ذرائع ابلاغ کسی بھی معاشرے کا چوتھا ستون گردانا چاتا ہے۔
اس بات کا احساس اور علم ہماری عوام کو سب سے زیادہ ہے۔ چند برسوں میں
ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہونے والے معاملات سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے
باعث عوام اخبارات اور ٹی وی چینل سے زیادہ سوشل میڈیا پر اپنا وقت سرف
کرتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بھی سوشل میڈیا کی یہی صورتحال ہے۔ عالمی
توجہ حاصل کرنے والے متعدد مسائل اسی سوشل میڈیا کا ذریعہ بنے ۔ اس عمل کے
بعد ہی اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں نے ان مسائل کے حل کیلئے اقدامات کئے۔
وکی لیکس سے لے کر پانامہ لیکس تک ، رونما ہونے والی صورتحال سے سب واقف
ہوچکے ہیں۔
تاہم اس شعبے میں منتظمین کے اقدامات قابل مذمت بنتے جارہے ہیں۔ عالمی سطح
کے مسائل سے لے کر کسی بھی ملک کے حالات و دیگر معاملات ہوں ، انسانوں کے
ظلم و زیادتی کے حالات ہوں یا قوم و انسانیت سوز واقعات ہر جگہ پر ہر موقع
پر اس سوشل میڈیا کے منتظمین اپنے کردار سے ہی یہ ثابت کردیتے ہیں کہ وہ اس
معاملے یا کسی بھی معاملے میں کس جانب ہیں۔ ان کا جھکاؤ کس سمت ہے اور اسی
کے مطابق وہ اپنا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس میدان میں
بھی یہودی و عیسائیوں سمیت ان کے دیگر ہم خیال وہمنوا مسلمانوں کو کے خلاف
مل کر اک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کا کردار ادا کرتے ہیں اور یوں سب مل کر
اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ مسلمانوں کا
المیہ ماضی بھی یہ رہا ہے جس پر وہ تاحال جاری بھی ہیں کہ ان میں اتفاق
نہیں ہوپاتا ہے ، کسی بھی شعبے میں ان کے درمیان ایک نقطے پر متفق ہوجانا
اک طویل اور صبر آزما سمیت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ موجودہ حالات پر ہی نظر
ڈالی جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ عالمی قووتیں مل کر اپنے مذموم کے حصول
کیلئے مسلمانوں کے انفرادی اور اجتماعی سطح پر ان کے خلاف کام رہی ہوتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی منافقت کا تو معاملہ یہ ہے کہ 200سے زائد ممالک اس کے
اراکین ہیں تاہم اس نے آج تلک متعدد ایسے مسائل کو حل کرنے میں کوئی کلیدی
کردار ادا نہیں کیا جن کا تعلق مسلمانوں سے وابستہ ہویا دوسرے لفظوں میں جن
سے براہ راست مسلمان متاثر ہورہے ہوں۔ کشمیر ،فلسطین، افغانستان، بوسنیا ،
عراق، شام سمیت دیگر متعدد غیر اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا
جانے والا سلوک اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم ان کے ذہنوں کی عکاس ہیں ۔
تاہم اس قدر مظالم کے باوجود اقوام متحدہ سمیت سوشل میڈیا کے منتظمین اپنی
منافقت کی روش پر فخر کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔
کشمیر میں بھارت کے 7لاکھ سے زائد فوجی ہیں اور ان فوجیوں سمیت بھارت کی را
و دیگر حفیہ ایجنسیوں کے اہلکار اور ان کی کاروائیاں اک طویل مدت سے جاری
ہیں۔ بھارت میں علیحدگی کی متعدد تحریکیں جاری ہیں لیکن ان میں کشمیر کا
معاملہ یکسر مختلف ہے۔ قیام پاکستان سے تاحال انہیں حق خودارادیت نہیں دیا
گیا اور نہ ہی ان کی آواز پر کوئی قدم اٹھایا گیا ہے ۔ بھارت کے انسانیت
سوز مظالم اک طویل ڈرامہ سیریل کی طرح جاری و ساری ہے اور نجانے کب تک جاری
رہے گی۔ آج حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہر دوسرا گھر اک
شہید کا گھر بن چکا ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر مظالم کے مظلومین کی لامحدود
تعداد الگ ہے۔ بہنوں ، بیٹیوں کی وہاں پر عصمت دری ہوتی رہی ہے اور یہ
ظالمانہ عمل تاحال جاری و ساری ہے۔ قابل مذمت ہے اقوام متحدہ، اسلامی ممالک
کی تنظیم اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تمام عالمی اور ملکی سطح پر
کام کرنے والی این جیوز کا کردار جو کہ برسوں سے بھارتی مظالم پر تاحال منہ
بند کئے بیٹھے ہیں اور زیادہ ظلم کی صورت میں چند جملے ادا کرکے ، اور کوئی
سا بھی چوٹھا مظاہرہ کرکے اپنے ہونے کا یقین دلاتے ہیں اور مظلومین کو یہ
احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس مرحلے پر وہ تنہا نہیں ہیں۔
کشمیر میں برسوں سے تحریک آزادی جاری ہے ، وطن عزیز کا ہر بچہ اس تحریک میں
کشمیری عوام کے ساتھ ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ اس حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار
اکثر و پیشتر کرتے رہتے ہیں۔ ان کے اس عمل کو بارت گہری تشویش کی نگاہ سے
دیکھتا ہے ، اس عمل کو تو وہ دیکھتا ہے لیکن قابل نفرت ہے ان کا یہ عمل کہ
وہ اپنے ڈھائے جانے والے مظالم کو نہیں دیکھتا ہے۔ جماعتہ الداواء کے امیر
حافظ سعید کو صرف اس بات پر بھارتی ایما کے باعث پابند سلاسل کر دیا جاتا
ہے کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ 2017کا سال کشمیر کا سال ہے۔ یہ عمل بھی
حکومت کا نہ سمجھ آنے والا عمل ہے۔ جماعتہ الداواء کا ہر کارکن اور اس مادر
ملت کی پوری عوام حافظ سعید کو آزاد دیکھنا چاہتی ہے اور اسی طرح پوری
پاکستان کی عوام سمیت دنیا کی عوام کشمیر میں بھارتی مظالم کا خاتمہ اور اس
کی آزادی دیکھنا چاہتے ہیں ۔سبھی کو اس بات کا یقین ہے کہ جلد وہ وقت آئیگا
کہ جب کشمیر میں آزادی ہوگی اور وہا ں انسانیت سوز مظالم کا دور ختم ہوجائے
گا اس وقت سوشل میڈیا کشمیر کی حوبصورت وادی کی عکاسی میں لگ جائے گا اور
اپنے ماضی کے کردار کو ایک جانب رکھ کر اپنے نئے مقاصد کے حصول میں مصروف
عمل ہوجائے گا۔
فیس بک کی انتظامیہ سمیت سوشل میڈیا کے تمام ذرائع بھی اس وقت انسانیت سوز
مظالم میں بھارت کی خوشنودی کو حاصل کرنے کیلئے ان کی صفوں میں شامل ہوگئے
ہیں۔ کشمیری عوام کے ہاتھوں بھارتی و اسرائیلی اور ان کے ساتھ امریکہ و
مغرب کا جنازہ ہی اس بات کو سمجھا جانا چاہئے کہ ، سات لاکھ بھارتی فوجی
اور درج بالا ممالک کی منصوبہ بندی بھی کشمیر کی آواز کو دبا نہیں پایا ہے۔
برہان وانی کی یوم شہادت کے روز مقبوضہ کشمیر میں انٹر نیٹ سروس کو بند کر
دیا گیا اور اس کے ساتھ جنہیں بھی نیٹ کی سہولت حاصل ہوپائی اور انہوں نے
اپنے جذبات کا اظہار کیا ، برہان وانی کی تصاویر لگائیں ، انہیں لائک کیا
ان پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا تو سوشل میڈیا نے ان کے اکاؤنٹس کو معطل تک
کردیا ۔ یہی طرز عمل وطن عزیز پاکستان میں بھی اپنایا گیا ۔ لاہور ، کراچی
سمیت ملک کے بیشتر شہروں میں فیس بک کی انتظامیہ نے بھارت کو خوش کرنے
کیلئے اپنا طرز جاری رکھا اور اس روز ہزاروں فیس بک اکاؤنٹس کو منجمد و
معطل کردیا گیا ۔ فیس بک کا ریجنل دفتر بھارت میں ہونے کے باعث فیس بک کی
انتظامیہ نے اپنے مفادات کی خاطر پورا حق ادا کیا ۔بھارتی افواج کے ہاتھوں
کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کو چھپانے کیلئے انہوں نے فیس سمیت
دیگر سوشل میڈیا ذرائع کو بھی وقت طور پر معطل کئے رکھا ۔ان کا یہ منافقانہ
عمل انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کو کیونکر نظر نہیں آیا اس کا
جواب تو وہی دے سکتے ہیں ۔ لیکن ان کے اس عمل سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہ
این جی اووز بھی بھارت کے حامی و ناصر ہیں۔ یہ لمحہ بھی قابل فکر ہے کہ ملک
کے اندر انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں تک نے کوئی آہ و بقا نہیں
کی ۔
بھارتی فوجی آنکھوں پر پٹی باندھے کشمیری عوام کے ساتھ انسانیت سوز مظالم
جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ نوبت تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ انہین اب کشمیری عوام
پر ظلم کرنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں ہوتی ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سوشل
میڈیا دنیا میں کسی بھی جگہ کسی جانور کے ساتھ بھی ظلم ہوجانے پر سراپہ
احتجاج بن جاتا ہے ، اس وقت انسانیت کا ضمیرجنجھوڑنے کی پوری کوشش کرتا ہے
لیکن نہیں معلوم کہ وہ کشمیر کے حالات میں ایسا طرز کیونکر اختیار کرتا ہے۔
ٹوئٹر کے اکاؤنٹس ہوں ، ایمو کے ، واٹس ہوں یا کوئی بھی اور سوشل میڈیادیگر
ذرائع سبھی انسانیت سوز مظالم میں بھارت کے ہمنوا اور ہم خیال بن چکے ہیں۔
تاہم ان تمام کے باوجود یہی سوشل میڈیا اور یہی انسانیت کے علمبردار ممالک
و این جی اووز وہ وقت جلد دیکھیں گے کہ جب یہی کشمیر آزاد ہوگا ۔ وہاں کی
عوام اپنی زندگی کو آزادنہ انداز میں گذاریں گے اور خوبصورت کشمیر انہی
سوشل میڈیا کا موضوع بنا ہوگا ۔ انہیں اس وقت دنیا کا خوبصور ت ترین علاقہ
یہی کشمیر لگے گا اور یہی سوشل میڈیا یہ چاہے گا کہ دنیا بھر کی عوام ان کی
معاونت سے کشمیر کے چپے چپے پر جائیں اور وہاں کی خوبصورتی کو اپنی آنکھوں
سے دیکھیں۔ حافظ سعید بھی آزاد ہونگے اور پاکستان کی پوری عوام کشمیر یوں
کے ساتھ ساتھ ہونگے ۔ پھر سوشل میڈیا کی یہ منافقت نہیں رہے گی اور نہ ہی
بین الاقوامی اداروں کی یہ خاموشی یونہ رہے گی۔ ہاں جہد مسلسل سے ایسا وقت
جلد آئیگا اور ضرور آئیگا ۔ ان شاء اﷲ
|