بچپن میں ایک کہانی پڑھا کرتے تھے جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔اس
ایک اخلاقی سبق سے متصل کئی کہانیاں تھیں جن کا ایک ہی مورل تھا ۔تب شاید
یہ بات سمجھ میں بھی نہیں آتی تھی کہ یہ سب کیسے ہوتا ہے۔کیونکہ بچپن تو بس
رٹنے کا نام ہوتا ہے تجربات تو عملی زندگی میں ہی سامنے آتے ہیں۔تو قارئین
بات ہو رہی تھی جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔بچھو پانی میں ڈوب رہا تھا کچھوے نے
اس کی جان بچائی اور پیٹھ پہ سوار کر لیا ۔ہانپتے کانپتے بچھو کے اوسان
بحال ہوئے اور زندگی کا مژدہ سنائی دیا تو اپنی فطرت پہ اتر آیا اور لگا
کچھوے کی پیٹھ ٹھوکنے وہ تو خیریت گذری کہ اللہ نے کچھوے کو ڈنک پروف جیکٹ
عطا کی ہے ورنہ اس کی زندگی کا بیڑہ پار ہو جاتا اور اس نیکی کے ساتھ خود
بھی دریا برد ہوجاتا ۔سو عقلمند کچھوے نے بچھو کی فطرت بھانپتے ہوئے
قلابازی کھائی اور گہرے پانی کا رخ کرتے ہوئے بچھو سے پیچھا چھڑایا اور
بچھو ڈوب کے مر گیا سو جیسی کرنی ویسی بھرنی۔مگر زندگی میں یہ فلسفہ دوسرا
رخ اختیار کر لیتا اور چند لوگوں کی ہلا شیری نا چاہتے ہوئے بھی سب کو
بھگتنی پڑتی۔اور اس پہ مصیبت یہ کہ پانچ سال کے لیے بھگتنی پڑتی ۔مجھے تو
وہ دن بہت یاد آتے جب حالات خراب ہونے پہ ۔سو کر اٹھنے پہ پتہ چلتا کہ
اسمبلیاں ٹوٹ گئیں اور مارشل لاء لگ گیا ۔تب پاکستان کے صدر بھی کافی ایکٹو
ہواکرتےتھے ۔اب تو سیاسی گٹھ جوڑ اور آئینی تبدیلیاں صدر صاحب کے جوڑوں میں
بیٹھ گئیں ہیں بس خاموشی سے ملک کا ستیاناس ہوتے دیکھتے رہیں یا تھری پیس
سوٹ پہن کر حکومتی محفلیں بھگتا لیں۔وہ کیا ہے ناں ہم اب عادی ہوگئے ہیں نہ
ظلم کے خلاف بولتے ہیں نہ ہاتھ روکتے ہیں اشارے کنائے کرتے ہوئے کنی کترا
جاتے ہیں۔جیسی روحیں ہیں ہم پہ ویسے ہی فرشتے مقرر کیے جائیں گے۔چار سال تو
روتے دھوتے گذر گئے تبدیلیوں اور انقلاب کا غلغلہ بھی کئی بار باسی کڑھی
میں ابال لایا اور موج مستی کر کے اپنے گھر سدھارا نہ بدلی تو عوام کی قسمت
آج بھی تھر میں غذائی قلت جبکہ وزیر کے دستر خوان پہ اٹھارہ بیس کھانے ۔آج
بھی کوڑے کے ڈھیر سے بھوک بدبودار خوراک سے پیٹ کی آگ بجھاتی۔آج بھی افلاس
کے ہاتھوں ماں باپ اپنے۔جگر گوشوں کو اپنے ہاتھوں سے موت کی نیند سلا دیتے
۔آج بھی خود کشیاں ہوتیں۔علاج معالجہ نہ ہونے کے سبب لوگ موت سے ہمکنار ہو
جاتے۔آج بھی ابلتے ہوئے گٹروں کا تعفن ہے۔آج بھی جائز کام کروانے کے لیے
عزتوں کی بولیاں لگتیں۔شرافت کونے میں کھڑی سسک رہی ہے اور ذلالت اعلی مسند
شاہی پہ براجمان ہے۔تعلیم فروٹ کی ریڑھی لگائے بیٹھی ہے اور جہالت اے سی
ٹھنڈک میں آرام کر رہی ہے۔کرسی نواز ان کی شان میں طربیہ محفلیں سجائے تماش
بین ہیں اور عوام پاؤں میں گھنگرو باندھے رقص کر رہی ہے۔کیا تبدیلی آئی
درحقیقت کچھ بھی نہیں ۔اس پہ خدا کا غضب کہ اب بھی عقل ناپید ہے اور اگلے
پانچ سالوں کے لیے ہم پھر آنکھوں دیکھی تعفن ذدہ مکھی نگلنے کو تیار بیٹھے
ہیں۔سچ ہے مومن ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا مگر شاید ہم حد سے
متجاوز کر گئے سو ہم پہ ہم سی اکھڑ حکومت ہی مسلط کر دی جائیگی۔جے۔آئی۔ٹی
کے فیصلے کی منتظر آنکھیں بھی پتھرا گئی ہیں نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو ہونے
وہی ڈھاک کے تین پات۔شکلیں اور نام تبدیل ہو سکتے روحیں نہیں۔
کیا حال پوچھتے ہو میرے روزگار کا
اندھوں کے شہر میں آئینے بیچتا ہوں۔
|