مکرمی ! معاشرے میں موجود مسائل کا ایک انبار لگا ہوا ہے
، ایسا بالکل بھی نہیں کہ اُن کے حل موجود نہ ہوں۔ دُنیا ایک قانون کے تحت
چل رہی ہے ، سورج روزانہ اپنے مقرّروقت میں ہی مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور
ایک خاص وقت کو غروب ہوجاتا ہے، اﷲ نے اس دُنیا کو بہت سارے قانون عطاکیئے
ہیں ۔ اسی میں ایک قانون طبیعات کا بھی ہے جو کہ فزیکل لاء کہلاتا ہے ، اس
قانون کے تحت انسان اپنے ظاہری کام انجام دیتا ہے اُسکی سادہ سی مثال یہ ہے
کہ آپ ورزش کرتے ہیں تو آپ کا جسم مضبوط رہتا ہے لیکن اگر آپ اس قانون کی
خلاف مرضی کریں گے تو ضرور آپ کے جسم میں درد پیدا ہوجائے گا، یہ محض ایک
جھلک ہے ورنہ اس قانون کے تحت تمام جسمانی کام انجام پاتے ہیں ۔ مثال کے
طور پر اگر آپ ایک کونے میں بیٹھ جائیں تو اور کوئی حرکت نہ کریں تو نہ صرف
بھوک بلکہ بہت ساری بیماریاں جنم لے لیں گی۔ اب بات کرتے ہیں معاشرتی مسائل
کی تو پہلے یہ سمجھ لیں کہ معاشرہ ہے کیا؟ محض لوگوں کا گروہ؟ نہیں بلکہ
معاشرہ بننے کیلئے تین بڑے عناصر درکار ہیں ، پہلا ۱ ایک جگہ، دوسرا ۲
لوگ اور تیسرا ۳ نظام۔ اب موجودہ صورتحال کی طرف آتے ہیں معاشرے میں بے
شمار مسائل موجود ہیں لیکن اگر ان میں بڑے مسائل کی جانب غور کیا جائے تو
پہلا۱ ناانصافی یعنی انصاف کا نہ ہونا، دوسرا ۲ تعصب و تشنیع یعنی آپس
میں نفرت و غصّہ اور تیسرا ۳ دولت کی غلط تقسیم۔ لیکن اگر آپ اپنے آپ سے
دیانتداری سے سوال کریں کہ ہم جس نظام میں زندگی گزاررہے ہیں کیا وہ نظام
درست ہے؟کیا ہمارے یا کسی بھی معاشرے کے مسائل کو حل کرنے کیلئے جمہوریت کا
نظام درست ہے؟ اس سوال کیلئے آپ جمہوریت کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگاکہ یہ
نظام اپنے دعوؤں سے ہی منحرف ہے ، اس کا سلوگن’ عوام کی حکومت ،عوام کی
جانب سے ، عوام کی طرف‘ خود اپنے اس دعوے پر اس طرح سے فوراً مُنہ پھیرلیتا
ہے اور چند نُمائندگان کا انتخاب کا کہہ دیتا ہے کہ عوام اپنے نُمائندے چُن
لے اور پھر خود ہی اپنے پسندیدہ نُمائندے عوام کے سامنے پیش کردیتا ہے اور
عوام اُسکے نُمائندوں کا انتخاب اپنے نُمائندے سمجھ کر کرلیتی ہے اور پھر
سُکون لے لیتی ہے کہ یہ لوگ ہمارے مسائل حل کریں گے حالانکہ اس بات سے کوئی
انکار نہیں کرسکتا کہ وہ مُنتخب نُمائندے سوائے اِکّا دُکّا اپنے مطلوبہ
مقاصد کو لوگوں کے مسائل پر ترجیح دینا شروع کردیتے ہیں اس بات سے انکار
نہیں کہ کچھ عرصے تک یہ نُمائندے چند ایک ظاہری مسائل کو حل کرنے کی کوشش
کرتے نظر آتے ہیں۔جبکہ اپوزیشن کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ کسی طرح موجودہ
حکومت کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتی رہے خود انہوں نے بھی کچھ کرنا نہیں
ہوتا محض زبان کو تکلیف دیتے نظر آتے ہیں اورکوئی بھی مسئلہ سامنے آتا ہے
تو حکومت و اپوزیشن کے لوگ بجائے مِل کر اقدام کریں ایک دوسرے پر الزام
تراشی کرنا شروع کردیتے ہیں اور کچھ لوگ اﷲ کے قانون پر اُنگلیاں اُٹھانا
شروع کردیتے ہیں اُس کے بندوں کی حرکتیں خود خراب ہیں اب ایسے میں طبیعاتی
قانون کیا کرے؟ فزیکل لاء ہو یا کوئی بھی قانون محض زبان ہلانے سے کوئی کام
انجام نہیں پاسکتا اس کیلئے حرکت ضروری ہے اور یہ قدم ہم نے ہی اُٹھانا ہے
مِل جُل کر ہی کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ کرنے کا کام صرف یہ
ہے کہ موجودہ نظام جو کہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون ہے اُسکی جگہ اﷲ کے
قانون ِ فطرت یعنی شریعت کی تگ و دو کرنی چاہیئے حرکت میں برکت ہے اور اِ س
کیلیئے ہمیں ہی قدم اُٹھانا پڑے گا۔ |