بچے کی پہلی درسگاہ

بچے پالنا کوئی بڑا کام نہیں ہے جانور اور پرندے صدیوں سے یہ کام بڑے احسن انداز سے کرتے آرہے ہیں۔
بڑا کام ہے بچوں کی تربیت
اور تربیت توجہ اور وقت مانگتی ہے۔(قاسم علی شاہ)

میری یہ تحریر معاشرے کی اس شخصیت کے لیے ہیں جس نے اس معاشرے کی بنیاد رکھنی ہے۔جس کی کوششوں سے ہمارے معاشرے میں تبدیلی آنے ہے۔جس نےبنیاد کا وہ پتھر بنانا ہے جس پر کل کو معاشرے کی پوری عمارت کھڑی ہونی ہے۔وہ شخصیت میری وہ مائیں بہنیں ہیں جو اس وقت میری یہ تحریر پڑھ رہی ہیں۔آج ہر ماں چاہتی ہے کہ اسکا بچہ آدب اور تمیز والا بنے۔وہ ایک اچھا انسان ہو۔

حضرت علی بن عثمان ہجویری فرماتے ہیں“برتن سے نکلتا وہی ہے جو اس میں ڈالا جائے“۔ دیکھیں جی بچے کی پہلی درسگاہ اسکی ماں کی گود ہوتی ہے۔یہ بچے کی زندگی کے وہ پانچ سے چھ سال ہیں جس میں اسکی ساری دنیا اسکا گھر ہوتا ہے۔اسکے سیکھنے کی ابتدا آپ سے ہونی ہوتی ہے۔زندگی کا پہلا سبق پڑھانے والی ہستی آپ ہیں۔

ایک واقعہ میرے زہن میں آرہا ہے۔آپ نے بھی وہ کہیں نا کہیں پڑھا اور سنا ضرور ہو گا۔میں اس واقعہ میں ایک چھوٹی سی بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔جس میں ایک بچہ جو کسی دور دراز کے علاقے میں تعلیم حاصل کرنے کے غرض سے جا رہا ہے ۔تو اسکی ماں بڑے پیار سے اسکو ایک بہت پیاری نصیحت کر رہی ہے کہ بیٹا “تمہارا جتنا مرضی نقصان ہو رہا ہو کبھی جھوٹ نہیں بولنا۔ہمیشہ سچ بولنا بیٹا“وہ بچہ ماں سے یہ دعائیں اور نصیحتیں لے کر نکلتا ہے تو دیکھیئے پھر اسکا اثر کیا کیا ہوتا ہے۔پورے پورے قافلے کو ڈاکوؤں سے بچا کر ان ڈاکوؤں کی بھی توبہ کروادیتا ہے۔صرف ایک اس ماں کی نصیحت کی وجہ سے ۔
صرف اتنا ہی نہیں ہم سب جانتے ہیں وہ نصیحتوں والی ما ں کا بچہ کل کو بڑا ہو کر شیخ عبدالقادر جیلانی بن جاتا ہے اور لاکھوں لوگوں کی بھلائی اور بہتری کا سبب بنتا ہے۔

اب ذرا ایک منٹ رک کر سوچئے! آپکا بچہ بھی روزانہ پڑھنے کے لیئے جاتا ہے۔آپ میں سے کتنی مائیں ہی جو روزانہ انکو کوئی اچھی بات بتا کر اور نصیحت کر کے بیجھتی ہیں کہ بیٹا آج اس بات پر عمل کرنا ہے۔بلکہ افسوس کے ساتھ کہنا پر رھا ہے کہ صبح صبح یہ ہورہا ہوتا کہ ماں آپنے لاڈلے کے لیئے لنچ تیار کرتی ہے اور بیگ میں ڈال کر کہتی ہے کے سارا خود ہی کھا نا کسی کو دینا نہ۔۔۔۔۔۔۔ہائے افسوس یہ کسی کو نہ دینے والا درس صبح ہماری ماں نے کیوں دینا شروع کر دیا۔یقین کریں میں نے لوگوں کو سسکتے ہوئے دیکھا ہے باپ بیمار پڑا ہوتا ہے اور بچے دوائی لا کر نہیں دیتے ہیں۔ ابا جی کی میت پڑی ہوتی ہے کفن کے ٹائم پر بچے کھسنے لگ پڑتے ہیں۔کہ کہیں خرچہ نہ ہو جائے۔۔وجہ کیا ہے؟

ساری عمر کسی کو نہ دینے کا درس جو ملا ہوتا ہے۔کبھی یہ سکھایا ہی نہٰیں گیا ہوتا کے خدا کے بندے کسی کی مدد کر دینی ہے،کسی کو آسانی دینی ہے کسی کو دینا بانٹنا سکھایا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔دیکھیں جی ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ویسا ہی کرتے ہیں جیسا آپنے بڑوں کو کرتا دیکھتے ہیں ۔ایک لڑکی جس نے کھانا بنانا آپنی ماں سے سیکھا ھے وہ زیادہ تر ریسپیز آپنی ماں والی ہی استعمال کرتی ہے۔اسی طرح اگر ایک ما ں میں اچھی یا بری عادت ہے تو وہ نسلوں میں چلی جائے گی۔آپکے ایک اچھی عادت آپکی پوری کی پوری نسل سنوار سکتی ہے۔اور ایک بری عادت پوری نسل تباہ ہو جائے گی۔آپ کنجوسی کرتے ہیں وہ نسلوں میں چلی جائے گی۔اللہ نے آپکو جو آسانیاں دی ہیں انکو بانٹنا شروع کریں۔اور بچوں کو ساتھ اس کام میں شامل کریں انکو بانٹنا سکھائیں۔بچوں کے ساتھ مل کر اچھی اچھی سرگرمیاں کیا کریں۔مثال کے طور پہ انکے ساتھ مل کر پرندوں کو باجرہ ڈالیں۔گلی میں کوئ پھیری والا آتا ہے تو ایک پانی کا پیالہ دے کر بجھوادیں۔ انکے بیگ میں ایک اضافی پنسل رکھ دیں کہ بیٹا کلاس میں جسکو ضرورت ہو اسکو دے دینا ۔کبھی ایک کی بجا ئے دو لنچ ڈال دیں کہ جو بچہ لنچ نہ لے کے آیا ہو اسکے ساتھ مل کے کھانا یقین باٹنے سے بڑھتا ہے ۔ایک دفعہ کر کے تو دیکھیں پھر نتیجہ دیکھیئے گا۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم شکر ادا کرو میں تمہیں اور دوں گا ۔اب شکر ادا کرنا کیا ہے ،ہم زبان سے کہتے رہے کہ اللہ تیرا شکر ہے۔بس شکر ادا ہو گیا؟ آپ اپنے بچے کو کہتی رہیں تم بہت اچھے ہو ۔تم بہت اچھے ہو۔کیا اسکو یقین آئے گا ؟یہی بات ایک دفع اسکو گلے سے لگا کر کہیں کہ بیٹا تم بہت اچھے ہو آپکے ایک دفعہ کہنے سے اسکو لگنے لگ جا ئے گا کہ وہ بہت اچھا ہے کیونکہ آپ نے محسوس کروایا۔تو شکر کا تعلق بھی محسوس کروانے سے ہے؟مائیں خاص اس بات کا خیال رکھیں کہ سخی ماں کا بچہ سخی ہو گا۔شک گزار ماں کا بچہ شکر گزار ہوگا۔بچہ کتابیں اور مضمون پڑھ کر شکر گزار اور سخی نہیں ہو گا ہا ں امتحان میں اچھے نمبر ضرور لے گا!

بچے کے ساتھ ماں والا تعلق بنائیں آج کے دور کا المیہ یہی ہے اج کی مصروف بہت ہے۔اگر پوچھا جائے کہ بچوں کے ساتھ وقت گزارتی ہیں تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ جی وقت نہیں ملتا پوچھا جائے تو پتا چلتا ہے کے محترمہ کی مصروفیت یہ ہے کے انھوں رات کو ٧ سے ١٠ بجے تک ٹی وی سییریل دیکھنے ہوتے ہیں۔اور اس وقت میں بچوں کو بھی ساتھ بٹھا لیتی ہیں۔ان ڈراموں میں ہوتا کیا ہے ۔وہی ساس بہو کہ جھگٹرے اور فضول قسم کی لغویات جنکو سن کر بچے وقت سے پہلے ہی بڑے ہو جا تے ہیں اور وہی منفی سوچوں کے ساتھ بڑھتے ہیں۔بچہ گھر آتا ہے تو بس چند منٹ اسکے ساتھ گزاریں اس سے اپنا اور اسکا سارا دن ڈسکس کریں اس سے پوچھیں کہ اج کا دن کیسا رہا اج کیا سیکھا اس نے۔اس میں چھوٹی چھوٹی عادتیں پیدا کریں اج ہی اسکے ہاتھ سے ایک پانی کا پیالہ بھروا کر چھت پر رکھوائیں ۔

یقین کریں اگر ایک بھی اچھا فرد اس معاشرے کو دے دیا تو پورا معاشرہ سدھر سکتا ہے۔اچھا اکثر والدین کاجوا ب ہوتا کہ ہم تو ان پڑھ ہیں ہم انکو کیا سکھائیں؟ تو میرا ان سے ایک سوال ہے کیا ہر ولی اور ہر بڑے شخص کی ماں نے پی ایچ دی کو ہوئی تھی۔خدا کے بندوں پوری زندگی گزار دی ہے ابھی تک کچھ اکھٹا نہیں کر سکے انکے لیئے؟ اخری بات سے بات ختم کرتا ہوں۔

بچے پالنا کوئی بڑا کام نہیں ہے جانور اور پرندے صدیوں سے یہ کام بڑے احسن انداز سے کرتے آرہے ہیں۔
بڑا کام ہے بچوں کی تربیت
اور تربیت توجہ اور وقت مانگتی ہے۔۔

Mohsin khaliq
About the Author: Mohsin khaliq Read More Articles by Mohsin khaliq: 2 Articles with 1669 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.