زندگی انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے ۔ ہر چھوٹا بڑا واقع
انسان کی زندگی پہ اپنے اثرات چھوڑتا ہے۔ کچھ لوگ اُن سے سبق سیکھتے ہیں
اور کچھ لوگ اُن کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ میری زندگی میں بہت سے واقعات
پیش آئے جن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ لیکن کچھ دن پہلے ایک بظاہر بہت
چھوٹا سا واقعہ پیش آیا جس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔
اللہ کے فضل و کرم سے روضئہ رسول کی زیارت نصیب ہوئی۔ رمضان کا مبارک دن
تھا۔ مسجد نبویﷺ میں مخیر حضرات بلا امتیاز ہر خاص و عام کے لئے افطاری
کاوافر بندوبست کرتے ہیں۔ ہزاروں کا مجمعہ بیک وقت افطار کرتے ہیں۔۔ وہ
سماں لفظوں میں بیاں کرنا مشکل ہے۔
میں بھی اک صف میں افطاری کے لیے بیٹھا ہواتھا۔ افطار کا سامان چھوٹی چھوٹی
ٹرالیوں میں بھر بھر کے لایا جا رہا تھا۔ زم زم، کھجوریں، بریانی، دہی،
جوس، پھل فروٹ، لسی الغرض وہ کونسی نعمت تھی جو نہیں تھی۔
مخیر حضرات کُرسی لگائے بیٹھے ہیں پاکستانی، ہندوستانی، بنگالی، مصری،
سودانی ہر رنگ و نسل کا شخص خدمت میں لگا ہے۔ ہر اک کے آگے افطاری لگائی جا
رہی ہے۔
ہماری صف پہ اک پاکستانی یہ خدمات انجام دے رہا تھا۔
پانی کا کارٹن لایا اور سب کے آگے پانی رکھتا گیا۔
جوس کا کارٹن لایا اور سب کے آگے جوس رکھتا گیا۔
میں اُس کی اس خدمت کو دیکھ کر دل ہی دل میں کہتا کہ کتنا نیک انسان ہیں،
اک رمضان، پھر روضہ اور پھر مسجد نبوی، کتنا اجر اور ثواب کما رہا ہے ۔
اسی کیفیت میں، میں اُس کو دیکھ کر رشک کر رہا تھا کہ۔ ایک دم سے میرا
ماتھا ٹنکا۔۔ ارے یہ کیا۔ وہ سب کو کوئی بھی چیز دیتا تو اک خالی جگہ پر دو
رکھتا اور ساتھ پڑے ہوئے شاپر میں دو مزید ڈال دیتا۔ میں تجسوس سے یہ تماشا
دیکھتا رہا۔ جب سب کچھ ختم ہو گیا اور مغرب کی اذان کا وقت قریب ہوا تو وہی
نوجوان جا کر اُس خالی جگہ پر بیٹھ گیا۔
وہ نظریں چُرا کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ میں سوچنے لگا، اس کے جو اختیار
میں تھا اِس نے اُس میں سے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے خود
کو فائدہ پہنجایا۔ ابھی یہ فائدہ تھا یا نقصان یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا
ہے۔
وطنِ عزیز میں ایسے بہت سے صاحب اختیار لوگ ہیں جو اپنا مستقبل سنوارنے کے
لیے جائز و ناجائز طریقوں سے اپنے اپنے شاپر بھر رہے ہیں۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔۔ آمین |