اور حکومت دو کروڑ آبادی والے اس میگا سٹی کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فورس کی بہتری کے لئے اقدامات کی حمایت جاری رکھیں گے۔ کراچی پولیس کو ایک جدید ترین فارنسک سائنس لیباریٹری رکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ گارڈن پولیس ہیڈ کوارٹر میں قائم اس لیباریٹری میں بم ڈسپوزل اسکواڈ،ڈٹیکٹیوٹرینگ اسکول، کرائم سین ریڈنگ اور کئی دوسری جدید ترین سہولیات دستیاب ہیں۔ اس شعبہ کے بانی اورپہلے سربراہ اے آئی جی غلام عباس جعفری تھے جنہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ تک اس لیباریٹری کو ایک ایسا مثالی شعبہ بنا دیا تھا جس پر پوری پولیس فورس فخر کر سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسران جرائم کی تحقیقات کے جدید طریقے استعمال کرنے کے لئے اس لیباریٹری سے اس کی اصل استعداد کے مطابق استفادہ کریں۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ کراچی پولیس بھی جرائم کی بیخ کنی کے لئے سکاٹ لینڈ یارڈ کی طرح اپنا نام منوا سکتی ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں کراچی پولیس اپنے آپ کا ایک متحرک اور موثر فورس کی حیثیت سے منوانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ضرورت صرف نیک نیتی سے اقدامات کرنے کی ہے۔

syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77829 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More