آزادی سب کے لیے

تحریر: دیا خان بلوچ، لاہور
تمہیں پتا ہے آزادی کیا ہوتی ہے؟زینب نے شرارت سے اپنی پیاری پیاری آنکھیں گھما کر پوچھا۔
کیا؟ زلیخا نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
یہ ہوتی ہے۔ زینب نے آگے بڑھ کر اس کی ننھی چڑیا کا پنجرہ کھول دیا۔ بے بس سی چڑیا نے جب رہائی کا دروازہ کھلا دیکھا تو فوراًاڑان بھری اور دور درخت پر جا بیٹھی۔ وہاں وہ خوب زور سے شور کرنے لگی۔ چوں ،چوں چوں۔تھوڑی ہی دیر میں وہاں ننھی ننھی چڑیوں کا ایک ہجوم لگ گیا تھا۔ سب نے شور مچا دیا تھا،تھوڑی دیر آزادی کے گیت گانے کے بعد وہ سب اپنی اپنی منزل کی جانب راونہ ہوگئیں۔

ننھی زلیخا نے اپنی چڑیا کو آزاد ہوتے ہوئے دیکھا تو وہ رونے لگی۔ایک ہفتہ پہلے ہی اس نے بابا جان سے ضد کر کے یہ پیاری سی چڑیا منگوائی تھی۔ اس کی دوست نے جب سے اسے بتایا تھا کہ اس کے پاس ایک پیارا سا پرندہ ہے جسے وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ اس سے ڈھیروں باتیں کرتی ہے اور وہ خاموشی سے ساری باتیں سنتا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔مجھے پرندے بہت پسند ہیں میرا دل چاہتا ہے کہ میرے پاس ایک بڑا سا پنجرہ ہو اور میں سب کو اپنے پاس رکھ لوں۔ اس کی دوست آنکھیں میچ کر بولی۔

اس دن سے زلیخا نے بابا جان سے ضد شروع کر دی کہ مجھے بھی ویسی چڑیا چاہیے۔ انہوں نے لاکھ سمجھایا لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہی،تب ایک دن جب بابا جان شام کو آفس سے واپس آئے تو ایک پنجرے میں قید ننھی سی پیاری چڑیا بھی لے آئے۔زلیخا تو خوشی سے پھولے نا سمائی تھی۔وہ اس چڑیا کا بہت خیال رکھتی تھی۔اس کے کھانے پینے کا اس کے آرام کا،گرمی کا ،حتی کہ وہ جہاں جاتی اسے ساتھ لے جاتی۔بس اسکول جتنے گھنٹے گزرتے تھے وہ بہت مشکل سے کٹتے،واپس آتے ہی وہ اس سے باتیں کرنے لگ جاتی۔ ہوم ورک بھی اس کو ساتھ بٹھا کر کیا جاتا۔بس ایک بات اسے کبھی کبھی پریشان کرتی کہ وہ کم بولتی تھی۔بس صبح کے وقت جب سارے پرندے آسمان پر ادھر ادھر آزادی سے اڑ رہے ہوتے تو ننھی چڑیا اپنے پروں کو دیکھتی جو کٹ چکے تھے۔شاید وہ اپنے غم کی داستان سناتی تھی جو زلیخا سمجھ نا پاتی تھی،یا پھر وہ تسبیح کر تی اور دعا کرتی تھی اپنی آزادی کی۔

زینب زلیخا کی خالہ زاد بہن ہے،وہ ان دنوں اپنی گرمی کی چھٹیاں گزرانے کراچی آئی ہوئی تھی۔وہ زلیخا سے تین سال بڑی ہے،وہ چھٹی جماعت کی طالبہ ہے۔زلیخا اس سے تین سال چھوٹی ہے اور تیسری جماعت کا طالبہ ہے،۔زینب کی دوستی زلیخا سے بہت گہری ہے۔اب کی بار وہ آئی تو اس نے دیکھا کہ زلیخا نے ایک چڑیا پالی ہوئی ہے۔ اسے بہت افسوس ہوا کہ ایک بے زبان پرندے کو اس نے قید میں رکھا ہوا ہے۔اس نے زلیخا کو کہا کہ وہ اس کو اپنے پاس قید کیوں رکھتی ہے؟تو اس نے کہا کہ یہ مجھے پسند ہے۔بس اس لئے؟زینب نے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔جی ہاں۔اس کے پر کتنے پیارے ہیں۔اس کی چونچ دیکھو زینب، کتنی باریک سی پیاری ہے۔لیکن زینب تو کچھ اور سوچ رہی تھی۔اس نے سوچا کہ وہ آج زلیخا کو سمجھائے گی کہ ان معصوم پرندوں کو قید میں رکھنا اچھی بات نہیں ۔اس لئے زینب نے اس سے سوال کیا کہ آزادی کیا ہے؟زلیخا سوچنے لگی اور بہت سوچنے کے بعد اس نے ایک ہی جواب دیا۔جو ہم چودہ اگست کو مناتے ہیں اسے آزادی کہتے ہیں۔زینب اس کے جواب پر ہنسنے لگی۔

ارے نہیں۔آزادی کا مطلب ہے ،ہم سب کو اپنی مرضی اورآزادی سے رہنے کی اجازت ہو ،جیسے کسی کو قیدمیں نہیں رکھا جا سکتا،سب اپنے اپنے گھروں میں خوش رہتے ہیں۔یہ پرندے ان کھلی فضاؤں میں آزادی سے اڑتے ہوئے ہی پیارے لگتے ہیں۔اب پتا چلا آزادی کسے کہتے ہیں؟زینب نے پوچھا۔اچھا اگر،تمہیں ایک کمرے میں بند کر دیا جائے،تمہیں سب آسائشیں ملیں،تمہاری ہر ضرورت پوری کی جائے تو کیا تم اس ایک بند کمرے میں خوش رہو گی؟

نہیں،بالکل بھی نہیں۔زلیخا نے فوراً نفی میں سر ہلایا۔بالکل اسی طرح یہ پرندے بھی قید میں نہیں رہ سکتے۔تم نے دیکھا،یہ ننھی چڑیا کتنی اداس بیٹھی ہوئی تھی،لیکن جب آزاد ہوئی تو کیسے خوشی کے نغمے گا رہی تھی۔اب سمجھ آیا کہ آزادی کیا ہے؟

جی،سمجھ آگئی۔تو اس کا مطلب ہمیں ان پرندوں کو قید نہیں کرنا چاہئے ۔اﷲ تعالیٰ نے ہر ایک کو آزادی کا حق دیا ہے ۔بولتے بولتے اچانک زلیخا زینب کے گلے لگ گئی اور بولی۔تم میری بہت اچھی دوست ہو زینب۔تم نے آج مجھے بہت اچھا سبق پڑھایا ہے،میں آئندہ کبھی بھی پرندوں کو قید نہیں رکھوں گی،اور اپنی دوستوں کو بھی آزادی کی اہمیت بتاؤں گی ۔

یہ تو بہت اچھی بات ہے زلیخا۔آؤ میں تمہیں اپنی ڈرائنگ دکھاؤں جو میں نے بنائی ہے۔یہ کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142814 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.