تعلیمی ایمرجنسی کی ناکامی

خیبر پختون خوا میں کل آٹھ تعلیمی بورڈ ہیں، جنہوں نے میٹرک کے نتائج کا اعلان کردیا ہے۔ نتائج کے مطابق تمام بورڈوں میں ٹاپ ٹین پوزیشنوں پر نجی تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات نے قبضہ جمایا اور جب کہ سرکاری سکولوں میں سے کوئی بھی طالب علم پہلی پوزیشنوں میں اپنی جگہ نہیں بنا سکا۔ بعض سرکاری سکولوں کی کارکردگی اتنی مایوس کن نظر آئی کہ اُن کی کامیابی کا ہندسہ دس فیصد سے اوپر بھی نہ جا سکا۔ بہر کیف سرکاری و نجی ، بوائز و گرلز اور شہری و دیہی سکولوں کے صحیح اعداد وشمار ، تجزیے اور وجوہات تو بورڈوں میں تعینات ریسرچ آفیسر ہی بتا سکتے ہیں کیوں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے ، لیکن اُن کی جانب سے کو ئی رپورٹ آج تک ہماری نظروں سے نہیں گزری۔ بد قسمتی سے اتنی اہم پوسٹ ‘ سیاسی بن کر صرف منظور ِ نظر لوگوں کو نوازی جاتی ہے۔ حالاں کہ ایسی پوسٹ کے حقدار ماہرین شماریات اور محقق ہوسکتے ہیں۔ خیر چھوڑیں! آج کل کے اخبارات آئے روز تعلیم سے متعلق اپنی رپورٹس تواتر کے ساتھ شائع کر رہے ہیں اور خیبر پختون خوا حکومت کی توجہ تعلیمی ایمرجنسی میں ناکامی کی طرف مبذول کروا نے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ لیکن حکومت نے چُپ کا روزہ رکھا ہوا ہے ، کوئی خاص ردِ عمل سامنے نہیں آرہا ہے۔ البتہ صوبائی وزیر تعلیم کی جانب سے بورڈوں کے خلاف انکوائری کی ایک دَبی دَبی سی خبر شائع ہوئی تھی۔ شایدموصوفکے ذہن میں یہ بات ہے کہ انہوں نے خود چند ماہ قبل بورڈوں کی اعلیٰ پوسٹوں پر میرٹ کی بنیاد وں پر تعیناتیاں کی تھیں۔ خیال رہے کہ تعلیم وہ شعبہ ہے جس کو خیبر پختون خوا حکومت نے گزشتہ چار برسوں سے اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھا ہوا ہے اور اپنی تمام تر توجہ تعلیم و صحت کے شعبہ جات پر مرکوز رکھنے کا شروع دن اعلان بھی کر چکے ہیں۔ صوبائی وزراء ، مشیر اور خود چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ہر تقریب میں بڑے فخریہ انداز میں تعلیمی اصلاحات اور تبدیلی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔ جب کہ حالیہ میٹرک کے نتائج نے اُن کا تھوڑا سا بھرم نہ رکھا اور اُن کے بیانات اوردعوؤں کا پول کھول کے رکھ دیا ہے اور تعلیمی ایمرجنسی پر ایک سوالیہ نشان چسپاں کردیا ہے۔ حکومت کا ایک دعویٰ یہ ہے کہ اُن کی مدبرانہ حکمت ِ عملی سے عوام کا اعتماد سرکاری سکولوں پر بڑھ چکا ہیجس کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں سے نکلوا کر سرکاری سکولوں میں داخل کر رہے ہیں۔ یہ کتنی غیر منطقی بات ہے کہ اگر سرکاری سکولوں پر عوام کا اعتماد بحال ہوگیا ہے اور وہاں داخلوں کی شرح میں اضافہ بھی دیکھنے کو مِِل رہا ہے تو پھر سکولوں کی بندش کا معاملہ کس زمرے میں آتا ہے۔ اور اگر واقعی ان کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے تو پھر میٹرک کے نتائج اس کے برعکس کیوں ہیں۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر ‘ ہم اپنے موضوع تعلیمی ایمرجنسی کی ناکامی کے اسباب کی طرف آتے ہیں جس کی وجوہات راقم الحروف کی ناقص عقل کے مطابق کئی ایک ہو سکتی ہیں۔ پہلی وجہ این ٹی ایس پر بھرتی ہونے والے چالیس ہزار سے زائد ایڈہاک اساتذہ ہیں۔ یہاں مجھے اُن کی قابلیت اور میرٹ پر بھرتی ہونے پر کوئی شبہہ اور اعتراض نہیں ہے ۔ لیکن جاب سکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے ہم ان سے صد فیصد نتائج کی توقع کیوں کر رکھ سکتے ہیں۔ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو گھر کی چار دیواری سے محروم ہے یا اس کو شیلٹر مہیا نہیں ہے تو خاک یہ شخص میٹھی اور مزے کی نیند سو سکے گا۔ بعین اسی طرح ایڈہاک کی لٹکتی تلوار کے سائے میں بہترین نتائج کی اُمیدیں بے سود ہیں۔ لہٰذا حکومت کو اس پہلو پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیئے اور ان کی مستقلی کے لئے قانون سازی جلد از جلد کی جائے تاکہ بہتر نتائج کا حصول ممکن ہو۔دوسری وجہ مانیٹرنگ کا نظام ہے۔ اگرچہ اس سے تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی حاضری میں بہتری آئی ہے لیکن اس نظام سے اساتذہ کے مقاصد میں تبدیلی بھی رونماہو چکی ہے ۔ پہلے استاد کا اولین مقصد بچوں کی تعلیم و تربیت ہوتا تھا ، اَب وہ ’’حاضری ‘‘ کو یقینی بناؤ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اتفاقیہ رخصت پر بھی استاد سے جواب دہی اور تنخواہ سے کٹوتی ہوتی ہے۔ پیغمبرانہ پیشے سے منسلک استاد کو دُکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ دیگر محکموں بالخصوص صوبائی اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں سے کئی کئی ماہ غیرحاضر رہنے والے اراکین سے جواب دہی اور کٹوتی کیوں نہیں ہوتی اور بعض اراکین محض اپنی ٹی ۔اے ، ڈی ۔اے کے لئے حاضری لگواتے ہیں۔ حالاں کہ ان کو ہر طرح کی سہولیات بھی میسر ہوتی ہیں۔ جس کے برعکس اساتذہ کے لئے گرمیوں میں درخت کا سایہ اور سردیوں میں دھوپ ہی بیٹھنے کی آمجگاہیں ہوتی ہیں۔ تعلیمی ایمرجنسی کی ناکامی کی ایک وجہ اساتذہ کے مسائل کے حل کے لئے صوبائی اور ضلعی سطح پر قائم ایڈمنسٹریٹیو دفاتر ہیں۔ جہاں اساتذہ اپنے مسائل کی فائلیں لئے مارے مارے پھرتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک استانی کا دل سوز فون موصول ہوا جوگزشتہ بارہ سال سے ترقی کی منتظر تھی مگر ایجوکیشن آفس کی مجرمانہ غفلت سے اگلے گریڈ میں ترقی سے اس لئے محروم رہ گئی کہ انہوں نے موصوفہ کے کاغذات صوبائی سلیکشن بورڈ کو نہیں بھیجوائے تھے۔ ہم ان تمام وجوہات کو بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی ان کا حل تلاش نہیں کر رہے ہیں اور اس کے باوجود بھی اساتذہ سے سو فیصد نتائج کی اُمیدیں لگائے رکھے ہوئے ہیں۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 262403 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.