نئی نسل اسے جدی پشتی امیر کبیر سمجھتی تھی۔ وہ بھی یہ ہی
بتاتا اور ظاہر کرتا تھا۔ جو جانتے تھے وہ بھی اس کے اثر و رسوخ سے خوف زدہ
ہو کر اس جھوٹ کو حقیقت کہتے تھے۔ کون اس خواہ مخواہ کے معاملے میں پڑ کر
گرم ریت سے اپنی پسلیوں کی ٹکور کرتا۔ ہاں البتہ یہ حقی سچی بات ہے کہ اس
نے کوٹھیاں‘ کاریں‘ بنک بیلنس‘ عزت‘ شہرت اور شاہی اثر و رسوخ شاہی گماشتگی
کے حوالہ سے نہیں کمایا تھا۔ شاہی اداروں کے کارکن چوری کے لیے خود اس کے
قریب آئے تھے۔ ان کی قربت کا اسے یہ فائدہ ہوا تھا کہ بہت سی سرکای کٹوتیوں
سے نجات پا گیا تھا۔ اب نئے زمانے میں اسے بجلی پانی اور گیس کی سہولت مفت
میں حاصل ہو گئی تھی۔ متعلقہ اہل کار کھانے پینے کے لیے حاضر ہوتے رہتے
تھے۔ منتھلی کی تاریخ طے تھی۔ مقررہ تاریخ پر آتے جیب گرم کرتے اور وہ
جاتے۔ میٹر آگے پیچھے کرنے کو اس کے منشی کو کہنا نہیں پڑتا تھا بل کہ وہ
خود ہی بڑی ذمہ داری سے اپنا فرض نبھاتے۔ وہ جانتے تھے کوتاہی یا بغاوت کی
صورت میں رسی ان کے تکیے کی زینت بن جائے گی۔
ہر موجود شے اس کے منفی عمل اور یا بئی مانیے تیرا آسرا کا ثمرہ تھی۔ یہ ہی
کوئی پچپن سال پہلے وہ ملک بدرالدین سیٹھ نہیں بدرا ماچھی تھا۔ وہ لالہ جیا
رام کا بااعتماد گھریلو ملازم تھا۔ لالہ جیا رام کو یقین تھا کہ وہ حد درجہ
ایمان دار ہے اور ہیرا پھیری سے کوسوں دور ہے۔ وہ بڑی چابکدسی سے لالہ جیا
رام کی چیزوں پر پلاس ڈالتا تھا حالاں کہ لالہ چار آنکھوں والا تھا۔ اس نے
پہلے پہل نظرانداز چیزیں کمال ہوشیاری سے اینٹی کیں اس کے بعد اس نے زیر
تصرف اشیا پر باری باری ہاتھ ڈالا۔ ہاں البتہ فوری استعمال کی چیزوں سے دور
رہا۔ کبھی کھبار استعمال میں آنی والی اشیا کی حیثیت سہی لیکن فوری کی سی
حیثیت نہیں ہوتی۔
دونوں میاں بیوی ہوشیار چلاک تھے اس لیے انہوں نے گھر کا خرچہ ماہانہ
عوضانے پر چلایا‘ انعام کونام اور چورائی گئی اشیا سے موصولہ رقم کو پس
انداز کیا۔ یہ رقم ایک عرصے کے بعد معقولیت اختیار کر گئی۔ لالہ جیا رام
سورگ باسی ہوئے تو اس نے ملازمت چھوڑ دی اور اپنے ابائی گاؤں جیجاپور جا کر
پرچون کی دوکان ڈال لی۔ مکان آبائی تھا اس لیے کوئی کرایہ بھاڑا نہ دینا
پڑتا تھا۔ نماز روزے کی پابندی کرنے لگا لوگ اسے نمازی پرہیزی سمجھ کر اسے
ایمان دار خیال کرتے تھے۔ وہ نہٰیں جانتے تھے کہ وہ سیر میں آدھ پاؤ کی
ڈنڈی لگاتا ہے۔ عمرہ کرکے آنے کے بعد آدھ پاؤ ملاوٹ بھی کرنے لگا۔ اب کہ
ہاتھ میں تسبیح سر پر ٹوپی بھی سج گئی تھی۔ گٹھ مٹھ داڑھی رکھنے سے اس کا
چہرا تقدسی سا ہو گیا تھا۔ پھر اس نے دوکان پر دودھ رکھنا شروع کر دیا۔
دودھ پاس کھڑے ہو کر حاصل کرتا۔ قطرہ پانی کا نہ ڈالنے دیتا۔ خود بھی ایمان
داری کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے دودھ میں پانی نہ ڈالتا بل کہ پانی میں
دودھ ڈال کر اس کی طہارت کا اہتمام ضرور کرتا۔
گاؤں کو قصبہ اور قصبہ کو شہر ہونے میں سال کے سال لگ گیے کرث کنجوسی اور
دونمبری رنگ لائی۔ اس کمائی سے اس نے تھوڑے داموں کئی مکان اور کئی ایکڑ
زمین سستے اور اونے پونے داموں میں خرید کر لی۔ گاؤں جب قصبہ بنا تو اس
جائیداد کی قیمت بڑھ گئی۔ جب قصبہ شہر ہوا تو قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے
لگیں۔ اس نے تعمیرات کے ساتھ ساتھ زمین کو چھوٹے چھوٹے رہائشی پلاٹوں کی
شکل دے دی۔
اس کی بیوی بھی ہیرا پھیری کی شطرنج کی زبردست کھلاڑی تھی۔ بدقسمتی سے وہ
ہیراپھری کی راہ میں اس کے ساتھ آخر تک سفر نہ کر سکی اور موت کی آغوش میں
چلی گئی۔ پہلے وہ یک مکھی تھا جب کہ عاشاں سہ موکھی تھی۔ اب وہ اکیلا
چومکھی ہیرا پھیری کا گتکا چلا رہا تھا۔ دولت کے انبار لگ چکے تھے۔ ہر کوئی
اس سے سلام دعا میں فخر محسوس کرتا تھا۔ مقتدرہ اداروں کے اہل کار اس کے
اپنے ہو چکے تھے۔ شہر میں اس کی اپنی مارکیٹیں تھیں۔ ہر طرف سے نوٹ اس کے
کھیسے لگتے تھے۔
دوسری راتوں کی طرح اس رات بھی وہ حساب کتاب کرکے چارپائی پر بلاعاشاں آ
رہا۔ دھندےکار عورتوں میں عاشاں کا سا مزا نہ تھا۔ ان کا مزا اور پیار جعلی
اور عارضی تھا۔ وہ کسی دھندےکار عورت کو مستقل سر پر سوار کرکے مال کا
اجاڑا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جب ضرورت پڑتی اس رات کے لیے کسی دھندےکار کو
بلوا لیتا۔ اس رات وہ اداس اور کسی وجہ سے غم گین تھا۔ کوئی دھندےکار بھی
نہ بلوائی تھی۔ دیر تک بےچینی کی کروٹیں بدلتا رہا۔ آخر نیند نے آ گھیرا۔
خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ وہ مر رہا ہے اور جان نکلنے سے بڑی خوف ناک ازیت
میں مبتلا ہے۔ آخر شدید ازیت ناکی کے بعد جان نکل ہی گئی۔ اسے سفید لباس
میں خالی ہاتھوں لحد میں اتار دیا گیا۔ چند پھول ہی اب کہ اس کا اثاثہ تھا۔
کوئی دیر تک وہاں نہ ٹھہرا۔ اس کی اپنی اولاد بھی اسے اکیلا چھوڑ کر چلتی
بنی۔ ہر کسی کو سیٹھ صاحب کے دستر خواں پر پڑے کھانے پر ٹوٹ پڑنے کی جلدی
تھی۔
نئی رہائش کا اکامتی ہوئے اسے زیادہ دیر نہ ہوئی ہو گی کہ حساب کتاب کرنے
والے فرشتے آ دھمکے یہ ہی نہیں عجب طرح کے کیڑے مکوڑے بچھو اور سانپ بھی اس
کی خبر گیری کو آ گیے۔ وہ دو نمبری سب کے لیے کرتا تھا لیکن بھگتا اس اکیلے
کو پڑ رہا تھا۔ اسے بڑا دکھ ہوا کہ ایک آدھ گھنٹے بھی اس کا ساتھ نہ دے سکا
۔ وہ ان سے کتنا پیار کرتا تھا۔ ان کے منہ سے نکلی کو ٹھکراتا نہ تھا اب جب
کہ وقت پڑا تھا کوئی اس کے ساتھ نہ تھا۔ یہ کیسی اولاد تھی۔ جھک کر سلام
کرنے والے ساتھ دینے کا وعدہ کرنے والے سکرین سے ہٹ گیے تھے جیسے وہ ان کا
اس سے کوئی رشتہ ناتا ہی نہ رہا ہو۔ فرشتے کیڑے مکوڑے بچھو اور سانپ ہی کیا
دونمبری کا شکار ہونے اور موت کی آغوش میں چلے جانے والے چھینے کی واپسی کے
لیے آ دھمکے تھے۔ وہ تو خالی ہاتھ اکیلا ہی اس گورکوٹھری میں حالات کے رحم
کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس خوف ناکی نے اس کی نیند چرا لی اور وہ ہڑبڑا
کر اٹھ بیٹھا۔
وہ کئی لوگوں کو مرتے دیکھ چکا تھا۔ ان آخری رسومات میں شامل ہو چکا تھا۔
مرگ سوئم اور چالیسموں کے پکوان بھی اڑا چکا تھا۔ اس نے کئی بار دیکھا کہ
مردہ خالی ہاتھ منوں مٹی تلے دبا کر لوگ اپنی راہ لیتے تھے۔ دور کیا جانا
ہے وہ خود بھی اپنے مائی باپ کی قبر پر وقت کی قلت کے سبب نہ جا سکا تھا۔
عاشاں سے پیار کے بڑے دعوے باندھتا تھا قبر پکی کروانا تو بڑی تھی کہ اس پر
دام اٹھتے تھے دعا فاتحہ کے لیے بھی اس کی قبر پر نہ جا سکا تھا۔ حالاں کہ
اسے پیدل نہیں جانا تھا۔ اس نے ارادہ کیا کہ سب کچھ غریبوں مسکینوں میں
بانٹ دے گا اور تامرگ توبہ کے دروازے پر دستک دیتا رہے گا۔
وہ ناشتے کے لیے طعام گاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ سیٹھ بدرالدین نے گزری رات
کا خواب اپنے بیٹوں اکلوتی بیٹی اور بہوؤں کو سنایا۔ سب نے سنا اور اس پر
کوئی غور نہ کیا۔ جب اس نے اپنا ارادہ ظاہر کیا تو ان کے ہاتھوں کے لقمے
منہ تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔ سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور گفتگو کدے
کی جانب بڑھ گئے۔ کچھ دیر بعد واپس لوٹے اور انہوں نے باپ کو ساتھ آنے کا
اشارہ دیا۔ وہ کچھ سمجھ نہ پایا اور ان کے ساتھ ہو لیا۔ کوئی کچھ نہ بولا۔
سفر بڑی خاموشی سے کٹ رہا تھا۔ پہلے وہ ایک دربار پر گئے۔ کچھ دیر رکے پھر
چل دیے۔ شاید وہ اسے وہاں چھوڑنا چاہتے تھے لیکن واپسی کے ڈر سے دور کے شہر
کے بڈھا ہاؤس کے دروازے پر آ رکے۔ وہ ان کی اس حرکت سے حیران رہ گیا۔ انہوں
نے وہاں اس کا نام رجسٹر کروایا اور بلا سلام دعا لیے اسے اکیلا چھوڑ کر
چلے گئے۔ اس عمل میں اس کی لاڈلی بیٹی اور انتہائی وفادر ڈرائیور شوکی بھی
شامل تھا۔ اسے اپنی اولاد کے فیصلے پر بڑی حیرانی ہوئی لیکن یہ سوچ کر بڈھا
ہاؤس میں داخل ہو گیا کہ آخر اسے اکیلے ہونا ہی تھا ہاں البتہ قبر اور بڈھا
ہاؤس کے لباس میں فرق موجود تھا۔ |