’دین حق‘ اور ’اقامتِ دین‘ کے
تصور میں بھی ہمارے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان اختلاف ہے۔ ہم دین کو
محض پوجا پاٹ اور چند مخصوص مذہبی عقائد و رسوم کا مجموعہ نہیں سمجھتے بلکہ
ہمارے نزدیک یہ لفظ طریق زندگی اور نظامِ حیات کا ہم معنی ہے، اور اس کا
دائرہ انسانی زندگی کے سارے پہلوؤں اور تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ ہم اس بات
کے قائل نہیں ہیں کہ زندگی کو الگ الگ حصوں میں بانٹ کر الگ الگ نظریات اور
الگ الگ اسکیموں کے ماتحت چلایا جاسکتا ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اس طرح کی
تقسیم اگر کی بھی جائے تو وہ قائم نہیں رہ سکتی، کیونکہ انسانی زندگی کے
مختلف پہلو، انسانی جسم کے اعضا کی طرح ایک دوسرے سے ممیز ہونے کے باوجود
آپس میں اس طرح پیوستہ ہیں کہ وہ سب مل کر ایک کُل بن جاتے ہیں اور ان کے
اندر ایک ہی روح جاری و ساری ہوتی ہے۔ یہ روح اگر خدا اور آخرت سے بے نیازی
اور تعلیمِ انبیا سے بے تعلقی کی روح ہو تو پوری زندگی کا نظام ایک دینِ
باطل بن کر رہتا ہے اور اس کے ساتھ خدا پرستانہ مذہب کا ضمیمہ اگر لگا کر
رکھا بھی جائے تو مجموعی نظام کی فطرت بتدریج اس کو مضمحل کرتے کرتے آخرکار
بالکل محو کردیتی ہے۔ اور اگر یہ روح خدا و آخرت پر ایمان اور تعلیمِ انبیا
کے اتباع کی روح ہو تو اس سے زندگی کا پورا نظام ایک دینِ حق بن جاتا ہے جس
کے حدود عمل میں ناخدا شناسی کا فتنہ اگر کہیں رہ بھی جائے تو زیادہ دیر تک
پنپ نہیں سکتا۔
اس لیے ہم جب ’اقامتِ دین‘ کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب محض
مسجدوں میں دین قائم کرنا، یا چند مذہبی عقائد اور اخلاقی احکام کی تبلیغ
کر دینا نہیں ہوتا، بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ گھر اور مسجد،
کالج اور منڈی، تھانے اور چھاؤنی، ہائی کورٹ اور پارلیمنٹ، ایوانِ وزارت
اور سفارت خانے، سب پر اُسی ایک خدا کا دین قائم کیا جائے جس کو ہم نے اپنا
رب اور معبود تسلیم کیا ہے، اور سب کا انتظام اُسی ایک رسول کی تعلیم کے
مطابق چلایا جائے جسے ہم اپنا ہادیِ برحق مان چکے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر
ہم مسلمان ہیں تو ہماری ہر چیز کو مسلمان ہونا چاہیے۔ اپنی زندگی کے کسی
پہلو کو بھی ہم شیطان کے حوالے نہیں کرسکتے۔ ہمارے ہاں سب کچھ خدا کا ہے
شیطان یا قیصر کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
(’اشارات‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۴، عدد۶، ذی الحجہ
۱۳۶۹ھ، اکتوبر ۱۹۵۰ء، ص۴۔۵) |