تحریر: محمد طلحہ، کراچی
انسان کی تہذیب و تمدن سے رشتہ اتناہی پرانا ہے جتنا انسان کی تاریخ
کاہے۔کیسی بھی ملک کے عجائب گھر وہاں کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کی عقاسی
کر تے ہیں۔ایساہی ایک عجائب گھر کراچی کے شہرمیں نیشنل میوزیم آف پاکستان
کے نام سے قائم ہے۔جہاں مختلف قسم کی تاریخی نایاب اشیااور نواردات رکھے
گئے ہیں۔اس میوزیم کی خاصیت یہ ہے کہ یہ پورے ملک کی ثقافت کی عقاسی کر تا
ہے۔نیشنل میوزیم آف پاکستان 1951ء کو تاریخی عمارت فریئر ہال میں قائم
کیاگیا تھا بعدمیں حکومت سندھ کی طرف سے اس کی اہمیت کودیکھتے ہوئے اس کے
لیے ایک بلڈنگ مختص کر دی اب کراچی کے برنس گارڈ ن کے احاطے میں 1969ء سے
قائم ہے۔ نیشنل میوزم پورے پاکستان کی ثقافت کی اہمیت کو اجاگر کر تاہے۔
جہاں پتھر کے دورسے لے کرقیام پاکستان تک کے صدیوں پرانی نادر اشیا رکھی
گئی ہیں۔
یہ میوزیم تاریخی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مگر جس قدر یہ اہمیت رکھتا
ہے ویسی اس کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ کراچی میوزیم کی اہمیت اس طرح سے بھی
جانی جاسکتی ہے کہ یہ کراچی کے وسط میں قائم ہے اور آس پاس تعلیمی اداروں
جن میں ایس ایم لا کالج، ڈگری کالج، ڈی جی کالج اور کچھ ہی فاصلوں پر واقع
سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی ، وفاقی اردو یونیورسٹی عبد الحق کیمپس ہیں
تاہم اسے اس طرح نظراندازکردیا گیا ہے کہ میں کراچی میں19سال سے رہ رہا ہو
لیکن میں نے نیشنل میوزیم آج پہلی دفعہ دیکھا۔ نہ تو ہمارے اسکول کی طرف سے
ہمیں اس کے بارے میں آگاہ کیا نہ تو کالج کی طرف سے اور نہ ہی یونیورسٹی نے
اس سے متعلق معلومات فراہم کیں اور نہ کبھی دیکھانے کا پروگرام بنایا۔
آج میرا اس کے سامنے سے گزرنے کا اتفاق ہوا تو دوست نے کہا کہ چلوں نیشنل
میوزیم دیکھ تھے ہیں۔نیشنل میوزیم کے گیٹ پر 20روپے ٹکٹ ادا کیا۔ میوزیم کے
سامنے پارک میں 4بچوں کے علاوہ میوزیم ویرانی کامنظر پیش کررہاتھا۔ میوزیم
میں داخل ہوئے تو ملازمین کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔
نیشنل میوزیم کی بلڈنگ میں داخل ہوئے تو پاک چائنہ دوستی سے متعلق چائنہ سے
منگوائی گئی ان کی مقامی ثقافت پر مشتمل ڈیزاننگ کے فریم سجائے جارہے تھے۔
جس کے متعلق وہاں پر موجود انتظامیہ کے ایک فرد عبدالحسیب نے بتایا کہ کچھ
دنوں بعد اس کی نمائش منعقد کی جائے گی جس کے لیے یہ تیاریاں کی جارہی ہیں۔
نمائش میں پاک چائنہ اقتصادی راہداری سے متعلق ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے
یہ تصویریں باقاعدہ طور پر نمائش کے لیے رکھی جائیں گے۔ جس میں پاکستان
سمیت چائنہ کے نمائندگان بھی شرکت کریں گے۔
عجائب گھر کی ’انڈس سویلائزیشن گیلری‘ میں پاکستان میں بسنے والے افراد کے
قدیم لائف اسٹائل کو دکھایا گیا ہے۔جس میں پنجابی، سندھی اور بلوچی طرز کی
ثقافت کو مجسموں کے ذریعے نمایاں کیا گیاہے۔ ایک جانب قدیم دور کے مصوروں
کے فن کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے،جو خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے۔ میوزیم
میں قرآن گیلری بھی بنائی گئی ہے۔ یہ گیلری اپنی مثال آپ ہے۔ انتہائی
خوبصورت خطاطی میں قرآن مجید کے نسخے محفوظ کیے گئے ہیں۔ ان میں تمام نسخے
مختلف ادوار کے تھے جن کے رسم الخط بھی الگ الگ ہیں۔
دوسری جانب لوہے کے نادر زیورات بھی رکھے گئے ہیں۔ ایک جانب کچھ ہتھیار کو
ان کی اصلی حالت میں نمایاں کیا گیا ہے۔ یہ وہ ہتھیار ہیں جو جنگ میں
استعمال ہوا کرتے تھے۔ اس میں تلواریں، زریں، تیر کمان، چاقو چھریاں ودیگر
سامان شامل ہے۔ نیشنل میوزیم کی ایک جانب قدیم سکوں کی گیلری بھی بنائی گئی
ہے جہاں چھ صدیوں پرانے چاندی، تانبے کے سکے اور مہریں رکھی گئی ہیں جو
پرانے زمانے میں استعمال ہوا کرتی تھیں جبکہ یونانی دور میں استعمال ہونے
والے نادر سکے بھی نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ان میں کچھ گول اور کچھ چکور
تھے۔
ایک اور گیلری میں ہڑپہ کے کھنڈرات سے ملنے والے مجسمے اور موئن جو دڑو کے
نوادرات رکھے گئے ہیں جسے دیکھ کر قدیم ثقافت و طرز زندگی کو یاد کیاجا
سکتا ہے۔ ادھر ہی گیلری میں گندھارا اور بدھ مت تہذیب کے مجسمے رکھے گئے
ہیں۔ قدیم زمانے کے بدھا مجسمے بھی گیلری کی زینت بنے ہوئے ہیں مٹی کے
مجسمے اور بدھ تاریخی اعتبار سے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ دوسری جانب تحر
یک آزادی گیلری میں قیام ِپاکستان کے وقت قائداعظم کو ملنے والے بیجز،
دستاویزات اور ان کی تصاویر رکھی گئی ہیں۔
ایک گیلری میں قدیم دور کے مختلف قیمتی پتھر وہاں سے برآمد ہونے والی
چھریاں، چاقو، برتن اور مٹکے بھی رکھے گئے تھے۔ جنہیں دیکھ کر وہاں کی
تہذیب کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ہم میوزیم سے جب باہر آئے تو 10افرادپر مشتمل
لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک گروپ میوزیم میں داخل ہو رہا تا۔ اس موقع پر جب
وہاں آنے والے کچھ وزٹر سے میری بات ہوئی تو ان کا کہناتھا کہ اس قدر
ویرانیت دیکھ کر ہمیں بہت مایوسی ہوئی۔ نیشنل میوزم عجائب گھر کی دنیا میں
اپنا ایک مقام رکھتا تھا تاہم اب یہ سب دیکھ کر نا صرف یہاں کے وزٹر بلکہ
اس سے کہیں زیادہ ثقافتی ورثے کے تحفظ کے دعوے داروں پر افسوس ہوتا ہے۔ بڑے
بڑے پروجیکٹ کے دعوے تو کیے جاتے ہیں مگر پرانی اور قدیم عمارتوں اور ثقافت
کا کسی کو بھی خیال نہیں ہے۔
میرا دورہ نیشنل میوزیم اگرچے طے شدہ نہ تھا تاہم اس کے باوجود مجھے بہت
کچھ معلومات ملیں۔ البتہ نیشنل میوزیم میں ویرانیت اور وہاں پر موجود اشیا
پر چڑھی گرد سے اندازہ ہوا کہ نہ تو اس قدیم ورثے کا ہمارے نوجوان طبقے،
کالج ، یونیورسٹیز کے طلبہ وطالبات اور انتظامیہ سمیت پورے کراچی کے لوگوں
کو کوئی خیال ہے اور نہ ہی وزرات ثقافت وتہذیب اس حوالے سے سنجیدہ دیکھائی
دیتی ہے۔ نیشنل میوزیم کی انتظامیہ کا بھی یہی رونا تھا کہ وہ سارا دن آنے
والوں کی راہیں تکتے رہتے ہیں تاہم کوئی بھی اس طرف کا رخ نہیں کرتا۔
انتظامیہ اور میری تمام کراچی کے ان طلبہ، تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور
والدین سے گزراش ہے کہ جنہیں اب تک اس بات کا علم نہیں تھا وہ ضرور یہاں کا
وزٹ کریں۔ جو جانتے ہوئے بھی کبھی نہیں آئے وہ بھی ایک بار ضرور آکردیکھیں
اور اپنے کسی معلوماتی فرد کو ساتھ رکھیں تاکہ انہیں گزرے ایام کا پتا چل
سکے۔ آج ہم اس قدر آسائشوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں اس کے باوجود ہمیں
نعمتوں پر گلے ہیں اگر ان ثقافتوں کی زندگیوں کو دیکھیں تو یقیناہمیں آج کی
نعمتوں کی بھی قدر ہوگی اور ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم کیا تھے اور اب کیا
ہوگئے ہیں۔ |