سناتھا کے نام ہے اس ملک کا
جھاں راج ہوگاسلام کا ۔
جو دھرتی ہوگی پیار کی۔
جہاں امن کے پنچھی گاتے ہونگے۔
پرشاید یہ بھی کویٔ خواب تھا۔کس کی نظر کھا گئی میرے ملک کو،یہاں تو ہزاروں
لوگ روز مر جاتے ہیں اور کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
عید سے دو روز پہلے کی بات ہے ۔کوئی ٹینکر گرا تھاپاکستان کے صوبے پنچاب
میں۔اس میں پٹرول تھا۔جو اس کے گرنے سے روڈ کے کنارے بہ گیا۔کچھ فاصلے پر
ایک غر یب بستی تھی۔بستی کے لوگوں نے سوچا ہو گا کے اس پٹرول کو جمع کر کے
بیچ دیں گے۔اور کچھ پیسے کما لینگے، شاید وہ بھی عید کی خوشیوں میں شریک
ہونا چاہتے ہونگے۔وہ بھی اپنے بچوں کی آنکھوں میں عید کی خوشی دیکھنا چاہتے
ہونگے ۔ناجانے کیا کیا خواب ہونگے ان کے دل میں،
مگر افسوس کے انکے خواب پورے نا ہوئے۔ایک آگ کا شعلہ آیا اور سب راکھ کر
گیاسب جل کر راکھ کا ڈھیر ہوگیا۔وہ کھیت جو ہرا بھرا تھا راکھ کاڈھیر بن
گیا۔اس کے ساتھ فضاء میں انسانی چیخوں کی آوازیں آنے لگیں۔
(کچھ جل رہا تھا ،کچھ بد بو تھی)
ایک قیامت کا منظر تھا۔لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے ۔
اب ان کی آنکھوں میں خوشی نہیں وحشت تھی ۔اب وہ اپنے ان پیاروں کو ڈوھنڈ
رہے تھے جو ان کی خوشیوں کو لینے آئے تھے ۔پر اب وہاں جلی ہوئی لاشیں
تھیں۔جو نہ قابل شناخت تھیں۔
کوئی کس کو پوچھتا؟
کون کسے دلاسہ دیتا؟
۰۰۲ افراد جل گئے۔۔۔کیا کسور تھا ان کا؟
کون زمیداری لے گاان کی موت کی؟
کوئی بھی نہیں۔ کوئی بھی نہیں۔
کہنے والوں نے تو یہ بھی کہاکہ ان کا ہی کسور ہے ۔کیوں آئے تھے یہاں؟
یعنی ان کی غربت ان کا کسور تھی۔یا پھر ان خوشیوں کو حاصل کرنے کی تمنا ان
کا جرم تھا۔
میں کہتی ہوں کے کہیں نہ کہیں ہم سب ذمہ دار ہیں ۔اگر ہم اسلامی قوانین کی
پابندی کریں ۔تو کوئی غریب نہ ہو۔غریب کا حق اس کو دیا جائے ۔
تو ہر دن عید ہو گی۔
ٓٓاﷲ پاک سے دعا ہے کہ اس پاک سر زمین کو اپنے امان میں رکھے۔امین |