انسان معاشرتی جانور ہے، ارسطو نے کہا تھا لیکن اگر ہم
بحیثیت مُسلمان اس فقرے پر غور کریں تو یہ بالکل درست ہے ، اﷲ نے قرآن میں
متعدد مقامات پر ماں باپ کی فرمانبرداری کے بعد عزیز و اقارب سے حسن سلوک
کا حکم دیا ہے ، نبی پاک محمد ﷺ نے احادیث میں پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں
فرمایا کہ وہ شخص مؤمن نہیں ہوسکتا جس کا پڑوسی اُس سے تنگ ہو۔ اس کے علاوہ
عام لوگوں کے بارے میں بھی حکمِ الٰہی وسنتِ رسولﷺ ہے کہ لوگوں سے سیدھی
اوراچھی بات کہاکرو ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں عدم برداشت بڑھتا
جارہا ہے، کوئی کسی کی بات سُننا ہی نہیں چاہتا اور نہ سُنتا ہے۔اب اس بات
سے آگاہ سب ہیں لیکن کوئی کچھ کرنے کو تیار نہیں ، سیاستدان ہوں یامذہبی
رہنُما سب کے سب اپنی دُکانیں چمکانے میں لگے ہوئے ہیں کہیں کوئی بھی حادثہ
ہوجائے میڈیا ریٹنگ کی مارکیٹ میں اپنا نام اوّل کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے
۔ ایسے میں ایدھی ، چھیپا ، فلاح ِ انسانیت فاؤنڈیشن ،الخدمت ، خدمتِ خلق
فاؤنڈیشن اور جے ڈی سی جیسی تنظیمیں بلا تفریقِ مذاہب، مسالک اور سیاست
انسانیت کی خدمت میں جُت جاتی ہیں اور نہ صرف خدمت کرتی ہیں بلکہ بدلے کا
اجر بھی نہیں مانگتیں حالانکہ یہ فلاحی تنظیمیں براہ راست یا بالواسطہ طور
پرکسی نہ کسی سیاسی ومذہبی جماعت ہی سے منسلک ہیں۔ اب آتے ہیں کچھ عیاں
حقائق کی طرف ۔ہر مذہبی گروہ صرف اپنے فقہ کی تعلیم دے رہا ہے اوراس کے
مقابلے میں اﷲ کی کتاب اور رسولﷺ کی سنت احادیثِ صحیحہ محض الماری کے سجانے
یا چند اخلاقی مسائل حل کرنے کیلئے رہ گئی ہیں۔ یہاں تک کہ انسانی عقل پر
بھی تقلید کا تالا لگادیا گیا ہے۔حالانکہ غوروفکر کرنے کا حکم کوئی معمولی
حکم نہیں بلکہ حکمِ الٰہی ہے، اور قرآن پوری انسانیت کے لئے اُترا ہے ، اسی
لیئے ہم دیکھ رہے ہیں کہ دُنیا بھر کے لوگ تحقیق کرکے دائرہِ اسلام میں
داخل ہورہے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ جو موروثی مسلمان چلے آرہے ہیں وہ
گلے میں تقلید کا طوق ڈالے ہوئے ہیں ۔اور اگر وسیع النظری سے دیکھا جائے تو
شاید تمام مذاہب کے لوگ تقلید کے پیروکار ہیں۔اب ملاحظہ ہو موجودہ صورتحال
کہ مسلمان ہی مسلمان کا دشمن بنا ہوا ہے ،ہر کسی نے اسلام کا اپنا اپنا
ورژن بنایا ہوا ہے اور وہ زندگی کے تمام فیصلے اُسی کے مطابق کررہاہے۔ایسے
میں ہم بحیثیت مُسلمان ایک فیصلے پرمتّفق ہوجائیں یہ کیسے مُمکن ہوسکتا ہے؟
اس سوال کا جواب بھی موجود ہے ، قرآن میں اﷲ نے واضح فرمادیا کہ ـ’اﷲ کی
رسّی (قرآن) کو مضبوطی سے تھامے رکھواور تفرقہ میں مت بَٹو‘۔ سورہ اٰلِ
عمران،آیت ۳۰۱۔ اپنی بات کو اس سوال کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ ’جب ہمارے
درمیان اﷲ کی کتاب اور رسولﷺ کی سُنت موجود ہے تو پھر کیا بات ہے کہ ہم
بحیثیت امتِ مسلمہ اﷲ اوررسولﷺ کے احکامات کا نفاذ اورمعاشرتی عدم برداشت
کا خاتمہ کیوں نہیں کرپارہے؟ |