نفسِ ذکیہ - قسط٢٥

دلاور کو اپنے سارے گھر والوں پر بے حد غصہ آ رہا تھا۔ مزے سے ساری زندگی گزاری تھی۔ اچانک سارے معاملات خراب ہو گئے۔ صرف اور صرف بھائیوں کی آپس کی چپکلش کے باعث۔۔۔
’’نہ یہ بٹوارہ ہوتا نہ ہی اسٹور کا کام ٹھپ ہوتا۔۔۔‘‘ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔ وہ گاڑی دوڑائے ایک رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کے پاس جا رہا تھا۔
’’سکون سے سب مل جل کر رہتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔۔۔‘‘ اسے بہت غصہ آ رہا تھا۔ وہ اپنے خراب حالات کی ساری وجہ بھائیوں کے جھگڑے اور بٹوارے کو قرار دیتا تھا۔ اب بھی یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ اسے خود محنت کرنی چائیے ۔ اس کے بگڑتے حالات کی ساری وجہ در اصل کچھ اور نہیں بلکہ خود اس کی غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری ہے۔ نہ اس نے خود کو بدلتے حالات میں ڈھالنے کی کوشش کی نہ ہی اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کی۔

دلاور نے ایک رئیل اسٹیٹ ایجنٹ سے ٹائم لیا ہوا تھا۔ اسٹور کا بزنس ٹھپ ہونے کا بہترین سلوشن اس نے یہ نکالا کہ اپنا اسٹور بیچ ڈالے۔ اسٹور مین مارکٹ میں تھا اورپرانی کاروباری جگہ تھی۔ اسے بڑا زعم تھا کہ اسے منہ منگی قیمت مل جائے گی ۔ بس پھر وہ ساری رقم بینک میں جمع کرا دے گا اور سود کھاتا رہے گا۔ یہی اس کا پلان تھا۔

’’چار کروڑ میں یہ اسٹور بکوا دیں آپ؟؟؟‘‘ دلاور جانے کس دنیا میں رہتا تھا۔ اس اسٹور کی قیمت ذیادہ سے ذیادہ ایک کروڑ روپے تھی۔ وہ بھی اگر کوئی شوقین قسم کا گاہک آ جاتا۔
’’چار کروڑ۔۔۔ ا م م م۔۔۔‘‘ اسٹیٹ ایجنٹ نے حیران کن نظروں سے دلاور کو دیکھا۔ شاید وہ سوچ میں پڑ گیا تھا کہ یہ کوئی مذاق ہو رہا ہے یا واقعی اس کے کان کوئی سنجیدہ بات سن رہے ہیں۔
’’اتنی۔۔۔ اتنی ۔۔۔ قیمت تو مارکٹ میں نہیں چل رہی آج کل۔۔۔؟؟؟‘‘ اس نے قدرے رک رک کر بات کی۔
’’نہیں چل رہی ؟؟؟ کیوں؟؟؟ بھائی میرا چلتا ہوا کاروبار ہے۔۔۔ مین مارکٹ میں پرانی دکان ہے۔۔۔‘‘ دلاور بولا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے پر اب فیضون مال ساتھ ہی بن چکا ہے۔۔۔ اس میں جدید سہولیات موجود ہیں۔ تمام کاروباری لوگ اب وہاں کا رخ کر رہے ہیں۔ مگر جو قیمت آپ لگا رہے ہیں اس میں تو مال بننے سے پہلے بھی کوئی ڈیل نہ ہوتی۔۔۔‘‘ اسٹیٹ ایجنٹ نے مزید وضاحت کی۔ دلاور نے اس کی بات سن کر منہ ٹیڑھا کر لیا اور ان سے اور بحث کرنے لگا۔
’’اچھا چلیں۔۔۔ جو بھی قیمت لگی میں آپ کو اطلاع دے دوں گا۔‘‘ اسٹیٹ ایجنٹ دلاور کی باتوں سے سمجھ گیا تھا کہ کسی کھلنڈرے اور نا سمجھ انسان سے پالا پڑ گیا ہے۔ لہذا اس نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات ختم کر دی۔ دلاور نے اپنا کانٹیکٹ نمبر اسے دیا اور وہاں سے چلتا بنا۔
۔۔۔۔۔۔۔

وہ میرا ’’روشن‘‘ میں آخری دن تھا۔ میں بہت خوش تھا کہ دوبارہ سے سب کچھ نارمل ہو گیا ہے۔ میں بہت ایکسائٹڈ بھی تھا کہ پہلے کی طرح سب سے مل سکوں گا۔۔۔ باہر جا سکوں گا۔۔۔ بزنس سنبھالوں گا۔۔۔ کوئی دو ماہ میں نے ’’روشن‘‘ میں گزارے تھے۔بے شک مجھے وہاں سے بہت انسیت ہو گئی تھی۔ وہاں گزارے ہوئے دن ایک انمول تجربہ ثابت ہوئے تھے۔ یہی سچ تھا۔ اس دنیا میں ہمیں سب کچھ سکھایا جاتا ہے۔ کھانا کیسے ہے۔ پینا کیسے ہے۔ پڑھنا کیسے ہے۔ لوگوں سے ملنا کیسے ہے۔ بات کیسے کرنی ہے۔ پڑھائی کیسے کرنی ہے۔ بزنس کیسے کرنا ہے۔ مگر کوئی ہمیں باقائدہ اس چیز کی تعلیم نہیں دیتا کہ آخر ’’جینا کیسے ہے!!!‘‘ زندگی کے سرد و گرم سے کیسے نبردآزما ہونا ہے! کوئی مشکل آ جائے تو کیسے اس پر قابو پانا ہے! کوئی نا معقول شخص ٹکرا جائے تو کیسے اس سے نمٹنا ہے! خوش رہنے کا فارمولہ کیا ہے! صحت مند کیسے رہا جا تاہے! اپنے جزبات کو کیسے اپنے قابو میں رکھنا ہے! اور اندرونی امن و سکون کیسے حاصل کرنا ہے!

لوگ ساری عمر ٹھوکریں کھا کھا کر یہ سب سیکھتے ہیں جب وہ ایک ٹوٹی پھوٹی شخصیت پہلے ہی بن چکے ہوتے ہیں۔ مگر ’’روشن‘‘ نے مجھے جینے کا ڈھنگ سکھایا۔ وہ گُر بتلا دئیے کہ زندگی گزارنا آسان ہو جائے۔ وہ اوزار اور ہتھیار دے دئیے کہ جنہیں استعمال کر کے ہم مشکلات کا سامنا با خوبی کر سکتے ہیں۔ اب یہ ہم ہی پر منحصر تھا کہ ہم ان اوزاروں کو با وقتِ ضرورت استعمال کر یں۔

سب سے پہلے تو میں نے طے کر لیا تھا کہ میں ہمیشہ اپنے حال میں جیوں گا۔ نہ ماضی کو کریدوں گا اور نہ ہی ہمہ وقت اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہوں گا۔
دوم یہ کہ میں نماز روزے کی ہمیشہ پابندی کروں گا۔ ویسے بھی دو ماہ سے باقائدگی سے نماز ادا کرنے کی وجہ سے مجھے نماز پڑھنے کی عادت ہو گئی تھی۔
پھر میں نے نماز کے ساتھ سانس کی مشق اور اللہ کا ذکر بھی شامل کر لیا تھا۔ ہر سانس میں یہی تصور کرتا کہ اللہ کا ذکر کر رہا ہوں۔ یہی میرا مراقبہ ہو جاتا۔
میں نے یہ بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ خدمتِ خلق کو اپنی زندگی کا ایسے حصہ بنا لوں گا جیسے نماز کی فرضیت ہوتی ہے۔ ایک پھولوں کا گلدستہ روز کسی کو پیش کرنے سے مجھے جتنا سکون ملتا تھا وہ بیان سے باہر ہے۔۔۔ میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ پریشان حال لوگوں کی پریشانی کو دور کرنے کی کوشش میں لگا رہوں گا۔
ایک اور بات جو میرے ذہن میں فٹ ہہو گئی تھی وہ یہ تھی کہ بندہ کسی سے امیدیں نہ لگائے۔کیونکہ دکھ امیدوں کے ٹوٹنے سے ملتا ہے۔ بجائے کسی سے امیدیں لگانے کیسب کے ساتھ بے لوث تعلق رکھے۔ کوئی کسی دوسرے کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ جتنی لمبی کسی دوسرے سے امیدیں لگائی جائیں گی۔ اتنا ہی بڑا غم اسے ملے گا۔
انسان ہمیشہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر گزار رہے اور لوگوں سے اللہ کی دی ہوئی نعمتیں بیان کرتاہے۔ اللہ نے کسی کو آزمائش میں ڈالا ہے تو بے پناہ نعمتوں سے بھی اسے نوازا ہے۔ وہ ان نعمتوں کو بھی یاد رکھے اور ان کا تذکرہ کرتا رہے۔
خود کو فطرت کے قریب کرے ۔ قدرتی ماحول میں بھی وقت گزارے۔ کھانے پینے میں احتیاط کرے۔ لڑکیاں سبزیاں ذیادہ کھائیں تا کہ ان میں نزاکت اور معصومیت ابھریں اور مرد گوشت کھائیں تا کہ ان میں شجاعت ، طاقت اور جوش پیدا ہو۔جسمانی ورزش کو یوں اپنے روٹین میں شامل کر لیں جیسے روز دانت صاف کرتا ہے یا اپنے نہانے دھونے کا خیال رکھتا ہے۔
اور ان سب باتوں پر عمل کرنے کے لئے ہر وقت اللہ سے مدد کے طلب گار رہیں۔

تمام گھر والے ’’روشن‘‘ میں مجھے لینے آ پہنچے تھے۔ ڈاکٹر ذیشان بھی بہت خوش تھے کہ میں مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا ہوں اور واپس گھر جا رہا ہوں۔ انہوں نے سختی سے میرے گھر والوں کو تاکید کی تھی کہ میرے ماضی کے بارے میں کبھی مجھ سے کوئی سوال جواب نہ کریں نہ ہی کبھی فوزیہ کا کوئی تذکرہ کریں۔ اسی طرح انہوں نے گھر والوں پر زور دیا تھا کہ جتنا جلدی ممکن ہو سکے میری شادی بھی کروا دیں۔

’’روشن‘‘ کا ایک اسٹاف ممبر مجھے لے کر ڈاکٹر ذیشان کے کمرے میں آ داخل ہوا۔ سب گھر والے وہیں موجود میرے منتظر تھے۔

’’السلام علیکم!‘‘ میں سب کو دیکھ کر بے اختیار تیز تیز چلتا ہوا ان کے گلے لگ گیا۔ پہلے امی ابو کے گلے ملا۔ پھر اسد سے ملا پھر بہنوں کو گلے لگایا۔ سب مجھ سے مل کر بے پناہ خوش ہو رہے تھے۔ سب کی بانچھیں کھلیں ہوئیں تھیں۔ ڈاکٹر ذیشان کے ٹیبل پر دو تین گفٹس کے ڈبے رکھے ہوئے تھے ۔ لال پیلے نیلے ڈبے۔۔۔ بہنوں اور امی نے آگے بڑھ کر وہ تحائف اٹھائے اور باری باری مجھے دینے لگے۔ ڈاکٹر ذیشان نے بھی خوش ہو کر تالیاں بجا دیں۔ سب نے ان کے دیکھا دیکھا تالیاں بجانی شروع کر دیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میری سالگرہ منائی جا رہی ہو ۔ ہاں ! شاید اس دن میرا نیا جنم ہی ہوا تھا۔

دس پندرہ منٹ اور وہاں ٹھہر کر سب ڈاکٹر ذیشان کے کمرے سے باہر نکلنے لگے۔ ڈاکٹر ذیشان بھی ساتھ ہی نکلے۔ ہم سات آٹھ لوگوں کا گروپ مختلف راہداریوں سے گزرتا ہوا ’’روشن‘‘ کے خارجی دروازے تک جا رہا تھا۔ رستے میں جو جو نظر آتا میں بڑھ بڑھ کر اس سے ملتا اور جوش و خروش سے اس کا شکریہ ادا کرتا اور دعاؤں کی درخواست کرتا۔ ابو جان نے جاتے جاتے ایک صفائی کرنے والے کو کچھ روپے خیرات دے دئیے۔ امی نے بھی پرس میں ہاتھ ڈال کر کچھ روپے نکالے اور میرے سر سے گھما کر ایک اور شخص کے ہاتھوں میں تھما دئیے۔

ڈاکٹر ذیشان ہمارے ساتھ پارکنگ تک آئے۔ آخری بار مجھ سے گلے ملے اور مختلف نصیحتیں کرتے رہے۔ ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں کئی سال بعد کسی بیرون ملک سے واپس اپنے گھر آ رہا ہوں۔ ہماری گاڑی چل پڑی۔ مغرب ہونے کو تھی۔ ڈاکٹر ذیشان تب تک ہماری گاڑی کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلاتے رہے جب تک کہ ہم سب ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔

سارے گھر کو ایسے سجایا گیا تھا جیسے کوئی تہوار ہو۔ اچھی طریقے سے صفائی کی گئی تھی۔ پیارے پیارے لیمپس جلائے گئے تھے۔ بہت سے تازہ پھول گلدانوں میں سجائے گئے تھے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ایک فرحت بخش خوشبو آئی۔ میں نے مسکرا کر سب گھر والوں کو دیکھا جو میرے ادر گرد خوشی خوشی مجھے لئے گھر میں داخل ہو رہے تھے۔ اتنے عرصے بعد میں اپنے گھر آ رہا تھا۔ بڑا عجیب سا احساس تھا۔ گھر کی ساری باتیں ، یہاں کی ساری چیزیں ذہن میں کہیں دور چلی گئیں تھی۔ سب کچھ دیکھتے ہی سب یادآنے لگا۔ حالانکہ چالیس دن کوئی بہت ذیادہ عرصہ نہیں ہے۔ مگر پھر بھی سب کچھ نیا نیا سا لگا۔

ہم سب وہیں گھر کے مین ہال بیٹھ گئے اور بہنیں کچن میں کچھ کھانے پینے کی تیاریاں کرنے چلی گئیں۔ کچھ ہی دیر میں بہنیں ایک بڑا سا کیک ، فروٹ چاٹ، چنا چاٹ اور بسکٹ وغیرہ دو تین ٹرے میں رکھ کر واپس آ گئیں۔ امی بھی چائے کی کیتلی لے آئیں۔ سب بہت خوش تھے۔ اِدھرْ ادھر کی ہلکی پھلکی باتیں کر کے چائے اور کیک وغیرہ کھانے لگے۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دروازے پر بیل بجی۔
’’لگتا ہے مجدی بھائی آئے ہوں گے!‘‘ اسد بولا اور اٹھ کر باہر دروازہ کھولنے چلا گیا۔
وہ اسد اور دلاور ہی تھے۔ میں دونوں کو دیکھ کر فورََ اٹھا آگے بڑھ کر ان سے گلے ملا۔
’’ہاں بھئی واپس آ گئے آپ؟؟؟‘‘ دلاور نے جوشیلے انداز میں کہا۔ مجدی بھی ہنسا۔

’’آؤ بیٹا بیٹھو۔۔۔‘‘ ابو جان نے دلاور اور مجدی کو صوفے پر بیٹھنے کا کہا۔ امی اور بہنیں اندر چلی گئیں۔
دلاور اور مجدی سے بھی بہت دنوں بعد آزادی سے ملنے کا موقع مل رہا تھا۔ ورنہ روشن میں تومشکل سے آدھے ایک گھنٹے کی ملاقات ہی ہو پاتی تھی۔
’’کل ڈنر ساتھ کریں گے۔ دو دریا پر ۔۔۔‘‘
’’ تیار رہنا!‘‘ دلاور اور مجدی کل کا پروگرام ساتھ لے کر آئے تھے۔ سمندر کے کنارے بنے ایک ریسٹورنٹ میں انہوں نے دوسرے دن ڈنر کا پروگرام بنا رکھا تھا۔
’’شام کو ہی ہم تمہیں پک کر لیں گے۔ تھوڑا گھومیں پھریں گے پھر رات کا کھانا۔۔۔‘‘ مجدی بولا۔
’’ارے یار !اس کی کیا ضرورت تھی۔۔۔‘‘ میں نے تھوڑا فارمل بن کر جواب دیا۔
’’ہاہاہا۔۔۔ ذیادہ فارمل بننے کی ضرورت نہیں۔۔۔‘‘ دلاور بولا اور ہم سب ہنسنے لگے۔

کچھ اور دیر یونہی گپ شپ چلتی رہی ۔ پھر دلاور اور مجدی وہاں سے رخصت ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے دن میں نے شام کو دلاور کو گھر بلا لیا۔ پلان تھا کہ دلاور کے ساتھ گھر سے نکلوں گا پھر مجدی بھی آ جائے گا۔ ویسے بھی اب وہ پہلے والی بات تھوڑی رہی تھی کہ مجھے یا دلاور کو مجدی کو پک کرنا ہوتا۔ اب تو اس کے پاس اپنی ایک برینڈ نیو کار تھی۔ بہت ایکسائٹڈ تھا میں کہ اتنے دنوں بعد پھر سے دوستوں کے ساتھ گھومنے پھر نے جا رہا ہوں۔ پچھلے سال بھر میں جو کچھ بھی ہوا تھا میں سب ایسے بھول چکا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ جانے کیا جادو کر دیا تھا ڈاکٹر ذیشان نے مجھ پر۔۔۔ ان کی تھیرپیز ہی ایسی تھیں۔۔۔ جیسے ایک نئی روح پھونک دی گئی ہو مجھ میں۔۔۔ جینے کا ایک نیا ڈھنگ آ گیا ہوا۔حقیقتاََ میرا دماغ میرے ماضی کے بارے میں چاہ کر بھی نہیں سوچ پا رہا تھا۔ میں صرف اور صرف اپنے حال میں جینا چاہتا تھا جو لمحہ ابھی میری مٹھی میں تھا بس اسی کو پوری توجہ دینا چاہتا تھا اور بس۔۔۔

میں نے بڑے اہتمام سے ایک بلو کلر کی سلم فٹ جینز نکالی اور اس پر ایک ہلکے پیلے رنگ کی ٹی شرٹ پہن لی۔ میری صاف ستھری رنگت پر یہ کلرز خوب کھلتے تھے۔ پھر میں نے ایک اچھا سا پرفیوم نکال کر اپنے اوپر چھڑک دیا۔ اچانک موبائیل پر رنگ ٹون بجنے لگی ۔ میں نے موبائیل کی اسکرین پر دلاور کا نام پڑھا ۔ شاید وہ مجھے لینے آ پہنچا تھا۔

’’ہاں۔۔۔ پہنچ گئے؟؟؟‘‘ میں نے فون اٹھاتے ہی پوچھا۔
’’ہاں جانی! میں باہر کھڑا ہوں۔۔۔‘‘ دلاور پہنچ چکا تھا۔ میں نے جلدی جلدی شوز پہنے اور باہر کی طرف لپکا۔
اس کی گاڑی باہر میرا انتظار کر رہی تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور گاڑی میں گھس کر بیٹھ گیا۔
’’اسلام و علیکم!‘‘ ہم دونوں نے جوش وخروش سے ایک دوسرے کو سلام کیا۔ دلاور مجھے غور غور سے دیکھ رہا تھا۔ شاید وہ بھی خوش تھا کے میں بالکل پہلے جیسے ہو گیا ہوں۔ وہ پہلے مجھے کٹی پٹی زخمی و بیمار حالت میں دیکھ چکا تھا۔ جب میری آنکھوں کے گرد ہلکے پڑ گئے تھے۔ گال اندر کو دھنس گئے تھے۔ میں مسکرانا تک بھول گیا تھا۔ اپنے آپ کو برباد کرنا چاہتا تھا۔ مگر اس وقت میں پھر سے ویسا ہی ہنس مکھ اور تندرست و توانا ہو گیا تھا۔ بلکہ پہلے سے بھی کئی گنا بہتر سمجھو۔۔۔

’’۔۔۔ اور سناؤ تمہارا کیا بنا؟؟؟ بھائیوں سے ملنا جلنا ہے یا۔۔۔؟؟؟‘‘ گاڑی چل پڑی۔ میں نے سوچا اپنی غیر موجودگی میں ہونے والے حالات و واقعات کا اتا پتا کر لوں۔
’’ارے نہیں یار۔۔۔‘‘ دلاور نے کہا اور ساتھ ہی ایک گندی گالی بھی بک دی۔ اچانک وہ چڑ سا گیا۔
’’کیوں کیا ہو گیا؟؟؟ خیر ہے؟؟؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’بس یار کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔۔ بھائیوں کی تو شکل بھی دیکھنے کا دل نہیں چاہتا کبھی کبھار امی سے فون پر بات ہو جاتی ہے اور بس۔۔۔ دکان کا کام بھی ٹھپ ہو گیا ہے۔ میں بیچ رہا ہوں اسٹور۔۔۔‘‘ دلاور نے کہا اور میں مزید حیرت میں ڈوب گیا۔
’’ہیں۔۔۔ بیچ رہے ہو!!!‘‘
’’کیوں؟ ایسا کیا ہو گیا؟؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔
’’بس یار چھوڑے۔۔۔ سالے۔۔۔‘‘ دلاور نے اسٹور پر کام کرنے والوں کو بہت سی گالیوں سے نوا ز دیا۔
’’میں زرا ملک سے باہر تھا اور انہوں نے سارا کام خراب کر دیا۔۔۔ مطلب۔۔۔ مطلب۔۔۔ کام صحیح طرح نہیں سنبھالا۔۔۔‘‘ مجھے دلاور کا یہ جواب بہت عجیب سا لگا۔ بزنس اس کا تھا اور وہ دوسروں سے اسے سنبھالنے کی توقع کئے بیٹھا تھا۔
’’تو تم کہاں نکل گئے تھے؟؟‘‘ میں نے بال کی کھال اتارنی شروع کردی۔
’’ا م م م۔۔۔ میں امریکہ گیا ہوا تھا یار۔۔۔!!!‘‘ دلاور نے بتایا ۔ اس کے ہونٹوں پر ایک شریر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ میں سب سمجھ گیا کہ اصل کاہلی اور بیوقوفی اِسی باؤلے کی ہے اور گالیاں دوسروں کو بَک رہا ہے۔میں خوب جانتا تھا اْسے۔۔۔
’’خیر ڈونٹ ووری۔۔۔ میں نے چار کروڑ قیمت لگائی ہے اسٹور کی۔۔۔ اسٹور بک جائے تو پھر کبھی کام ہی نہیں کروں گا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔‘‘ ویسے کونسا دلاور نے کبھی کام کیا تھا جو اب کرتا۔ مجھے اس کے منصوبے سن کر کوفت ہونے لگی۔
’’چار کروڑ۔۔۔‘‘ میں نے حیرانگی سے کہا۔ ’’چار کروڑ میں بک جائے گا اسٹور؟؟؟‘‘ میں تو کاروباری آدمی تھا۔ مجھے پتا تھا اس لوکیشن کا۔ ایک کروڑ سے ذیادہ قیمت نہیں تھی اس جگہ کی۔
’’ہاں یار ۔۔۔ کیوں نہیں!!! اتنا پرانہ اسٹور ہے۔۔۔ کب سے کاروبار چل رہا ہے۔ ضرور بک جائے گا۔‘‘ دلاور کے بوسیدہ دلائل سن کر میرے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
’’او بھائی! تم بزنس سمیت تھوڑی بیچ رہے ہو۔۔۔ صرف ایک خالی اسٹور کی قیمت اتنی کوئی نہیں دے گا۔‘‘ میں نے دلاور کو حقیقت سے آشنا کرنا چاہے۔
’’ارے یار! تم دعا کرو بس ۔ بِک جائے گا۔‘‘ دلاور نے اْکتا کر کہا۔
’’ اچھا اب یہ کاروباری باتیں چھوڑو۔۔۔ ہم تمہیں آج موج مستی کرانے گھر سے نکال لائیں ہیں۔۔۔ یہ روکھی سوکھی باتیں بعد میں کر لیں گے۔‘‘ میں نے پھر کوئی بات نہ کی۔ مگر مجھے دلاور کا ڈارک فیوچر صاف نظر آ رہا تھا۔ نظر آ رہا تھا کہ اگر اس وقت اسے مخلصانہ اور سنجیدہ گائڈ لائن نہ دی گئی تو وہ دیوالیہ ہو جائے گا۔

بہر حال ہم سی ویو پہنچ گئے۔ پہلے ہم نے ایک اچھے سینما گھر میں فلم دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ دو گھنٹے کی فلم دیکھ کر ہم دو دریا چلے گئے۔ رات کے نو بج چکے تھے۔ دو دریا پربنے ایک معیاری ریسٹورنٹ میں دلاور نے پہلے سے ٹیبل بْک کروا رکھی تھی۔ ہم سمندر کے کنارے کے عین اوپر بنے لکڑی کے فرش پر رکھی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔ سامنے کھلا سمندر تھا ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ہم کسی بڑے سمندری جہاز کا سفر کر رہے ہوں۔ آسمان پر چاند چمک رہا تھا۔ چاند کا عکس سمندر کے پانی پرہلتا جلتا دل کو بہت بھلا لگ رہا تھا۔ ہماری ٹیبل کے عین کنارے پر نیچے لہریں ٹھاٹھے مار رہیں تھیں۔ ہم نے چکن قورمہ، سلاد، فش فرائی وغیرہ آڈر کی اور جی بھر کے کھانا کھایا اور خوش گپیاں کرتے رہے۔

ریسٹورنٹ سے فارغ ہو کر ہم سب وہیں بیچ پر والک کرتے سگریٹ پیتے رہے۔ مجدی نے بھی دلاور کے ہاتھوں سے ایک سگار چھین لیا اور اس کا کش لگانے لگا۔ مجدی کے بدلے ہوئے تیور مجھے صاف نظر آ رہے تھے۔اس کے کپڑے ۔۔۔ اس کی فٹ اینڈ اسمارٹ جسامت۔۔۔ ایک اچھی مہنگی گھڑی۔۔۔ دلاور کے ہاتھوں سے سگار چھین چھین کر پینا۔۔۔ بات بات میں انگلش میں بولنا۔۔۔ اور نئی گاڑی۔۔۔ کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ میں سب نوٹس کر رہا تھا۔

کوئی بارہ بجے سب کو جمائیاں آنے لگیں۔ دلاور اپنی گاڑی میں سوار ہو گیا اور میں مجدی کے ساتھ بیٹھ گیا۔

’’۔۔۔ کل آفس آ رہے ہو؟؟؟‘‘ گاڑی واپسی کا سفر طے کر رہی تھی۔ مجدی اب بھی میرے آفس اور اسٹور کا چکر لگاتا تھا۔ مگر اس کی اصل توجہ اب اس کی دوسری جاب پر ہی تھی۔ جس کے بارے میں اس نے سب کو بتا رکھا تھا کہ وہ کال سینٹر ہے۔
’’تمہارا کال سینٹر ہے کہاں؟؟؟‘‘ اب تک میں نے مجدی سے اس کی دوسری جاب کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش نہیں کی تھی۔ حالات ہی کچھ ایسے ہو گئے تھے۔ مجھے تو اپنی خبر نہیں تھی۔۔۔ مجدی کیا کر رہا تھا۔۔۔ کس حال میں تھا مجھے کیسے پتا چلتا۔۔۔
’’ام م م۔۔۔ یہ کلفٹن میں ہے۔‘‘ مجدی نے سرسری سا جواب دیا۔
’’سیلری وغیرہ اچھی دیتے ہیں؟؟؟‘‘ مجھے اندازہ تھا کہ کال سینٹر والے اتنی تنخواہ تو نہیں دیتے کہ چند ہی ماہ میں بندہ گاڑی نکال لے۔ اس لئے مجھے تجسس ہوا۔۔۔
’’آآآ۔۔۔ہاں۔۔۔ سیلری اچھی دیتے ہیں۔۔۔ اور تمہاری طرف سے بھی تنخواہ مل جاتی ہے اس لئے۔۔۔‘‘مجدی کہنا چاہ رہا تھا کہ وہ دو دو نوکریاں کر رہا ہے اس لئے گاڑی آسانی سے نکلوا لی ہے۔
کچھ دیر میں مجدی نے ایک میڈیکل اسٹور کے پاس گاڑی روک دی۔
’’یار مجھے کچھ دوائیاں لینی ہیں تم رکو۔۔۔‘‘ مجدی یہ کہہ کر گاڑی سے اتر گیا۔ میرے موبائیل کی چارجنگ ختم ہو رہی تھی۔ میں مجدی کی گاڑی میں اِدھرْ ادھر ہاتھ مارنے لگا کہ شاید اس نے گاڑی میں کوئی چارجر رکھا ہو۔ پھر میں نے اس کے ڈیش بورڈ میں بنا کیس کھول لیا۔ اس میں بہت سے پرچے رکھے تھے۔ میں نے اندر ہاتھ مار کر دیکھا تو وہاں بھی کوئی چارجر نہیں ملا۔ میں نے یونہی ایک پرچہ اٹھا کر دیکھ لیا۔ وہ یہت سے پمپفلٹس چھپے ہوئے تھے۔ لال اور سفید رنگ کے ۔۔۔ اور ان سب پر سب سے اوپر لکھا تھا:
’’ہاں میں ملحد ہوں۔‘‘ یہ الفاظ پڑھتے ہی میرے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
’’۔۔۔ملحد ہوں! یعنی بے دین۔۔۔ خدا کو نہ ماننے والا۔۔۔‘‘ میں بڑ بڑایا۔
’’اگر خدا اتنا ہی رحمن اور رحیم ہے تو وہ دنیا میں قحط کیوں بھیجتا ہے؟؟؟کیوں لوگوں کو بھوکا مارتا ہے؟ کیوں قاتلوں کو پکڑ کر عذاب نہیں دیتا؟؟؟ جنگیں کیوں ہوتی ہیں؟؟؟ دہشت گردی کیوں ہوتی ہے؟؟؟۔۔۔‘‘ جیسے جیسے میں یہ سارے الفاظ پڑھتا جاتا میرے کان لال ہوتے جاتے۔ عجیب گھٹن کا احساس ہونے لگا۔
’’۔۔۔ 2008 میں پاکستان میں زلزلہ آیا ۔۔۔ اللہ کہاں تھا؟؟؟‘‘
’’دہشتگردوں نے اسکول میں گھس کر بچوں کو شہید کیا۔۔۔ اللہ کہاں تھا؟؟؟‘‘
’’سومالیہ میں کتنے سالو ں سے قحط پڑا ہے۔۔۔ اللہ کہاں تھا؟؟؟‘‘
میرے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب تو نہ تھا مگر پھر بھی مجھے ان باتوں سے گھن آنے لگی۔
’’یہ کیا بات ہوئی کہ قحط اور زلزلے کیوں آتے ہیں!!! اللہ دہشت گردوں کو پکڑ کر مارتا کیوں نہیں ہے!!!‘‘ میں پھر منہ بنا کر بڑبڑایا۔
ظاہر ہے میں ایک مسلم اکثریت معاشرے میں پروان چڑھا تھا۔ وہ بھی ایسا معاشرہ جہاں نمازیں ترک کرنے پر کسی کو کوئی گھن نہیں آتی ، بینکوں سے سود کھا نے کو کوئی حرام نہیں سمجھتا، کرپشن اور اپنے سے کمزوروں کی کلائیاں موڑنے پر کسی کو اللہ کا خوف نہیں ہے ۔۔۔مگر جب کوئی ہمارے دین پر انگلی اٹھاتا ہے تب ہم بہت جزباتی ہو جاتے ہیں۔ اصل قصور تو ہمارا ہے کہ اللہ کے نظامِ حکومت کو اپنی سرزمین پر نافذ نہ کر سکے اور اب روتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے اور ویسا کیوں ہے۔ اگر ہمارا معاشرہ حقیقی اسلامی معاشرہ بن جائے تو ایسا معاشی سسٹم ہو کہ قحط بھی آ جائے تو کوئی بھوکا نہ مرے ، سب خوشحال اور امن و سکون سے رہیں ۔ سارا معاشرہ جنت بن جائے۔

میں نے ایک پمپفلٹ موڑ کر اپنی جیب میں ڈال دیا اور ایک دوسرا مزید پڑھنے لگا۔
اتنے میں مجدی واپس آ گیا۔ اس نے یک دم گاڑی کا دروازہ کھولا اور سیٹ پر بیٹھ گیا۔ میں بالکل خاموش تھا ٹکٹکی باندھے اس پمپفلٹ کو دیکھ رہا تھا۔
’’یہ تم نے کہاں سے نکال لیا!‘‘ مجدی نے اچک کر وہ پرچہ میرے ہاتھ سے چھین لیا۔
’’یہیں پڑا ہوا تھا۔۔۔‘‘ میں نے ڈیش بورڈ کی کھلی ہوئی دراز کی طرف اشارہ کیا۔ مجدی نے منہ بنا لیا اور ایک لمحے کو گاڑی کے شیشے سے باہر کو دیکھا۔
’’تو تم۔۔۔ ایتھیسٹ ہو گئے ہو؟؟؟‘‘ میں نے آہستگی سے پوچھا۔ میری آواز سے مایوسی چھلک رہی تھی۔
مجدی نے پہلے تو کوئی جواب نہ دیا۔ سپاٹ سا چہرا لے کر بیٹھا رہا ۔ پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

ٍِْْْْْمیں بھاری سا دل لے کر گھر واپس آیا۔جس رستے پر دلاور اور مجدی چل رہے تھے اس کا انجام تباہی اور بربادی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ دونوں ہی کی دنیا و آخرت تباہی کے دوراہے پر کھڑی تھی۔ دلاور تو پہلے سے ہی گناہوں کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا ۔ ا ب اس کی معاشی حالات بھی خراب ہوتے نظر آ رہے تھے۔ اور مجدی۔۔۔ مجدی اتنا بدل جائے گا۔۔۔ میرے تو وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی۔

کتنا اچھا اور نیک سیرت انسان تھا وہ۔ غیر مسلم ہونے کے باوجود بہت سے مسلمانوں سے اچھا اور نیک۔ کسے خبر تھی کہ اللہ اسے مزید ہدایت دے دیتا اور وہ تمام نبیوں پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ خاتم النبیین پر بھی ایمان لے آتا۔ مگر ہمارے معاشرے نے ہمیشہ اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا۔ بجائے اس کے کہ غیر مسلموں کے ساتھ اچھے سے اچھا برتاؤ کرتے تا کہ وہ ہم سے متاثر ہوتے۔ ہم لوگوں نے انہیں کسی اچھوت کی طرح دھکا مار دیا۔ الا ما شاء اللہ۔

جانے تقدیر میں مجدی کے لئے کیا لکھ رکھا تھا۔ اب وہ بے دین ہو گیا تھا۔خدا کے وجود کا ہی انکار کر چکا تھا۔ اس کے سوالوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ شاید اس لئے کے میں بھی تو محض ایک پیدائشی مسلمان تھا۔ یعنی مسلمان کے گھر پیدا ہو گیا تو مسلمان بن گیا۔ اگر میں بھی کسی کرسشن کے گھر پیدا ہو جاتا تو شاید کرسشن ہوتا۔ میں نے کب کبھی اپنے ایمان کو پرکھا تھا! کب اللہ کو جاننے کی کوشش کی تھی! اس کے دین کو سمجھنے میں وقت صرف کیا تھا! جو کچھ مجدی کے ساتھ ہوا اگر وہی سب میرے ساتھ ہوتا تو کون کہہ سکتا تھا کہ میں بھی اسی کی طرح ملحد ہو جاتا! معاذ اللہ!

مگر اب میں بہت بدل چکا تھا۔ ’’روشن‘‘ نے میرے اندا ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ ایک نیا جزبہ دل میں پروان چڑھ رہا تھا۔ خدمتِ خلق کا جزبہ۔۔۔ عام انسانوں سے اوپر اٹھ کر کچھ کر دکھانے کا جزبہ۔۔۔ اپنے آس پاس کے لوگوں کو تباہی و بربادی سے بچانے کا جزبہ۔۔۔ اور میرے لئے تو میرے دو سب سے قریبی دوست ہی مدد کے طلب گار تھے۔ میں ان کے حالات کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں دوسرے ہی دن ’’روشن‘‘ جا کر ڈاکٹر ذیشان سے ملوں گا اور ان سے اس معاملے میں رہنمائی لوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔
 

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 85350 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More