حضرت نوح علیہ السلام کو اس وقت قوم کے پاس رسول بنا کر
بھیجا گیا جب اُن میں شرک اور بُت پرستی عروج پر پہنچ گئی تھی اور پانچ
بتوں ( دو ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر ) کو اپنا خدا بنا لیا تھا۔ آپ
علیہ السلام نے دعوت توحید شروع کی تو محض چند لوگ ایمان لائے اور جن کے
دلوں پر مہر لگ چکی تھی وہ ایمان نہ لائے اورقوم کے سرداروں نے کہا۔ ’’ہم
تو تجھے اپنے جیسا انسان دیکھتے ہیں اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے
ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ لوگوں کے اور کوئی نہیں جو بے سوچے
سمجھے ( تمہاری پیروی کر رہے ہیں ) ، ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے
اوپر نہیں دیکھ رہے ، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں ‘‘۔حضر ت نوح
علیہ السلام نے جواب دیا۔ ’’ میری قوم والو ! مجھے بتاؤ تو اگر میں اپنے رب
کی طرف سے کسی دلیل پر ہوا اور مجھے اس نے اپنے پاس کی کوئی رحمت عطا کی ہو
، پھر وہ تمہاری نگاہوں میں نہ آئی تو کیا زبردستی میں اسے تمہارے گلے منڈھ
دوں ، حالاں کہ تم اس سے بیزار ہو۔ میری قوم والو ! میں تم سے اس پر کوئی
مال نہیں مانگتا۔ میرا ثواب تو صرف اﷲ تعالیٰ کے ہاں ہے ۔ نہ میں ایمان
والوں کو اپنے پاس سے نکال سکتا ہوں ، انہیں اپنے رب سے ملنا ہے لیکن میں
دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت کررہے ہو۔ میری قوم کے لوگو ! اگر میں ان
مومنوں کو اپنے پاس سے نکال دوں تو اﷲ کے مقابلہ میں میری مدد کون کر سکتا
ہے ؟ کیا تم کوئی نصیحت نہیں پکڑتے۔ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اﷲ کے
خزانے ہیں ، (سنو ! ) میں غیب کا علم نہیں رکھتا ، نہ میں یہ کہتا ہوں کہ
میں کوئی فرشتہ ہوں ، نہ میرا یہ قول ہے کہ جن پر تمہاری نگاہیں ذلت سے پڑ
رہی ہیں۔ انہیں اﷲ تعالیٰ کوئی نعمت دے گاہی نہیں ، ان کے دل میں جو ہے اسے
اﷲ ہی خوب جانتا ہے ، اگر میں ایسی بات کہوں تو یقینامیرا شمار ظالموں میں
ہو جائے گا ‘‘۔قوم کے لوگوں نے کہا۔ ’’ اے نوح ! تو نے ہم سے بحث کر لی اور
خوب بحث کرلی۔ اب تو جس چیز سے ہمیں دھمکا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آ ، اگر
تو سچوں میں ہے ‘‘۔
حضرت نوح علیہ السلام نے اﷲ کے حکم سے دعوتِ توحید جاری رکھی۔ لوگوں کو اﷲ
تعالیٰ کی نعمتوں کا احساس دلاتے رہے اور عذاب الہٰی سے ڈراتے رہے۔بتوں کے
خلاف باتیں سن کر لوگ بپھر گئے اور انہوں نے آپ علیہ السلام کی تکذیب و
تکفیر میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ چھوڑی اور یہ تحریک چلائی کہ جب آپ علیہ
السلام بات کرتے تو وہ اپنی پوری قوت سے چلانے لگتے اور اپنے کانوں میں
انگلیاں ڈال لیتے تا کہ آپؑ کی آواز سنائی نہ دے۔ آپ ؑ کی کافرہ بیوی نے یہ
مشہور کردیا کہ حضرت نوح ؑ دیوانے ہو گئے ہیں ۔ چناں چہ لوگ جہاں کہیں بھی
آپ ؑ کو دیکھتے تو آوازیں کسنا شروع کر دیتے اور پتھر مارنے لگتے۔ جب کہ آپ
ؑ قوم کو مسلسل حق اور خیر خواہی کی طرف بلاتے رہے۔ یوں صدیاں بیت گئیں۔
صرف چالیس مردوں اور چالیس عورتوں کے سوا کسی نے بھی حضرت نوح علیہ السلام
کے مذہب کو قبول نہیں کیا۔ جیسا کہ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے ۔ ’’ اور بھیجا
ہم نے نوح کو اس کی قوم کے پاس ،پس رہے وہ اپنی قوم کے پاس ساڑھے نو سو برس
اور اس مدت میں چالیس مرد اور چالیس عورتوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا ‘‘۔
بالآخر مایوسی اور نااُمیدی کے عالم میں آپ ؑ نے اپنے رب کو پکارا۔ ’’ اے
میرے پروردگار ! تو روئے زمین پر کسی کافر کو رہنے سہنے والا نہ چھوڑو۔ اگر
تو انہیں چھوڑ دے گا تو (یقینا) یہ تیرے اور بندوں کو بھی گمراہ کردیں گے
‘‘۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ ؑ کی دعا قبول کی اور آپ ؑ کو ایک کشتی بنانے کا حکم
دیا اور طوفان کی ابتدائی علامت بھی بتلائی۔ جیسے سورۃ المؤمنون میں ارشاد
ہوتا ہے۔ ’’ تو ہم نے اسے وحی بھیجی کہ ہماری نگاہ کے سامنے اور ہمارے حکم
سے کشتی بنا ، پھر جب ہمارا حکم آئے اور تنور اُبلے۔ تو اس میں بٹھالے ہر
قسم کا ایک ایک جوڑا اور اپنے گھر والے بھی سوائے ان کے جن پر (غرق ہونے کا)
پہلے ہی صادر ہو چکا ہے اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے بات نہ کرناوہ
ضرور غرق کیے جائیں گے ‘‘۔ آپ ؑ اس حکم کی تعمیل میں مصروف ہو گئے۔جب طوفان
کی ابتدائی علامت کے طور پر زمین سے پانی اُبلا تو آپ ؑ نے سب ایمان والوں
اور ہر ذی روح کے جوڑوں کو کشتی میں سوار کرلیا۔ آسمان کے دروازے کھل گئے ،
موسلا دھار بارش ہونے لگی، زمین کے چشمے پھوٹ پڑے اور ایک خوف ناک سیلاب
اُمڈ آیا۔ پانی آہستہ آہستہ اونچا ہوتا گیااور گھروں کی چھتوں اور ٹیلوں سے
بلند ہوکر پہاڑوں کی چوٹیوں کو ڈبونے لگا۔یوں پوری زمین ڈوب گئی، یہاں تک
کہ وہ پہاڑ جس پر آپ ؑ کا نافرمان بیٹا کنعان چڑھا تھا وہ بھی ڈوب گیا اور
قوم عبرت ناک انجام کو پہنچ گئی۔ جب اﷲ تعالیٰ کے حکم سے عذاب تھم گیا تو
کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی۔ آپ ؑ کے تین بیٹوں حام ، سام اور یافث سے
دوبارہ انسانیت کا ارتقاء ہوا۔ایک قول کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام 1780
برس زندہ رہے۔ آپ ؑ کا مرقد مبارک ایک قول کے مطابق مسجد ِ حرام اور دوسرے
قول کے مطابق بقاع شہر میں ہے۔
|