بسم اﷲ الرحمن ارحیم
حدیث نبوی ﷺکی جمع و تدوین وہ شاندار علمی کارنامہ ہے جس کی نظیراس سے
ماقبل و مابعد انسانی تاریخ میں عنقا ہے۔محدثین عظام نے اصول حدیث کے عنوان
سے پوری ایک سائنس ترتیب دی اور ردوقبول کے ایسے معیارات قائم کیے کہ جن کا
مطالعہ عقل انسانی کودنگ کیے دیتاہے۔ان اکابرین امت مسلمہ نے اپنے قائم کیے
ہوئے پیمانوں پر وقت کی مروجہ روایات کو جانچااورپرکھا،اور بعض اوقات ایک
ایک روایت کی تحقیق کے لیے انہیں مہینوں کی جستجو اوربراعظموں کاسفربھی
کرنا پڑا ،لیکن ان کی ہمت کو آفرین ہے کہ اتنے بڑے فرض عشق کو انہوں نے کس
حوصلے و ہمت اور صبرواستقامت کے ساتھ اداکیا۔قرون اولی کے کم و بیش ڈیڑھ
صدی کی طوالت پر محیط اس دورانیے کے عظیم ترین اذہان نے احادیث رسول ختمی
مرتبت ﷺکے اقوال و افعال کو چھانٹ کر الگ رکھ دیا۔حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ
امتوں نے کلام اﷲ کے ساتھ بھی شاید اتنی وفا نہ کی ہو گی جب کہ امت مسلمہ
کے عمائدین سنت رسول اﷲﷺنے اپنی نبی کے معمولات حیات کواس شان کے ساتھ قلم
بندکیاکہ آج سیرت النبیﷺ کاایک ایک لمحہ محفوظ و مامون ہے اور یہ معجزات
نبویﷺمیں سے ایک زندہ معجزہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کی دہلیز پر تمام وسائل
کے بہتات اور فراہمی کے باوجود کسی نامور شخصیت کے بارے میں بھی اتنی مکمل
،جامع،مستندومتواترمعلومات جمع نہیں ہیں جتنی کی سراجاََمنیراﷺکے بارے میں
دستیاب ہیں۔
امت مسلمہ میں دس کتب احادیث کو استنادکادرجہ حاصل ہے،صحاح ستہ میں چھ کتب
داخل ہیں اور اصول اربعہ بقیہ چار کتب ہیں،تلک عشرۃ کاملہ کے مصداق یہ کتب
سیرۃ و سنت کا عظیم ترین سرمایہ ایمان و عمل اپنے اندرسمیٹے ہیں۔ان کل کتب
میں ’’بخاری شریف‘‘کو سب سے اعلی مقام حاصل ہے اور امت مسلمہ کے کل مکاتب
فکرکے ہاں اول روز سے آج دن تک ہردورمیں ا س کتاب کواولین مقام حاصل
رہاہے۔’’الجامع الصحیح البخاری‘‘کو اس زمین کے سینے پراور اس آسمان کی چھت
کے نیچے قرآن مجید کے بعد سب سے سچی ترین کتاب جاناومانا گیاہے۔اس کتاب کا
حوالہ ہرلحاظ سے مستنداور کسی سوال کی گنجائش کے بغیر تسلیم
کرلیاجاتاہے۔امت مسلمہ میں جتنی پزیرائی اس کتاب کوحاصل ہے وہ مقام کسی اور
کوحاصل نہیں ہو پایا۔بہت ہی کم علم اور ناواقف دین مسلمان بھی اس کتاب کے
نام و مقام سے اسی طرح واقف ہے جس طرح قرآن مجید سے تعارف رکھتاہے۔مسلمان
معاشروں میں بسنے والے غیرمسلم بھی اس نام سے ایک انس رکھتے ہیں اور انہیں
بخوبی معلوم ہے کہ اس کتاب میں مسلمانوں کے نبی علیہ السلام کے اقوال
وافعال درج ہیں۔بخاری شریف کی اہمیت کااندازہ اس امرسے بھی لگایاجاسکتاہے
کہ قانونی وعدالتی امور تک کے معاملات میں جہاں کہیں کتاب اﷲ خاموش ہوتی ہے
وہاں سنت رسول اﷲﷺ کی یہ کتاب قانون سازی کرتی نظر آتی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ جو اس مایہ نازکتاب کے مولف ہیں،ان کاپورا نام
محمد بن اسمائیل ہے،لقب امیرالمومنین فی الحدیث،کنیت ابوعبداﷲاور آپ کے
آبائی علاقہ بخارا کی نسبت کے باعث آپ کوامت میں ’’امام بخاری‘‘سے موسوم
کیاجاتاہے۔13شوال194ہجری بمطابق 19جولائی 810عیسوی کو بروزجمعۃ المبارک
پیداہوئے۔مقام پیدائش وسط ایشیا کا مشہور علاقہ بخارا ہے جو اس وقت صوبہ
خراسان کبیرکی ایک انتظامی اکائی تھا اور آجکل اشتراکی روس سے آزاد شدہ
اسلامی ریاست ازبکستان کاایک حصہ ہے۔آپ کے والد گرامی اسمئیل بن ابراہیم بن
مغیرہ الجعفی بھی ایک محدث تھے اور ان کے بارے میں کہاجاتاہے کہ انہوں نے
امام مالک بن انس ؒسے کسب فیض کیاتھا۔’’الجفی‘‘کی نسبت آپ کے جدی بزرگ
مغیرہ کے ساتھ پہلی دفعہ اس وقت لگی جب انہوں نے والی بخارا حضرت یمن الجفی
کے ہاتھ پر اسلام قبول کیااور مستقل طور پر بخارامیں ہی مقیم ہو گئے۔اس سے
پہلے وہ ایرانی مذہب زرتشت کے ماننے والے تھے۔امام بخاری کے والد کے بارے
میں مشہور ہے کہ وہ رزق حلال کے بارے میں بہت محطاط تھے،ان کے ایک شاگرد
کابیان ہے کہ دم واپسیں وہ اپنے استاد کے پاس موجود تھے اور امام بخاری کے
والد بزرگوار نے وقت نزع فرمایاکہ میں نے ایک درہم بھی ایسا نہیں چھوڑاجس
کے بارے میں کو ئی شک و ابہام موجود ہو۔لیکن افسوس کہ اس بلندپایہ پاکباز
انسان نے اپنے فرزندارجمندکازمانہ عروج نہ دیکھااور امام بخاری کی صغیرسنی
میں ہی راہی ملک عدم ہوئے۔چنانچہ امام بخاری کی پرورش ان کی والدہ کے ذمہ
آن پڑی۔یہ ایک خداترس اور عبادت وریاضت میں مشغول رہنے والی خاتون
تھیں۔امام بخاری کے بارے میں کتابوں میں لکھاہے کہ وہ بچپن میں نابیناہو
گئے تھے۔ان کی والدہ محترمہ نے اﷲ تعالی سے اس قدر گریہ و زاری کی کہ
بلآخرخواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بینائی کی بشارت دی اوراﷲ تعالی
کے ہاں سے بینائی جیسی نعمت امام بخاری کو پھر سے عطا ہو گئی۔
امام الذہبی کے مطابق 205ھ یعنی کم و بیش دس برس کی عمر میں سلسلہ تعلیم
جاری ہوا،اور بچپن میں ہی عبداﷲبن مبارک ؒکی علمی کاوشیں ازبرکرلیں،پس قدرت
نے خود ہی بقیہ زندگی کو روایت حدیث سے جوڑ دیا۔210ھ میں اپنی والدہ محترمہ
کے ساتھ علوم سفریہ کاآغاز کیااور آغاز شباب میں ہی کتابوں کی تالیف
اورروایت حدیث کاآغاز کر دیا۔امام بخاری خود بیان کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ
میں جب عبیداﷲبن موسی کے پاس زیرتعلیم تھے تو روضہ رسولﷺ کے جوارمیں بیٹھ
کر راتوں کے اوقات میں چاند کی روشنی میں ’’قضایائے صحابہ و تابعین‘‘نامی
ایک کتاب تالیف کی تھی۔اسی زمانے میں سولہ سال کی عمر کے دوران اپنی والدہ
محترمہ اور چھوٹے بھائی کے ساتھ حج کی سعادت بھی حاصل کی۔اس کے بعد آپ
کاایک طویل دورانیہ سفرشروع ہوتاہے جس میں آپ نے شرق و غرب کے بڑے بڑے بلاد
علمیہ ومشاہیرواعلام کے ہاں پہنچے ۔اس دوران آپ نے ایک ہزار سے زائداساتذہ
کرام کے سامنے زانوئے تلمذطے کیااور چھ لاکھ احادیث اپنے سینہ میں محفوظ
کیں۔آپ نے شام،مصر،جزائر،بغداداور بصرہ وغیرہ کاسفرکیاان کے علاوہ دوردراز
کے اسفارمیں مرو،بلخ،ہرات،نیشاپوراوررے بھی شامل ہیں غرض یہ کہ ہر بڑے
مرکزعلم تک آپ نے رسائی کی۔آپ کے ساتھ سفرکرنے والوں نے امام بخاری سے
متعلق متعدد واقعات نقل کیے ہیں۔آپ کے اساتذہ کرام میں امام احمد بن
حنبل،علی ابن المدینی،یحیی ابن معین،محمدبن یوسف،ابراہیم الاشعث اور قتیبہ
ابن سعید جیسی نابغہ روزگار ہستیاں شامل ہیں۔آپ کے تلامذہ کی تعداد مبالغہ
کی حد تک وسیع ہے،آپ جہاں بھی جاتے طلاب علم کاایک جم غفیراپ کے گرد جمع
ہوجاتا۔آپ کے سامنے اور قریب کے حلقے میں بیٹھنے والے قلم دوات سے لکھ رہے
ہوتے اور صرف سننے والے ان کی پشت پر صف بندہوتے تھے۔جس شہر میں آپ کی آمد
ہوتی عوام کی ایک کثیرتعدادشہرسے باہر آپ کے استقبال کے لیے موجود ہوتی
تھی۔
آپ کی ذاتی زندگی سادگی اور فقر سے عبارت تھی۔والد بزرگوار کامختصرترکہ آپ
نے مضارب کی حیثیت سے تجارت میں لگاکرخود کو حدیث نبویﷺکی روایت کے لیے
فارغ کرلیاتھا۔تجارت سے بہت کم فائدہ ہوتاتھا اور وہ بھی طلبہ و مساکین پر
خرچ کردیاکرتے تھے۔اسفارعلمیہ کے دوران آپ کئی کئی دنوں تک گھاس کھاکر بھی
گزارہ کرتے رہے۔آپ کے ہم سفروں نے بعض اوقات چندہ کرکے بھی آپ کی کفالت
کی۔سفرمیں مسلسل فاقہ کشی کے باعث آپ علیل بھی رہنے لگے تھے۔عادت مبارکہ
تھی کہ روٹی بغیر سالن کے ساتھ تناول فرماتے تھے،ایک بار شیوخ نے سالن کے
ہمراہ کھانے پراسرارکیاتو روٹی کے ساتھ شکر پر اکتفاکیا۔مزاج میں رحم دلی
کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،کاروباری معاملات میں بہت نرمی کرتے تھے اور
وصولیوں میں بہت رعایت دیاکرتے تھے اورلونڈی غلاموں کوان کی گستاخیوں پر
بھی آزاد کردیاکرتے تھے۔عبادت و ریاضت سے خصوصی شغف تھا،دائمی طورپر قائم
اللیل رہے ،دن کے نوافل بھی باقائدگی سے اداکرتے،رمضان کی راتوں میں تراویح
کے بعدسحری تک مصلے پر ہی رہتے اور عموماََتین دن میں ایک بارقرآن ختم
کرلیتے تھے اور پھرکوئی دعابھی مانگتے اورفرمایاکرتے تھے کہ ہر ختم قرآن پر
ایک دعاضرور قبول ہوتی ہے۔اتباع سنت میں آخری عمرتک نیزہ بازی کی مشق جاری
رہی اور کبھی بھی نشانہ خطانہ گیاتھا ۔حاکم بخارانے نے دربارمیں آکر
شہزادوں کو پڑھانے کاحکم صادرکیاتوآپ نے علم کی بے قدری کے باعث انکار
کردیا،حاکم نے شہزادوں کے لیے الگ وقت چاہاتو بھی نہ مانے۔قوت حافظہ کرامت
کی حد تک مضبوط تھی۔آپ نے اوائل عمری میں ایک خواب دیکھاکہ ہاتھ میں
پنکھاتھامے محسن انسانیتﷺکے چہرہ مبارک سے مکھیاں اڑارہے ہیں۔تعبیردینے
والوں نے اس خواب پرکہاکہ امام بخاری ؒ صحیح احادیث چھانٹ کرالگ کریں گے۔
آپ کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے لوگوں میں بہت سی من گھڑت روایات احادیث
نبویﷺکے نام سے مشہور ہو گئی تھیں۔امام بخاری سے پہلے کے محدثین نے اپنی
کتب میں درست احادیث کو جمع تو کیالیکن تمام درجات کی احادیث ایک ہی جگہ
جمع کردیں،اس طرح حدیث کوگہرائی سے سمجھنے والے توان کتب سے استفادہ کرسکتے
تھے لیکن عوام الناس کے لیے احادیث کی درجہ بندی کوسمجھنا مشکل تھا۔امام
بخاری نے ایک ایسی کتاب کی تالیف کاارادہ کیاجس میں سب صحیح روایات جمع
ہوں۔سولہ سالوں کی طویل مدت کے بعد آپ جب بخارامیں تشریف لائے تو جمع کی
ہوئی احادیث کی تالیف شروع فرمائی۔آپ نے حدیث کی قبولیت کی بہت سخت شرائط
متعین کیں اور جو جو روایات ان معیارات پر پوری اترتی گئی صرف انہیں کوآپ
نے اپنی کتاب میں درج کیا۔آپ نے اپنی کتاب کانام’’لجامع الصحیح المسند من
حدیث رسول ﷺ وسننہ وایامہ‘‘رکھا۔اس کتاب کی تکمیل میں سولہ سال صرف
ہوئے۔کتاب میں ہر باب کاآغاز قرآنی آیت سے کرتے ہیں اور احادیث پر
نقدوتبصرہ بھی کرتے ہیں اورحدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہیں کہیں فقہی مسائل
سے بھی بحث کرتے ہیں۔بغیرتکرارکے اس کتاب میں کل احادیث کی
تعداد2602ہے،ثلاثی احادیث 22ہیں اورکل احادیث کی تعداد 7397ہے۔ثلاثی احادیث
سے مرادمحدث اور نبیﷺکے درمیان صرف تین راوی ہیں۔جس حدیث میں جتنے کم راوی
ہوں وہ حدیث اتنی زیادہ قابل اعتماد ہوتی ہے،اس لیے کہ راویوں کی تعدادجتنی
زیادہ ہو تو اس میں بھول جانے کااندیشہ اتنا زیادہ ہوتاہے۔امام بخاری ؒنے
صرف متصل الاسناداحادیث کونقل کیاہے۔متصل الاسناداحادیث سے مراد وہ احادیث
ہیں جن کی سندبغیرکسی کٹاؤکے آپﷺتک پہنچ جاتی ہے،یعنی نبی سے
صحابی،پھرتابعی اور پھر تبع تابعی اس کے بعد فقہاء کے طبقے کے راوی اور تب
وہ روایت محدث تک پہنچے اور درمیان سے کو ئی راوی ایسا نہ ہوجسے
اپنااستادبھول گیاہو۔اگرکوئی رواوی اپنے استادکانام بھول جائے مثلاََتبع
تابعی کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے تابعی کانام بھول جائے اور براہ راست صحابی
کانام لے لے توایسی روایت کوامام بخاری اپنی کتاب میں شامل نہیں کرتے اس
لیے یہ روایت متصل الاسنادنہیں رہی۔
امام بخاری ؒصرف ثقہ راویوں سے تخریج کرتے ہیں۔ثقہ راوی سے مراد حدیث بیان
کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کی بات ہمیشہ پختہ ہوتی ہے،ان کاایمان مضبوط
ہوتاہے،ذریعہ رزق حلال ہوتاہے ،ان کے معمولات زندگی سنت رسول اﷲﷺکے مطابق
ہوتے ہیں اوران کاحافظہ قوی ہوتا ہے یعنی بھولنے کی عادت انہیں نہیں ہوتی
یا کم از کم نبیﷺکی احادیث کوبڑی احتیاط سے اپنے حافظے میں سنبھال کررکھتے
ہیں۔ثقہ راویوں پر کذب بیانی کی تہمت بھی نہیں ہوتی یعنی وہ سنی سنائی یا
جھوٹی یا مشکوک روایت کو آگے بیان نہیں کرتے اور قول رسولﷺیا فعل رسولﷺبیان
کرتے ہوئے حد درجہ حزم و احتیاط سے کام لیتے ہیں۔اس زمانے کے عرب قبائل
کاحافظہ عموماََبہت قوی تھا،انہیں نسلوں سے جاری تجارت اوربراعظموں میں
پھیلاکاروبارانگلی کی پوروں پر زبانی ازبر رہتاتھا،ایک پائی کاحساب کسی
کاغذ پر نہیں لکھاجاتاتھااور نقد،قرض یاسود تمام معاملات ان کے حافظے میں
تازہ رہتے تھے۔عربوں کواپنی پشتوں نسلوں،اپنے جانوروں تک کی نسلوں اور
پشتوں تک کے نام اورحالات زبانی یاد ہوا کرتے تھے۔حتی کہ ان کے پاس موجود
تلوارکی تاریخ انہیں زبانی یاد تھی کہ یہ تلوار کس کس کے پاس کب کب تک رہی
،کس کس جنگ میں اس تلوار سے کس کس پروار کیاگیا وغیرہ وغیرہ۔عربوں کے حافظے
کایہ کمال معجزات نبویﷺ میں سے ہے ،سیرۃ نگاروں کے مطابق آپﷺسے دوڈھائی
سوسال قبل یہ حافظہ عربوں کو ملا اور تدوین حدیث نبویﷺتک حافظے یہ قوت
عربوں کے ہم رکاب رہی۔گویاصدیوں سے صدیوں تک ایک خاص ہستی کے لیے ہی ایک
اسٹیج تیارکیاجارہاتھا۔
امام بخاری ؒپہلے طبقے سے روایت قبول کرتے ہیں دوسرے طبقے میں سے چھانٹی
کرتے ہیں۔پہلے طبقے سے مراد حدیث بیان کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہیں محدثین
کے ہاں اولین مقام حاصل ہے۔پہلے طبقے کے راویوں کی بیان کردہ احادیث کو
اکابر محدثین کے ہاں قبول عام حاصل ہے،ایسے راویوں کی احادیث میں اعلی درجہ
کی قبولیت کی شرائط پائی جاتی ہیں۔محدثین کرام نے ایسی سندوں کو جن میں
پہلے درجے کے راویان شامل ہوں ’’سندعالی‘‘کہتے ہیں۔جن احادیث کی سند عالی
ہو اور راویان پہلے درجے میں گنے جاتے ہوں ان کو متنازعہ معاملات میں قول
فیصل کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔آخری طبقے کے راوی پہلے درجے کے راویوں سے
متضاد ہوتے ہیں،ان پرجھوٹ کی تہمت ہوتی ہے،حدیث کے وضع کرنے میں یعنی خود
سے بات بناکر نبیﷺسے منسوب کرنے میں ماہر ہوتے ہیں اوربادشاہوں کی خوشنودی
کے لیے یا اپنے فرقے کی ترویج کے لیے یااپنے کاروبار کی بڑھوتری کے لیے نئی
سے نئی باتیں تراشتے ہیں اور اس طرح بیان کرتے ہیں کہ عام لوگ ان کی بات
کوقول رسول ﷺہی سمجھنے لگتے ہیں۔محدثین کا یہ عظیم الشان کارنامہ ہے کہ
انہوں نے ایسی روایات کو بہت محنت کے ساتھ صحیح روایات سے الگ کردیاہے۔
امام بخاری اور ان کے ہم عصر اور ہم پلہ دیگرمحدثین نے اول درجے کے راویوں
سے اول درجے کی روایات قبول کیں اور ان کے مجموعے مرتب کیے۔بعد میں آنے
والوں نے دوسرے درجے کی روایات کو جمع کیا ،پھر تیسرے درجے کی روایات کو
جمع کیاگیاعلی ہذاالقیاس ۔یہاں تک آخری طبقے کی روایات بھی جو کہ نبی ﷺکے
نام سے منسوب تھیں خواہ تراشی ہوئی یعنی موضوع تھیں انہیں بھی جمع
کرلیاگیااور ان کے مجموعے بھی آج تک موجود ہیں۔کم و بیش دو صدیوں تک احادیث
کی جمع و تدوین کاکام جاری رہااورہرطرح کی روایت،خبر،اثراورحدیث کوکتابوں
میں جمع کرکے تحقیق کے میدان کو تاقیامت وسیع کردیا۔محدثین عظام نے ان
روایات کو بیان کرنے والے کم و بیش ساڑھے پانچ لاکھ افراد کے حالات زندگی
بھی جمع کیے،اس علم ’’اسماء الرجال‘‘کہتے ہیں۔’’اسماء الرجال‘‘میں راویان
حدیث کے نام،قبیلہ،ذریعہ رزق،ادائگی ء نمازوں کی صورتحال،کھیل تماشاکی
عادت،سچ یاجھوٹ بولنے کی ترجیحات،حافظہ،اس کے اساتذہ و تلامذہ،اس کی
سیروسیاحت اور اس کی دیگرمحدثین ملاقاتوں کے احوال کے علاوہ اہل خانہ سمیت
دیگرتمام تفصیلات تک موجود ہیں۔دورحاضرمیں ’’اسماء الرجال‘‘کوکمپیوٹرکے
حافظے میں منتقل کیاجاچکاہے چنانچہ آج کسی بھی حدیث پرتحقیق کرنا،اس کے
راویوں کے حالات زندگی تک رسوخ کرنا نہایت سہل ہے۔میدان حدیث کااولین کام
جان مارکرکیاجاچکاہے لیکن اب ہرآنے والی نسل اپنے ظرف اور ہمت کے مطابق اس
میں اضافہ کیے چلی جارہی ہے اور یہ سلسلہ اس زمین کے سینے پر طلوع ہونے
والے آخری دن کے سورج تک جاری رہے گا۔اﷲ تعالی ان لوگوں کواپنی خاص جوار
رحمت میں جگہ عطا کرے جو اس کے آخری نبیﷺکی روایات کو جمع کرتے ہیں،انہیں
بیان کرتے ہیں اور ان پر تحقیق و جستجو کے ذریعے اﷲ تعالی کے دین میں سمجھ
بوجھ پیداکرتے ہیں،آمین۔
امام بخاری ؒ سے بیس مزید کتب بھی منسوب ہیں،آپ نے صحابہ تابعین پر،تاریخ
اسلام پر اور اصول حدیث پر بھی کتب یا چھوٹے چھوٹے رسالے مرتب کیے۔’’اصول
حدیث‘‘سے مراد حدیث کو قبول کرنے یاقبول نہ کرنے کے جملہ معیارات ہیں۔امام
حجرالعسکلانی کے نزدیک محدثین کے ہاں کم و بیش پانچ سواقسام حدیث
ہیں۔محدثین نے حدیث کی درجہ بندی میں بہت دقیق سے دقیق فرق پر بھی ان کی
الگ سے تسویم کی ہے یعنی جداجدانام دیے ہیں،اسی طرح کتب حدیث بھی مختلف
ناموں سے موسوم کی جاتی ہیں،بعض کتب میں صرف ایک صحابی کی روایات جمع کی
جاتی ہیں،بعض کتب میں ایک موضوع پر تمام روایات جمع کر دی جاتی ہیں،بعض کتب
کو فقہی ترتیب کے مطابق مرتب کیاجاتاہے اوربعض کتب میں ہر طرح کی احادیث
درج کر دی جاتی ہیں۔یہ اور اس طرح کی دیگر متعدد مباحث ’’فن اصول حدیث ‘‘کے
موضوعات ہیں۔امام بخاری امت مسلمہ کے اندر اس فن کے امام ہیں،ان سے شروع
ہونے والا اصول حدیث آج تک مستندہے اور ہمیشہ اسے قبول عام ہی رہے گا۔امام
بخاریؒکی کل کتب میں یہی ’’الجامع الصحیح البخاری‘‘المعروف ’’صحیح
بخاری‘‘ان کی وجہ شہرت ہے۔اس کتاب کی اہمیت کااندازہ اس بات سے بھی لگایا
جاسکتاہے کہ اس کتاب کی متعدد شروحات لکھی جا چکی ہیں۔جس طرح قرآن مجید ی
تفسیرہوتی ہے اسی طرح کتب احادیث کی شرح ہوتی ہے۔امت کے ہر بڑے محدث نے
بخاری شریف پر قلم اٹھانے کو اپنی سعادت سمجھاہے۔جس جس زبان میں قرآن مجید
کے تراجم ہوئے تقریباََان تمام زبانوں میں بخاری شریف کے تراجم بھی موجود
ہیں،کسی نے کل بخاری شریف کاترجمہ کیااور کسی نے اس کے اجزاء کاترجمہ
کیا،کسی نے کل بخاری شریف کی شرح لکھی اور کسی نے کچھ اجزا کی اور ایک بہت
بڑی تعداد ہے جس نے بخاری شریف سے چالیس احادیث کاانتخاب’’اربعین‘‘کے نام
سے شائع کیا۔یہ سب لوگ ایک حدیث کے مطابق شفاعت رسولﷺکے مستحق ہیں،اﷲتعالی
ہمیں بھی ان میں شامل فرمائے،آمین۔ |