تعلیم سے آتی ہے اقوام میں بیداری

علم ایک ایسا جوہر ہے جو انسان کو ظلمت وتاریکی کے عمیق غار سے نکال کرروشن شاہراہ اور بلندی کی اوج ثریا پر فائز فرماتاہے ،تعلیم سے انسان اور اقوام میں بیداری آتی ہے ،صحیح سوچنے وسمجھنے کا شعور پیداہوتاہے۔ اچھے اوربرے کی تمیز پیداہوتی ہے ،اسی تعلیم ہی کے ذریعہ اللہ نے بنی انسان کے باپ دادا آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کو تمام مخلوقات پر فوقیت اور اشرفیت وافضلیت بخشی ہے اور اس کی اہمیت ہی کے پیش نظر اپنے آخری نبی جناب محمد بن عبداللہ ﷺ پر وحی کا آغاز لفظ ’’إقراء ‘‘سے کیا ۔ اور اسی کےذریعہ عالم کے درجات کو بلند فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿یرْفَعِ اللہ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾(المجادلۃ:۱۱ ) اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻلائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا۔

قرآن واحادیث میں بیشمار مقامات پر علم سیکھنے اور سکھلانے والوں کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ ‘‘ کہ تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرآن سیکھیں اور لوگوں کو سکھائیں۔بلکہ ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح نبی ﷺ کی فضیلت عام انسانوں پر ہوتی ہے اسی طرح ایک عا لم کی فضیلت زاہد پر ہوا کرتی ہےاور اسی تعلیم ہی کی اہمیت کے پیش نظر غزوۂ بدر کے ان قیدیوں کےساتھ جو فدیہ دینے کی طاقت نہیں رکھتے تھے معاہدہ ہوا تھا کہ وہ مدینہ کے دس دس افراد کو جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے ہیں انہیں لکھنا پڑھنا سکھا دیںگے تو آزاد ہو جائیں گے۔

غرض یہ کہ تعلیم کی اہمیت وضرورت اور اس کے فوائد وثمرات سے دنیا کے کسی ذی روح وذی شعور کو انکار نہیں ،کیونکہ تعلیم پر ہی قوم وملت کی تعمیر وترقی کا ہی انحصار نہیں بلکہ اس میں قوم کے احساس وشعور کو جلا بخشنے کی قوت بھی پنہاں ہے ۔ اگر آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا دورہ کرکے اور اس کی شرح خواندگی کا جائز ہ لیں گے تو آپ کے سامنے یہ سچ خود بخود واضح ہوجائے گا کہ قوم کی تعمیر وترقی میں تعلیم کس قدر ممدوومعاون ہے ، اورموجودہ دورمیں اس کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں انہیں قوموں نے ستاروں پر کمندیں ڈالیں ہیں جنہوں نے تعلیم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ، علم کے حصول کی خاطر کافی پریشانیاں برداشت کیں ،اپنے گھر بار اور اعزہ واقارب کوچھوڑااوراپنے جان ومال کی قربانیاں پیش کی ہیں ۔ خوش قسمتی سے آج ہمار املک اوراس کے باشندے بھی دیگر اقوام وممالک کی طرح اس طرف خاطرخواہ توجہ دے رہےہیں اور علم کے فروغ اور تعلیم کو عام کرنے میں کوشاں نظرآرہے ہیں۔ اور تجربات ومشاہدات سے یہ بات بالکل واضح ہےکہ علم کے حصول ہی میں ہمیں حقیقی خوشحالی مل سکتی ہے اور ہم منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں ۔

جہالت جو علم کی ضد ہے جس سے سماج میں، برائیاں اور بے حیائیاں جنم لیتی ہیں جو سماج کا سب سے بڑا کینسر اور مہلک بیماری ہے جس کی اس دنیا میں کوئی قدر وقیمت نہیں ،ایک جاہل اگر سماج میں زندہ بھی ہے تو لوگ اسے مردہ ہی سمجھتے ہیں لیکن ایک پڑھا لکھا ذی شعور اپنی قابلیت وشرافت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر راج کرتاہے لوگ اس کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسکی عزت کرتےہیں۔ گویا علم ہر موڑ وشاہرا ہ پر انسان کے لئے مفید ہے اور جہالت تاریکی و نقصاندہ ہے۔یہی وجہ ہے خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ علم اور مال کے درمیان تقابل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
رضینا قسمة الجبار فینا لنا عمل وللجہال مال
’’اللہ تعالیٰ کی تقسیم سے ہم راضی ہیں کہ ہمارے لئے علم ہے اور جاہلوں کے لئے مال ہے ،،۔

آج جب ہم ملکی وعالمی پیمانے پر حالات کا جائزہ لیتے ہیں تومعلوم ہوتاہےکہاآج کے اس ترقی یافتہ دور میں معاشرتی خرابیوں وبرائیوں،آپسی چپقلش ونہ اتفاقی کی سب سے بڑی وجہ جہالت ہے جس کے خاتمے کی ہمیں ہر طرح سے تگ ودو کرنی چاہئے اور تعلیم کے حصول میں انتھک کوشش ومحنت کرنی چاہئے،اپنے بال بچوںاور پاس پڑوس کے افراد کو اس طرف مائل کرنا چاہئے تاکہ ہمارا معاشرہ ایک پاکیزہ اور صاف ستھرا معاشرہ بن سکے ۔اور اس کے باشندے امن وسکون اور الفت ومحبت نیز بھائی چارگی کی زندگی گذار سکیں ۔کیونکہ حصول علم وہ روشن شاہراہ ہے جس پر چل کر ہم اپنی تعلیمی پسماندگی کو ختم کرکے سماج کو روشن مستقبل دے سکتے ہیں ،انہیں تاریکی سے نکال کر اجالے کی طرف رہنمائی کرسکتے ہیں ۔
تاریخ اسلام کا ادنیٰ طالب بھی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ جب تک مسلمانوں نے حصول علم کی طرف اپنی توجہ مبذول رکھی وہ ہمیشہ کامیاب وسرخرو رہے ان کی کامیابی کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بجتارہا ۔ اور اسی علم ہی کی بدولت وہ پوری دنیا پر حکمرانی کرتے رہے لیکن جیسے ہی انہوں نے اس پاکیز رشتہ اور عظیم سرمایہ سے منہ موڑاوہ تنزلی وپستی اور پسماندگی کی اس عظیم کھائی میں جا گرے کہ ان کا نام لینے والا کوئی نہ باقی بچا۔ اور ذلت ورسوائی ہمیشہ ہمیش کے لئے ان کا مقدر بن گئی ۔

اسی طرح یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تعلیم انسان کی سب سے بڑی دولت اور شرف وعزت کی ضامن ہے ،تعلیم ہی وہ شجرہ مثمرہ ہے جس کے رنگین پھول اورخوشبو دار پھل دل ودماغ کو معطر کردیتے ہیں اور روح کی تسکین کا ذریعہ بنتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ سماج کا ہر ذی علم طبقہ اپنے نونہالوں کو معیاری تعلیم دلانے کی حتی المقدور سعی کرتاہے اور انہیں ملک وسماج کے اچھے سے اچھے اسکو لوں اورکالجوں میں داخلہ دلانے میں ایک دوسرے پر سبقت کرتا ہے تاکہ ان کا لخت جگر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بہترین ڈاکٹر ،انجینئر ، سائنسداںبن سکے اوراپنے پیر وں پر کھڑا ہوکر اپنےوالدین اورگھر والوں کا پیٹ پال سکے۔

لیکن ہم موجودہ نظام تعلیم سے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہم اپنے بچے کو ایک اچھا ڈاکٹر اورسائنسداں تو بنا سکتے ہیں اور اس کی ذہنی وجسمانی صلاحیت کو تو بڑھا سکتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہم اسے ایک اچھا انسان بھی بنا سکیں اسے قوم وملت کا ایک بہترین خادم بھی بناسکیں۔کیونکہ کالجزویونیورسٹی کا آزادنہ ماحول بچوں کی تعلیم وتربیت پر بہت گہرا چھاپ چھوڑتا ہے اور بچے ان اثرات سے بہت جلد متائثر ہوکر اپنے مقصد حقیقی کو بھول جاتےہیں۔ ایسی صورت میں والدین ،گھرکے ذمہ داران کا ایک اہم فریضہ ہوتا ہے کہ اپنے نونہالوںکےایام طفلی کے حرکات وسکنات پرکڑی نظر رکھیںاور سب سے پہلے انھیںدینی علم سے روشناس کرائیں ، سماج کی برائیوں وخرافات سے آگاہ کریں اور ان کی صحیح تعلیم وتربیت کامنظم بندوبست کریں ۔ اسی میں ہمارے لئے خیر ہے ۔

ہم نہ تو دنیاوی علوم کے فوائد کے منکر نہیں اور نہ ہی اس کے حصول کے ،لیکن ہم دینی علوم کے حصول کو فوقیت دیتے ہیں جس کاحاصل کرناایک انسان کا بنیادی مقصد ہے اورجو لوگوں کو انسانیت کا درس دیتی ہے اور سماج میں رہنے کا گر سکھاتی ہے ۔
 

Abdul Bari Shafique
About the Author: Abdul Bari Shafique Read More Articles by Abdul Bari Shafique: 114 Articles with 133865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.