یقین انسان کی زندگی اور حالات میں ایک مثبت اثر ڈالتا
ہے۔ یقین ہی انسان کو اُس کی منزل کی طرف بڑھنے میں مدد کرتا ہے ۔لیکن آج
ہم زندگی کو قریب سے دیکھنے کی چاہ میں خود سے دور ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ
ہم اپنی منزل کی طرف بڑھنے کے لیے ہر حد پار کر جاتے ہیں لیکن کبھی ہم
کامیاب نہیں ہو پاتے کیونکہ ہمارے یقین میں ضرور کوئی کمی ہوتی ہے۔ یقین
اگر خود پر ہو تو انسان کا اعتماد بحال ہوتا ہے لیکن اگر انسان کا یقین خدا
پر ہو تو تمام راستے خود بخود ہموار ہوتے چلے جاتے ہیں۔شاید میری بات پربھی
یقین کرنا آسان نہیں ہوگا اسی لیے میں معاشرے کے ایک کردار کے بارے میں
بتانا چاہتا ہوں جن کے یقین نے نہ صرف ان کی مشکلات دور کیں بلکہ ان کے لیے
ایسے اسباب پیدا کیے جن کو سن کر ہمارا یقین اور پختہ ہو جائے گا۔
پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں ایک حکیم صاحب ہوا کرتے تھے، جن کا مطب ایک
پرانی سی عمارت میں ہوتا تھا۔ حکیم صاحب روزانہ صبح مطب جانے سے قبل بیوی
کو کہتے کہ جو کچھ آج کے دن کے لیے تم کو درکار ہے ایک چٹ پر لکھ کر دے دو۔
بیوی لکھ کر دے دیتی۔ آپ دکان پر آ کر سب سے پہلے وہ چٹ کھولتے۔ بیوی نے جو
چیزیں لکھی ہوتیں۔ اْن کے سامنے اْن چیزوں کی قیمت درج کرتے، پھر اْن کا
ٹوٹل کرتے۔ پھر اللہ سے دعا کرتے کہ یااللہ! میں صرف تیرے ہی حکم کی تعمیل
میں تیری عبادت چھوڑ کر یہاں دنیا داری کے چکروں میں آ بیٹھا ہوں۔ جوں ہی
تو میری آج کی مطلوبہ رقم کا بندوبست کر دے گا۔ میں اْسی وقت یہاں سے اْٹھ
جاؤں گا اور پھر یہی ہوتا۔ کبھی صبح کے ساڑھے نو، کبھی دس بجے حکیم صاحب
مریضوں سے فارغ ہو کر واپس اپنے گاؤں چلے جاتے۔
ایک دن حکیم صاحب نے دکان کھولی۔ رقم کا حساب لگانے کے لیے چِٹ کھولی تو وہ
چِٹ کو دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے۔ اْن کو اپنی آنکھوں کے سامنے تارے
چمکتے ہوئے نظر آ رہے تھے لیکن جلد ہی انھوں نے اپنے اعصاب پر قابو پا لیا۔
آٹے دال وغیرہ کے بعد بیگم نے لکھا تھا، بیٹی کے جہیز کا سامان۔ کچھ دیر
سوچتے رہے پھر چیزوں کی قیمت لکھنے کے بعد جہیز کے سامنے لکھا یہ اللہ کا
کام ہے اللہ جانے۔
ایک دو مریض آئے ہوئے تھے۔ اْن کو حکیم صاحب دوائی دے رہے تھے۔ اسی دوران
ایک بڑی سی کار اْن کے مطب کے سامنے آ کر رکی۔ حکیم صاحب نے کار یا صاحبِ
کار کو کوئی خاص توجہ نہ دی کیونکہ کئی کاروں والے ان کے پاس آتے رہتے تھے۔
دونوں مریض دوائی لے کر چلے گئے۔ وہ سوٹڈبوٹڈ صاحب کار سے باہر نکلے اور
سلام کرکے بنچ پر بیٹھ گئے۔ حکیم صاحب نے کہا کہ اگر آپ نے اپنے لیے دوائی
لینی ہے تو ادھر سٹول پر آجائیں تاکہ میں آپ کی نبض دیکھ لوں اور اگر کسی
مریض کی دوائی لے کر جانی ہے تو بیماری کی کیفیت بیان کریں۔
وہ صاحب کہنے لگے حکیم صاحب میرا خیال ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ لیکن آپ
مجھے پہچان بھی کیسے سکتے ہیں؟ کیونکہ میں 15 سال بعد آپ کے مطب میں داخل
ہوا ہوں۔ آپ کو گزشتہ ملاقات کا احوال سناتا ہوں پھر آپ کو ساری بات یاد
آجائے گی۔ جب میں پہلی مرتبہ یہاں آیا تھا تو وہ میں خود نہیں آیا تھا۔ خدا
مجھے آپ کے پاس لے آیا تھا کیونکہ خدا کو مجھ پر رحم آگیا تھا اور وہ میرا
گھر آباد کرنا چاہتا تھا۔ ہوا اس طرح تھا کہ میں لاہور سے میرپور اپنی کار
میں اپنے آبائی گھر جا رہا تھا۔ عین آپ کی دکان کے سامنے ہماری کار پنکچر
ہو گئی۔
ڈرائیور کار کا پہیہ اتار کر پنکچر لگوانے چلا گیا۔ آپ نے دیکھا کہ میں
گرمی میں کار کے پاس کھڑا ہوں۔ آپ میرے پاس آئے اور آپ نے مطب کی طرف اشارہ
کیا اور کہا کہ ادھر آ کر کرسی پر بیٹھ جائیں۔ میں نے آپ کا شکریہ ادا کیا
اور کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔
ڈرائیور نے کچھ زیادہ ہی دیر لگا دی تھی۔ ایک چھوٹی سی بچی بھی یہاں آپ کی
میز کے پاس کھڑی تھی اور بار بار کہہ رہی تھی چلیں ناں، مجھے بھوک لگی ہے۔
آپ اْسے کہہ رہے تھے بیٹی تھوڑا صبر کرو ابھی چلتے ہیں۔
میں نے یہ سوچ کر کہ اتنی دیر سے آپ کے پاس بیٹھا ہوں۔ مجھے کوئی دوائی آپ
سے خریدنی چاہیے تاکہ آپ میرے بیٹھنے کو زیادہ محسوس نہ کریں۔ میں نے کہا
حکیم صاحب میں پانچ سال سے انگلینڈ میں ہوتا ہوں۔ انگلینڈ جانے سے قبل میری
شادی ہو گئی تھی لیکن ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔ یہاں بھی بہت
علاج کیا اور وہاں انگلینڈ میں بھی لیکن ابھی قسمت میں مایوسی کے سوا اور
کچھ نہیں دیکھا۔
آپ نے کہا میرے بھائی! توبہ استغفار پڑھو۔ خدارا اپنے خدا سے مایوس نہ ہو۔
یاد رکھو! اْس کے خزانے میں کسی شے کی کمی نہیں۔ اولاد، مال و اسباب اور
غمی خوشی، زندگی موت ہر چیز اْسی کے ہاتھ میں ہے۔ کسی حکیم یا ڈاکٹر کے
ہاتھ میں شفا نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی دوا میں شفا ہوتی ہے۔ شفا اگر ہونی
ہے تو اللہ کے حکم سے ہونی ہے۔ اولاد دینی ہے تو اْسی نے دینی ہے۔
مجھے یاد ہے آپ باتیں کرتے جا رہے اور ساتھ ساتھ پڑیاں بنا رہے تھے۔ تمام
دوائیاں آپ نے دو حصوں میں تقسیم کر کے دولفافوں میں ڈالیں اور پھر دوائی
استعمال کرنے کا طریقہ بتایا۔ میں نے بے دلی سے دوائی لے لی کیونکہ میں تو
صرف کچھ رقم آپ کو دینا چاہتا تھا۔ لیکن جب دوائی لینے کے بعد میں نے پوچھا
کتنے پیسے؟ آپ نے کہا بس ٹھیک ہے۔ میں نے زیادہ زور ڈالا، تو آپ نے کہا کہ
آج کا کھاتہ بند ہو گیا ہے۔
میں نے کہا مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی۔ اسی دوران وہاں ایک اور آدمی
آچکا تھا۔ اْس نے مجھے بتایا کہ کھاتہ بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آج کے
گھریلو اخراجات کے لیے جتنی رقم حکیم صاحب نے اللہ سے مانگی تھی وہ اللہ نے
دے دی ہے۔ مزید رقم وہ نہیں لے سکتے۔ میں کچھ حیران ہوا اور کچھ دل میں
شرمندہ ہوا کہ میرے کتنے گھٹیا خیالات تھے اور یہ سادہ سا حکیم کتنا عظیم
انسان ہے۔ میں نے جب گھر جا کربیوی کو دوائیاں دکھائیں اور ساری بات بتائی
تو بے اختیار اْس کے منہ سے نکلا وہ انسان نہیں کوئی فرشتہ ہے اور اْس کی
دی ہوئی ادویات ہمارے من کی مراد پوری کرنے کا باعث بنیں گی۔ حکیم صاحب آج
میرے گھر میں تین پھول اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔
میں جب 15 سال قبل میں نے یہاں آپ کے مطب میں آپ کی چھوٹی سی بیٹی دیکھی
تھی تو میں نے بتایا تھا کہ اس کو دیکھ کر مجھے اپنی بھانجی یاد آرہی ہے۔
حکیم صاحب ہمارا سارا خاندان انگلینڈ سیٹل ہو چکا ہے۔ صرف ہماری ایک بیوہ
بہن اپنی بیٹی کے ساتھ پاکستان میں رہتی ہے۔ ہماری بھانجی کی شادی اس ماہ
کی بارہ تاریخ کو ہونا تھی۔ اس بھانجی کی شادی کا سارا خرچ میں نے اپنے ذمہ
لیا تھا۔ دس دن قبل اسی کار میں اسے میں نے لاہور اپنے رشتہ داروں کے پاس
بھیجا کہ شادی کے لیے اپنی مرضی کی جو چیز چاہے خرید لے۔ اسے لاہور جاتے ہی
بخار ہوگیا لیکن اس نے کسی کو نہ بتایا۔ بخار کی گولیاں ڈسپرین وغیرہ کھاتی
اور بازاروں میں پھرتی رہی۔ بازار میں پھرتے پھرتے اچانک بے ہوش ہو کر گری۔
وہاں سے اسے ہسپتال لے گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس کو 102 ڈگری بخار
ہے اور یہ گردن توڑ بخار ہے۔ وہ بے ہوشی کے عالم ہی میں اس جہانِ فانی سے
کوچ کر گئی۔
اْس کے فوت ہوتے ہی نجانے کیوں مجھے اور میری بیوی کو آپ کی بیٹی کا خیال
آیا۔ ہم میاں بیوی نے اور ہماری تمام فیملی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی
بھانجی کا تمام جہیز کا سامان آپ کے ہاں پہنچا دیں گے۔ شادی جلد ہو تو اس
کا بندوبست خود کریں گے اور اگر ابھی کچھ دیر ہے تو تمام اخراجات کے لیے
رقم آپ کو نقد پہنچا دیں گے۔ آپ نے ناں نہیں کرنی۔ آپ اپنا گھر دکھا دیں
تاکہ سامان کا ٹرک وہاں پہنچایا جا سکے۔
حکیم صاحب بہت حیران ہوئے اور کہا کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں
آرہا۔ میں نے تو آج صبح جب بیوی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی چِٹ یہاں آ کر کھول
کر دیکھی تو مرچ مسالہ کے بعد جب میں نے یہ الفاظ پڑھے بیٹی کے جہیز کا
سامان تو آپ کو معلوم ہے میں نے کیا لکھا۔ آپ خود یہ چِٹ ذرا دیکھیں۔ صاحب
یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بیٹی کے جہیز کے سامنے لکھا ہوا تھا یہ کام
اللہ کا ہے، اللہ جانے۔
صاحب یقین کریں، آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ بیوی نے چِٹ پر چیز لکھی
ہو اور مولا نے اْس کا اسی دن بندوبست نہ کردیا ہو۔ واہ مولا واہ۔ تو عظیم
ہے تو کریم ہے۔ آپ کی بھانجی کی وفات کا صدمہ ہے لیکن اْس کی قدرت پر حیران
ہوں کہ وہ کس طرح اپنے معجزے دکھاتا ہے۔
اسی طرح ہمیں بھی کبھی نا امیدنہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیشہ خدا پر یقین
رکھنا چاہیے ، پتہ نہیں وہ کب اور کیسے ہماری مدد کر دے۔
|