“ کیا کہ رہی ہو بیٹا! “ شازمہ نے نہایت دکھ سے کہا۔
“ بند کریں یہ سب ڈرامہ آنٹی! میں جانتی ہوں آپ کیا کر چکی ہے میرے
ساتھ،مجھے سب منظور تھا، پر اب بات میرے کردار کی ہے جو میں برداشت نہیں
کروں گی۔ “
“ اوہ تو تمہیں پتہ چل چکا ہے۔ ہا ہا ہا میں تو سمجھی تھی تم ایک ناسمجھ
بچی ہو ۔ پر تم تو میری سوچ سے بھی تیز نکلی۔ ہاہاہا،،،،، “ شازمہ کو پتہ
چل گیا تھا کہ وہ اسکی اصلیت جان چکی ہے اس لئے اس نے زیادہ ایکٹنگ کرنا
مناسب نہیں سمجھا تو اپنے اصلی روپ میں آ کر قہقہ مارنے لگی۔
حسنہ کو اس سب کی امید نہیں تھی اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے اس نے
کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا اسکی سگی خالہ اس ڈھٹائی سے اسکے سامنے
اسکے کردار کے چھیترے اڑانے کے بعد یوں ہسے گی۔
“ اب آپ مان ہی گئی ہیں تو یہ بھی بتا دیں کیوں کیا یہ سب ؟ “ حسنہ نے ضبط
کرتے ہوئے پوچھا۔
“ تمہاری ماں کی وجہ سے ،،، وہ تو شادی کر کے الگ ہو کر اپنی دنیا بسا کر
بیٹھ گئی اور اسکی وجہ سے میں نے اپنی ماں کو کھو دیا، اسکا غم سینے سے
لگائے میرے بابا اس دنیا سے چلے گئے اور مجھے اپنے ہونے والے بہنوئی کے سر
باندھ دیا گیا۔ “ غصے سے شازمہ کی آنکھیں لال ہو رہی تھی۔ حسنہ نے اسے
بولنے دیا۔
“ جانتی ہو مجھے جب ان سے شادی کرنا پڑی میرے بھی کچھ خواب تھے جو ختم ہو
چکے تھے۔ ہم دونوں میں کبھی انڈرسٹینگ رہی نہیں اس لئے وہ بس دو سال
پاکستان میرے پاس رہے اسکے بعد ہمیشہ کے لئے باہر شفٹ ہوگئے۔ جانتی ہو،،،،
انہوں نے ایک بار بھی مجھے اور والی کو ساتھ چلنے کو نہیں کہا کیوں کہ وہ
مجھے کبھی دل سے تسلیم کر ہی نہیں پائے تھے، بس بدنامی کے ڈر سے وہ مجھ سے
شادی پر تیار ہوئے تھے ۔ پھر ایک دن مجھے پتہ چلا انہوں نے وہاں دوسری شادی
کر رکھی ہے اس دن مجھے اپنی اوقات پتہ چلی اور میری نفرت بھرتی گئی۔
میں یہی سوچتی رہی آخر مجھ میں کیا کمی تھی، مجھے کس ضرم کی سزا ملی میرا
تو کوئی قصور نہیں تھا۔“
وہ بولتے ہوئے روہانسی ہو گئی اس وقت وہ بے بسی، غصے، نفرت کی انتہا پر
تھی۔ آج بہت سالوں بعد وہ پھر سے خود کو دنیا کی انتہائی مظلوم خاتون سجھ
رہی تھیم سے لگ رہا تھا اس پر بہت ظلم ہوا مگر وہ یہ نہیں سمجھ رہی تھی کہ
تقدیر کا لکھا کوئی نہیں بدل سکتا۔
“ انٹی! آپ کو لگتا ہے کہ آپ پر ظلم ہوا ہے اور اس کی ذمہ دار میری ماما ہے
رائٹ ؟ “ اسنے بڑے آرام سے پوچھا۔
“ کیا بے وقوفوں والا سوال ہے۔ ظاہر ہے وہی ہے۔ “ شازمہ نے ہلکا سا قہقہ
لگا کر کہا۔
“ غلط،،،،،، اس سب کی ذمہ دار میری ماں نہیں ہے اس سب کے ذمہ دار نانا تھے۔
“ اسنی اونچی آواز میں کہا۔
“ ہاہاہا میرے بابا ،،،،، لڑکی تم پاگل ہو چکی ہو تم کچھ بھی کرلو میری
برباد زندگی کی ذمہ دار تمہاری ماں ہی ہے سمجھی۔ “ اس نے انگلی سے تنبیہ
کرتے ہوئے کہا۔
“ آنٹی یہاں آپ غلظی کر گئی، میری ماں نے جب گھر بتایا تھا وہ کسی کو پسند
کرتی ہے تو ،،، آپ سب لوگوں کو ان کی جہاں مرضی تھی شادی کرنے دی ہوتی تو
یہ سب نہ ہوا ہوتا۔ پیار کرنا کوئی گناہ نہیں ہے پسند کی شادی کا حق اسلام
نے دیا ہے کہ جہاں بچہ بچی رضی ہو انکی شادی کر دی جائے۔ مگر یہاں تو انا
کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے اور کئی زندگیاں اجڑ جاتی ہیں۔ آپ لوگوں کو جب
پتا چلا وہ کسی کو پسند کرتی ہیں آپ لوگوں نے انکی زبردستی شاسی تہ کردی ؟
یہی وجہ تھی جس نے انہیں گھر چھوڑنے پر مجبور کیا۔ کس نے کہا پسند کی شادی
گناہ ہے ارے سب سے پہلے اسلام میں پسند کی شادی پتہ کس نے کی تھی ؟ حضرت
خدیجہ نے اور اس سے بھی ہمارے بڑے سبق نہیں سیکھتے۔ پسند کی شادی کو انا کا
مسیلہ بنا لیا جاتا ہے یہاں تک کے قتل بھی کر دیا جاتا ہے کئی گھر اجر جاتے
ہیں۔ پر لوگ نہیں سمجھتے ۔
دوسری غلطی نانا نے آپ کی شادی کر کے کی ایک بیٹی کو انا نے برباد کر دیا
ساری زندگی رشتوں کو ترستی مر گئی تو دوسری کو عزت بچانے کے لئے برباد کر
دیا۔ کیا اسی لئے اولاد کو پال پوس کر جوان کیا جاتا ہے تاکہ وقت آنے پر
انکی قربانی کی جا سکے۔ ایک کو خاندان سے بے دخل کر دیا وہ رشتوں کو ترستی
رہی دوسری بے جوڑ بندھن نبہاتی رہی کیا ملا؟ اگر تب میری ماں کی بات مان لی
ہوتی تو آج یہ سب نہ ہوا ہوتا جو ہو رہا ہے۔ “
“ بس کرو “ شازمہ نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے اور وہاں سے چلی گئی ،،،
(جاری ہے ) |