پاکستانی قومیت اور اسکے اجزائے ترکیبی کا حال

قوم سے مراد افراد کا ایسا گروہ ہے جن میں وحدت فکر اور ہم آہنگی ہو، ایسی وحدت جس کی اساس لسانی ، جغرافیائی یا نسلی بنیادوں کی بجائے مذہب پر رکھی گئی ہو۔حقیقت یہ ہے کہ انسان چاہے جتنی بھی ترقی کر لے وہ مذہب کی ضرورت سے آزاد نہیں ہو سکتا اور نہ ہی سائنس یا کوئی دوسری چیز مذہب کی جگہ لے سکتی ہے۔ آج بھی انسانیت کی اس نام نہاد آزادی اور ظاہری ترقی کی چکا چوند کے باوجودمذہب کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اقوام کے رویوں اورمزاج میں آج بھی مذہبی عنصر نمایاں نظر آتاہے اور بین الاقوامی سطح پر سارے رجحانات اورفیصلوں کے پسِ پردہ مذہب ہی کار فرمانظر آتاہے۔مذہب انسان کی بنیادی اورفطری ضرورت ہے۔ اسی لیے مذہب کو بنیاد بنا کر قیام پاکستان کا جواز فراہم کیا گیا تھا اوربرصغیر کے مسلمانوں کومذہب کی بنیاد پر ایک الگ تشخص اور الگ قوم تسلیم کروا کے ان کو نعرہ دیا گیا تھا کہ "پاکستان کا مطلب کیا "لا الہ الا اللہ" اور بالآ خر اسی بنیاد پر پاکستان کا وجوداس خطہء ارضی پر نمودار ہوا تھا۔ علامہ اقبال نے مذہب کی بنیاد پرقومیت کے تصور کی وضاحت اپنے اس شعر میں کی ہے ؎
قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

موجودہ پاکستان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نظریے سے محروم لوگوں کی ایک بھیڑ ہے جو ایک جغرافیائی حدود میں سمٹ کر رہ گئی ہے کیونکہ قیام پاکستان کے وقت اسلاف نے اس جغرافیائی حد بندی کے اندر رہنے والوں کو ایک قوم بنانے کے لیے اور وحدتِ فکر فراہم کرنے کیلیے جونظریہ اور اسکے اجزاء ترکیبی فراہم کیے تھے ایک ایک کر کے وہ ہم نے کھو دیے ہیں۔

اب تو نہ قوم بچی ہے اور نہ کوئی قومی اثاثہ سلامت رہ گیا ہے۔قومیت کے اجزا میں سب سے پہلی چیز مذہب ہے۔

مذہب : مذہب کا حال یہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ریاست کا سرکاری مذہب "اسلام" سر کاری سرپرستی سے محروم رہاہے۔یعنی اسلام اپنے دیس میں پردیسی ہے ۔عوام اپنی مدد آپ کے تحت اس فطری اثاثے کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ لیکن اس میں بھی تقسیم در تقسیم کا وہ عمل شروع ہوا جو کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا یہاں تک کہ اب مذہب اسلام اپنے ماننے والوں کے لیے ایک وحدت نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ اس کے ماننے والے اب مسلمان کم اور مسلمان ہونے سے زیادہ دیوبندی،شیعہ، بریلوی اور اہل حدیث وغیرہ بن کر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے لیے اپنی واحد مذہبی کتاب "قرآن پاک" کا دیا ہوانام اختیار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اس کو اپنی شناخت بنانا چھوڑ دیا ہے۔ قرآن پاک نے تو اپنے ماننے والوں کو جو نام دیا تھا وہ تو "مسلمان " تھاسورہء حج میں ہے" ہُوَ سَمٰکُمُ مُسلِمِین ۔اس (ا اللہ ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے" حکیم الامت نے اس قوم کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اْسی وقت اس کے اس مرض کی نشاندہی کر دی تھی۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

آج بھی اگر قرآن پاک کی دی ہوئی اْس شناخت کے علاوہ باقی تما م شناختیں ختم کر دی جائیں تو اس بظاہرایک چھوٹی سی بات پر عمل کر کے امت ایک وحدت بن سکتی ہے۔

مسجد: مسجد مسلمانوں کو آپس میں اتفاق و اتحاد فراہم کرتی ہے اگر مسجد اسلامی فلسفہ کے مطابق تمام سماجی سرگرمیوں کا مرکز نہ ہو بلکہ صرف ایک عبادت گاہ بن کر رہ جائے تو اسلام معاشرے میں نفوذکرنے کی بجائے ایک چاردیواری میں بند ہو کر رہ جاتا ہے۔مسجد بھی ایک عمارت ہی ہوتی ہے اس کو یہ تقدس اور مقام اس لیے حاصل ہو تا ہے کہ وہ اسلامی معاشرے میں عبادت کے ساتھ ساتھ دیگر امور کا مرکز بھی ہوتی ہے۔اگر مسجد محض عبادت گاہ ہوتو دین وہ دنیا کی دوئی کا تصور پیدا ہوتا ہے اوراسلام میں مسجد کے قیام کا جو مقصد ہے وہ کما حقہ ٗ پورا نہین ہو سکتا۔اس کو حاصل کرنے کے لیے کسی خاص مسجد کوصرف قومی مسجد قرار دینا کافی نہیں ہو سکتا جب تک کہ مسجد کا وہ کردار اسے لوٹایا نہ جائے جو اسے دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اسلام نے اسے دیا تھا تا کہ زندگی کی تمام سرگرمیاں نہ صرف مذہب سے بھی جُڑی رہیں بلکہ مذہبی تعلیمات کے تابع بھی رہیں جبکہ فیصل مسجد جسے قومی مسجد قرار دیا جاتا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ سرکاری امور مسجد میں سر انجام پائیں تا کہ انہیں مذہبی رہنمائی اورسرپرستی حاصل ہو لیکن فیصل مسجدکی حیثیت ایک سیر گاہ سے زیادہ نہیں ہے ۔اس کے علاوہ یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اسلام میں مسجد ضرار کی کوئی گنجائش نںی یعنی ایسی عمارت جو مسلمانوں کو جوڑنے کی بجائے ان میں تفریق پیدا کرے وہ مسجد کہلانے کی مستحق نہیں ۔ لہذا مسجد صرف مسجد ہوتی ہے اسے کسی فرقے سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔اگر مسجد کو کسی مخصوص فرقے یا مسلک سے منسوب اورمخصوص کیا جائے گا تو اس کی حیثیت مسجد ضرار سے مختلف نہیں ہو گی۔

ذات پات: ایک اور تقسیم ہے جس کا سرچشمہ ہندو وراثت سے پھوٹتا ہے اور وہ ہے ذات پات کی تقسیم ، جس نے پاکستانی معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے اور قومی وحدت کو پارہ پارہ کر رکھا ہے۔ بعض مذہبی حلقے تو اس کی توجیہہ سورہ حجرات کی اُس آیت سے کرتے ہیں اورذات پات کے حق میں دلائل لاتے ہیں جس میں شعوب و قبائل کو پہچان کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے حالانکہ آیت مذکورہ تو وحدت انسانی کا درس دیتی ہے اور مذہب کے علاوہ کسی بھی تقسیم و تفریق کی صریحاً نفی کرتی ہے۔اگر اسی ذات پات اور اونچ ہی کو پہچان کا ذریعہ قرار دیا جائے توبعض لوگوں کو جن کا تعلق تسلیم شدہ اعلیٰ ذات سے ہے ان کو تو یہ تاویل بھاتی ہے کیونکہ انہیں اس پہچان سے ہر جگہ عزت ملتی ہے ا ور وہ بر تر خیال کیے جاتے ہیں لیکن اُن لوگوں کے لیے یہ تاویل استحصال کاسبب بنتی ہے جن کی پہچان نیچ اور ادنیٰ ذاتوں کے حوالے سے ہوتی ہے۔ وہ چاہے کتنے ہی تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور اعلیٰ کردار کے حامل کیوں نہ ہوں ذات پات سے آلودہ اس معاشرے میں ان کی کوئی حیثیت اور مقام نہیں ۔ جب ان کی پہچان ایک کمین ذات کے حوالے سے ہوتی ہے تو وہ معاشرے میں نیچ تصور کیے جاتے ہیں اوراس بنا پر ذلیل و رسوا ہوتے ہیں اور ایک ناکردہ جرم کی سزا پاتے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد اس اسلامی ریاست میں بھی ہندوؤں کی طرح کچھ ذاتوں کو اعلیٰ اور کچھ کو ادنیٰ سمجھا جاتا ہے اور ہر بڑی ذات والا چھوٹی ذات والے کو کمی کمین، مزارع اور حقیر خیال کر کے اُسے صرف اپنی خدمت کرانے کے لائق سمجھتا ہے۔ان نیچ لوگوں کو پاکستان میں اعلٰی مناصب اور اقتدار کے لیے بھی مناسب اور اہل نہیں سمجھا جاتا، صرف اونچی ذات والے ہی اقتدارکے اہل اور اعلیٰ مناصب کے قابل سمجھے جاتے ہیں۔ نچلی ذاتوں والے صرف ووٹر ہوتے ہیں وہ الیکشن میں بطور امیدوارسامنے آنے کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ اسکے علاوہ انہیں محکمہ مال میں بھی زمین پر مالکانہ کے وہ حقوق حاصل نہیں جو بڑی ذات والوں کو حاصل ہیں۔رشتوں اور دیگر معاشرتی معاملات میں بھی ہر دو طبقات الگ الگ ہیں۔ اسطرح ہر بڑی ذات والا چھوٹی ذات والے کو حقیر اور ذلیل سمجھ کر نفرت کرتا ہے اور انہیں اس قابل نہیں سمجھتا کہ انہیں ساتھ بٹھایا جائے یا ان کے ساتھ بیٹھا جائے۔اسی طرح ہر چھوٹی ذات والا بڑی ذات والے کو مغرور اور متکبر سمجھ کر اس سے نفرت کرتا ہے اس طرح کی تفریق اور اونچ نیچ جس معاشرے میں بھی پائی جائے گی وہ کسی طور بھی اسلا می معاشرہ کہلانے کا حقدار نہیں ہو سکتا۔کیونکہ اسلام کا طرہء ا متیاز ہی مساوات ہے ، امتیاز نہیں ہے۔الغرض یہاں ہر دو طبقات کے درمیان نفرت اور کشمکش کا ایک مستقل سلسلہ جاری ہے جس نے نہ صرف قومی وحدت کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر عملی طور پر پاکستان کو بھی دو لخت کر رکھا ہے ۔

قومی زبان : اردو ہماری قومی زبان ہے۔کہا جاتا ہے کہ زبان کی ترقی معاشرے اور قوم کی ترقی ہوتی ہے ۔ زبان ایک پیمانہ ہے جس سے قومی ترقی کی پیمائش بھی کی جا سکتی ہے جتنی کسی قوم کی زبان ترقی یافتہ ہو گی اْتنی ہی وہ قوم بھی ترقی یافتہ سمجھی جائے گی۔اس کی وجہ ہے اگر قومی زبان باریک اور اعلیٰ خیالات کو احسن طریقے سے ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو نہ صرف یہ کہ افراد انفرادی سطح پر باہمی ایک دوسرے سے اچھے طریقے سے گفتگو نہیں کر سکتے بلکہ قومی امور پر بھی اچھے طریقے بحث مباحثہ نہیں ہوسکتا ، اس طرح قومی مسائل کا نہ تو عوام تک ابلاغ ہو پاتا ہے ، نہ انہیں سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے ، لوگ انفرادی و اجتماعی سطح پر قومی امور کے بارے میں گونگے ہوتے ہیں ۔ الغرض قومی زبان کو نظر انداز کرنا قومی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کے ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ مؤثر تدریس صرف مادری زبان ہی میں ممکن ہے۔لیکن ان ارباب اختیار کا کیا کریں جو انگریزی کی زْلفوں کے اسیر ہیں اور انگریزی کی تدریس اور انگریزی میں تدریس کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔انگریزوں کی تو یہ ضرورت تھی کیونکہ انہیں عوام اور حکمران کے درمیان ایک فاصلہ رکھنا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی ہمارے حکمران طبقہ کی یہی ضرورت ہے؟ قیام پاکستان کے وقت اردو کو ہماری قومی زبان قرار دیا گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے اب بھی اردو اپنے دیس میں پردیسن ہے، جس کے بارے میں قائد اعظم نے فرمایا تھا " اردو آپ کی قومی زبان ہے اور یاد رکھیں اگر اس سلسلے میں کوئی آپ کو گمراہ کرنا چاہے تو وہ آپ کا کھلا دشمن ہے"۔ اردو کے بارے میں 1973ء کے آئین میں قوم سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ چند سالوں میں اسے قومی زبان کے طور پر دفتری زبان بنا دیا جائے گا لیکن اس کی بجائے بتدریج انگریزی زبان کا اثر و نفوذ اورعملی نفاذ بڑھتا چلا گیا ، پہلے پہل تدریسی کتب میں اردواصطلاحات کے ساتھ ساتھ انگریزی اصطلاحات داخل کی گئیں لیکن پھراگلے مرحلے میں اردو اصطلاحات کو نکال باہر کیا گیا اور انگریزی اصطلاحات ہی کو اردو میں لکھا جانے لگا۔ پھر حال ہی میں سرکاری سکولوں میں انگریزی کے علاوہ ریاضی اور سائنس کو بھی مکمل طور پر انگریزی میں پڑھایا جانے لگا ہے۔ پہلے پہل انگریزی کو چھٹی جماعت سے پڑھایا جاتا تھا تا کہ طلبہ کے بنیادی تصورات مادری زبان میں تشکیل پا جائیں اور پھر انہیں ثانوی زبان پڑھائی جائے تا کہ طلبہ زبان کے تہذیبی و ثقافتی اثرات سے بھی کم سے کم متاثر ہوںلیکن اب انگریزی زبان پہلی جماعت سے پڑھائی جانے لگی ہے۔ یہ اُسی غلامانہ رویے کا عملی اظہار اور تسلسل ہے کہ آج کا پڑھا لکھا نوجوان اردو زبان کی بجائے انگریزی زبان کو ترجیح دیتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ خالصتاً کسی ایک یعنی انگریز ی یا اردو زبان میں اظہار خیال کے قابل بھی نہیں۔ وہ پہلے اردو میں بات شروع کرتا ہے ، پھر بات کو مؤثر بنانے کے لیے انگریز ی کا سہارا لیتا ہے لیکن جب وہ انگریزی سے بھی اپنا دامن تنگ پاتا ہے تو پھر اردو میں پناہ لیتا ہے الغرض اس دو رُخی کی وجہ سے اُس میں مافی الضمیر کو بیان کرنے کی وہ صلاحیت ہی پیدا نہیں ہو پاتی جو حیوان ناطق ہونے کے ناطے سے اس میں ہونی چاہیے۔مجھے بحیثیت زبان انگریزی پڑھانے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن یہ ذہن میں رہے کہ کوئی بھی زبان سیکھنا محض زبان سیکھنے تک محدود نہیں رہ سکتا کیونکہ زبان اپنے بولنے والوں کی تہذیب و ثقافت سے سیر شدہ ہوتی ہے اور سیکھنے کے دوران یہ عناصر قدرتی طور پر سیکھنے والوں میں سرایت کرتے چلے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے بطور مسلمان کیا ہم اُس تہذیب و ثقافت کے متحمل ہو سکتے ہیں جو انگریزی زبان سے وابستہ ہے؟ ہمارے طلبہ پیدائش سے لے کر پہلے مادری زبان سیکھتے ہیں ، پھر وہ مذہبی شناخت اور عبادت کے لیے عربی سیکھتے ہیں ، پھر انہیں اردو بطور قومی زبان سیکھنا پڑتی ہے ، پھر انہیں بین الاقوامی زبان انگریزی سیکھنا پڑتی ہے ، تو زبانوں کی ان بھوْل بھلیوں میں ان کی تمام صلاحتیں اور توانائیاں صرف ہو کررہ جاتی ہیں اور وہ زبان دانی ہی کو علم کی معراج سمجھ کر ساری زندگی اسی کی زلفیں سیدھی کرتے رہتے ہیں اور حقیقی علم کی سرحد میں داخل بھی نہیں ہو پاتے کیونکہ زبان علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے، بذات خود مقصد نہیں۔

قوی لباس :زبان کے بعد لباس کسی قوم کی پہچان ہوا کرتا ہے ہمارا قومی لباس شلوار قمیض قرار دیا گیا ہے لیکن اب ہمیں شلوار قمیض پہنتے ہوئے شرم آتی ہے کہ کہیں لوگ ہمیں پتھر کے زمانے کا نہ سمجھنا شروع کر دیں۔ ہم لوگ قومی سطح پر احساس کم تری کا شکار ہیں ، ہمیں یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ جو چیز اپنی ہوصرف اْسی پر فخر کیا جا سکتا ہے۔یہی وہ لباس ہے جو ہماری موسمیاتی ضرورتوں سے عین مطابق اور ہماری مذہبی اقدار کے بھی ہم آہنگ ہے۔ اب یہ دیکھنے میں آ رہا ہے شلوار قمیض کی بجائے مغربی کلچر کے زیر اثر نوجوانوں میں ایک Trouser Culture فروغ پا رہا ہے۔شلوار قمیض کی بناوٹ میں شرم و حیا کا جو پہلو مدنظر رکھا گیا ہے وہ پینٹ شرٹ میں نہیں ہے۔شلوار قمیض میں ایک پردہ اور وقار ہے اس لباس سے اعضاء کی بناوٹ اور خدو خال نمایاں نہیں ہوتے نتیجتاً ذہن برائی کی طرف مائل نہیں ہوتا کیونکہ نفس کو جو چیز پیش ہی نہ کی جائے نفس اس طرف راغب نہیں ہوتا۔ پینٹ شرٹ نہ صرف ہماری فطری ضرورتوں کو پورا کرنے میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے بلکہ مذہبی رسومات ادا کرنے میں بھی رکاوٹ بنتی ہے۔
قومی پھول: چنبیلی ہمارا قومی پھول ہے۔لیکن چنبیلی کے لیے قومی پھول ہونا ایک طعنہ بن کر رہ گیا ہے کیونکہ چنبیلی کوبطور قومی پھول ہونے کے کوئی نہیں جانتا اور نہ اسے وہ اہمیت حاصل ہے جو بطور قومی پھول کے اسے حاصل ہونی چاہیے تھی۔ سارا زور گلاب اور ساری توجہ گلاب کو حاصل ہے۔اب چنبیلی بزبان حال یہ کہہ رہی ہے کہ؎
پتا پتا بْوٹا بْوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گْل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

قومی جھنڈا: اسی طرح قومی جھنڈا دیکھ کر کبھی خون گرم ہو جایا کرتا تھا، طبیعت جوش سے بھر جاتی تھی اور بطور پاکستانی ہمارا سر فخر سے بلند ہو جایا کرتا تھا۔اب وہ بھی شرمندہ شرمندہ سا نظر آتاہے اور ہم بھی اس سے آنکھیں چراتے ہیں کیونکہ دنیا کے سامنے بطور قوم ہم نے جس طرح اپنا آپ پیش کیا ہے وہ کسی طور قابل فخر نہیں۔ بطور پاکستانی کوئی ہم پر اعتبار کرنے لیے تیار نہیں، ہم شدت پسند اور جاہل قوم تصور کیے جاتے ہیں سبز پاسپورٹ جو کبھی عزت و فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے آج ہم اس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں ہم بطور پاکستانی پہچان نہ لیے جائیں ۔ لیکن ان ساری باتوں کے ہم اندر اور باہر سے پاکستانی ہیں ، یہی ہماری اصل اور یہی ہماری پہچان ہے تبھی تو جب بھی کوئی قومی تہوار آتا ہے تو کہیں سے دبی دبی آواز میں اب بھی یہ گونج سنائی دینے لگتی ہے
ہمارا پرچم ، پیار ا پرچم
یہ پرچموں میں عظیم پرچم
عطائے ربِ کریم پرچم

قومی پھل: آم پاکستان کا قومی پھل ہے اور واقعتاً آم کبھی عام بھی ہوا کرتے تھے لیکن اب تو آم بھی اتنے عام نہیں رہے بلکہ کافی حد تک خاص ہو گئے ہیں کیونکہ جب سے یہ زرِمبادلہ زرِ مبادلہ کا شور اٹھا ہے آم عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہو کر صرف خاص لوگوں کی پہنچ تک محدود ہو گئے ہیں۔ آم سارے باہر والے چْوپ جاتے ہیں اور یہاں کا عام آدمی صرف آموں کو دیکھتا رہ جاتاہے اور قومی پھل ہونے کے ناطے ان کا احترام ہی کر سکتا ہے انہیں کھا نہیں سکتا۔وہ جو غالب نے کہا تھا کہ آموں میں دو خوبیاں ہوں تو کھانے کو دل چاہتا ہے کہ ایک تو میٹھے ہوں اور دوسرا زیادہ ہوں یہ بات غالب کے دور تک محدود تھی اب تو؎
کس زمانے کی بات کرتے ہو
دل جلانے کی بات کرتے ہو

قومی کھیل : ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے لیکن اب پروفیشنلزم کا دور ہے ، ہر چیز حتیٰ کہ کھیل بھی کمرشلائز ہو گئے ہیں اور نہ صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ بلکہ سیاسی ٹُول کے طور پر بھی استعمال ہونے لگے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہاکی کو کرکٹ نے اتنا دبا یا ہوا ہے کہ اس کا دم گھْٹ کر رہ گیا ہے، اور اب یہ ہاکی قومی کھیل کے طور پراپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ارباب اختیار بھی اس انتظار میں ہیں کہ یہ کھیل مسلسل نظر انداز کیے جانے کی پاداش میں اپنی موت آپ مر جائے تو وہ کرکٹ ہی کو قومی کھیل قرار دیں یا پھر نئی نسل خود بخود ہی ہاکی کو نظر انداز کیے جانے اور مسلسل کرکٹ دکھانے کی وجہ سے کرکٹ ہی کو اپنا قومی کھیل سمجھنا شروع کر دے گی۔

قومی پرندہ : چکور جو ہمار اقومی پرندہ ہے اسکے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ چاند کا عاشق ہے اور چودہویں کا چاند جب اپنے حسن و جمال کے جلوے بکھیرتا ہے تو یہ بے خود ہو کر چاند کی طرف محوِ پرواز ہو جاتاہے اور پھر اڑتے اڑتے چاند تک پہنچنے کی لگن میں بالآخر بے ہوش کر گر جاتا ہے لیکن ارضِ وطن پاکستان میں ہم نے جب سمجھا کہ چکور بھی ان پرندوں میں شامل ہے جن کی بقا پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے تو ہم نے قومی احساس فرض کی وجہ سے کئی اسلحہ بردار محافظوں کو اس کی حفاظت کا ذمہ سونپ دیا لیکن چکور اپنی فطری معصومیت کی وجہ سے فوراً یہ جان گئی کہ جو قوم خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتی وہ کسی اور کی حفاظت کیا کرے گی۔ یہ قوم ایک ایسی باڑ کی مانند ہے جو اپنی فصل کو خود ہی کھا جاتی ہے لہذا جب چکورنے اندر کے راز کو سمجھ لیا تو پھر ہوش آنے کے بعد پھر سے چاند کی طرف محوِ پرواز ہو گئی۔ اب سنا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح چاند پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئی ہے اور وہاں سے ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے۔

قومی جانور: مار خور ہمار ا قومی جانور ہے۔اس قوم نے جو حال اپنے آپ سے ا ورقومی اداروں سے کیا ہے اس کو دیکھ کر یہ معصوم جانور ڈرا ہوا اور سہما ہوادُم دبا کر ایسا بھاگاہے کہ کسی جنگل میں جا کر چھپ گیا ہے اور اگر جنگل میں بھی اچانک کسی انسان کو دیکھ لے تو بڑی رحم طلب نظروں سے اْس کی طرف دیکھنے لگتاہے اور اگر اپ اسے یہ کہیں میاں مارخور آپ تو ہمارا قومی اثاثہ ہو ہم آپ کو خراج عقیدت پیش کرنے آئے ہیں تو وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور جاتے جاتے کہہ جاتا ہے کہ جو قوم اپنے ریلوے کو، پی آئی اے کو ، سٹیل مل اورواپڈا جیسے اداروں کو کھا گئی ہے مجھے تو وہ ہڈیوں سمیت کھا جائے گی۔

قومی دریا: دریائے سندھ جو ہمارا قومی دریا ہے وہ ہماری بے حسی اور بے بسی کا ماتم کرتا نظر آتاہے اس کی سطح پر اٹھتی ہوئی لہریں پکار پکار اس الزام سے اپنی برأت کااظہارکر تی سنائی دیتی ہیں کہ آج اگر یہ ملک لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے ،آج اگر یہ دھرتی کے لب پیاس کی وجہ سے خشک ہو رہے ہیں اور فصلیں پانی کی بوند بوند کو ترستی رہی ہیں، تو اِس میں اْن کا کوئی قصور نہیں۔تم صوبائی اخوت کی بجائے صوبائی عصبیت کا شکار ہو گئے ، خون تمہارا سفید ہوگیا ہے، تم اختلاف و افتراق کا شکار ہو کر ڈیم نہیں بنا سکے ، تم سیاسی مفادات کا شکا ر ہو کر اور غیروں کا آلہ کار بن کر آبی ذخائر تعمیر نہیں کر سکے ، میں نے تو اپنی موج کی طغیانیوں میں کوئی کمی نہیں کی۔ سب کچھ ہوتے ہوئے کالا باغ ڈیم نہیں بنا سکے اور اپنی دھرتی کو لوڈ شیڈنگ سے کالا کررکھا ہے، فطرت نے پچھلے سال تمہارے اْس سوال کا بھی جواب دے دیا تھا جو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں اٹھا یا جاتا ہے کہ کالا باغ ڈیم بننے کی صورت میں نوشہرہ ڈوب جائے گا ، وہ تو پھر بھی ڈوب گیا حالانکہ تم نے کالا باغ ڈیم نہیں بنایا تھا اسکے باوجودبھی اگر تم فطرت کی زبان نہیں سمجھو گے تو پھر؎
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کی پار ہو یا درمیاں رہے

قومی درخت : دیودار جو کہ ہمارا قومی درخت ہے اس نے بھی قومی اثاثوں کی طرف قوم کایہ رویہ او ر سلوک دیکھا تو سمٹ کر کہیں دوردراز کے کسی جنگل میں گوشہ نشیں ہو گیا ہے۔

قومی ہیروز: یہی حال ہمارے قومی ہیروز کا ہے وہ بھی مسلسل نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے ماضی کے اندھیروں میں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ اب خالد بن ولید ،سلطان صلاح الدین ایوبی، شہاب الدین غوری ، ٹیپو سلطان اور علامہ اقبال وغیرہ کواس خدشے کے باعث کتابوں اور نصابوں سے نکال باہر کیا گیا ہے کہ کہیں دنیا اس وجہ سے ہمیں دہشت گرد نہ سمجھنے لگے۔ اب ان کی جگہ فلمی ہیروز اور کرکٹ ہیروز کودے دی گئی ہے اور نئی نسل کو بتا دیا گیا ہے کہ اب یہی تمہارے اصل ہیروز ہیں اب یہی قوم کے نوجوانوں کے آئیڈیل ہیں۔اُنہیں اب اِنہی ہیروزکے قالب میں اپنے آپ کو ڈھالنا ہو گا۔اس پالیسی کا ثمر نئی نسل میں نظر بھی آنے لگا ہے کہ مردوں میں نسوانیت اور عورتوں میں مردانہ پن نظر آنے لگا ہے۔ یہی حال ثقافتی سطح پر بھی ہے۔ اب بسنت ، ویلنٹائن ڈے جیسی سرگرمیوں کو میڈیا میں زیادہ پروجیکشن ملتی ہے۔ نوجوانوں کو بھی ان میں زیادہ جوش و خروش اور ہلہ گلہ نظرآتاہے اور وہ بھی لا شعوری طور پر اسی رنگ میں ڈھلتے چلے جا رہے ہیں۔

قومی ترانہ : "پاک سر زمین شاد باد" ہمارا قومی ترانہ ہے۔ قومی ترانہ بھی قوم کے اتحاد و اتفاق کی علامت ہوا کرتا ہے، اس کے الفاظ و خیالات اور اس کا آہنگ و ترنم قومی جذبات اور امنگوں کا ترجمان ہوتا ہے۔ قومی ترانہ الوداعی کلمات بن کر ہمیں کہتا ہے کہ جاؤ اب تمہارا اللہ ہی حافظ ہے ، چاند اور تارا ہماری حالت پہ حیران و پریشان ہے کہ میں تو ان کی آزادی کی علامت تھا یہ کیوں غیروں کے غلام بن کراور ان کے دست نگر بن کر رہ گئے ہیں ، ان کی خود داری و آزادی کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ یہ تو وہ قوم تھی جسے دنیا کی قوموں کی امامت کرنا تھی اب یہ کیوں مقتدی بن کر ہاتھ باندھے غیروں کے در پر کھڑے ہیں۔ نیشنل موٹو تو اب لطیفہ بن گیا ہے جب کوئی دقیانوسی دور کا شخص ایمان، اتحاد اور تنظیم کی بات کر تا ہے تو بے ساختہ ہماری ہنسی نکل جاتی ہے کیونکہ ایمان کی روشنی ماند پڑچکی ہے ، اتحاد پارہ پارہ ہو چکا ہے اور تنظیم ، انتشار میں بدل چکی ہے ۔ان للہ و انا الیہ راجعون ط اب جبکہ قومیت کے یہ سارے عناصر بکھر کر رہ گئے ہیں تو قوم کو کہاں تلاش کریں۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزاء کا بکھر جانا

Afzaal Ahmed
About the Author: Afzaal Ahmed Read More Articles by Afzaal Ahmed: 4 Articles with 7776 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.