تحریر: عائشہ صدیقہ، سیالکوٹ
میڈیا دور حاضر کا ایک اہم ’’ہتھیار‘‘ ہے۔ اہمیت کے پیشِ نظر اسے ’’قومی
ستون‘‘ کا درجہ دینا بے جا نہ ہوگا۔ اس کے بنیادی مقاصد میں عوامْ النّاس
کو ہر طرح کی معلومات بہَم پہنچانا، تشہیر اور تفریح شامل ہیں۔ اس کے لیے
الیکٹرانِک میڈیا ، پرِنٹ میڈیا اور سوشَل میڈیا سبھی اپنا کردار ادا کر
رہے ہیں۔ میڈیا جدیدیت کا ایک اہم ہتھیار ہے کیونکہ جو ہمیں دکھایا جاتا ہے
وہ ہماری سوچ اور شخصیت پر گہری چھَاپ ڈالتا ہے۔ میڈیا عوام کے ذہنوں کو
کنٹرول کرتا ہے اور حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔ عوام
اپنے منتخب نمائندوں کی کارکردگی سے باخبر رہتے ہیں اور اس کے مطابق ردِ
عمل یا رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا گورنمنٹ اور دوسرے
اداروں کے کرپٹ سیاست دانوں کے اعمال سے پردہ اٹھا کر ان کی اصلیت عوام کو
دکھاتا ہے۔ میڈیا ہی کے توسط عوام اسٹیل مل 26 ملین ڈالر کرپشن، رینٹل پاور
کرپشن، حج کرپشن، پانامہ لیکس وغیرہ جیسے کیسز سے آگاہ ہوسکے اور ناخواندگی
کی بڑی شرح کے باوجود اس پر تنقید اور رائے دہی کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس طرح
رائے عامہ سے جمہوریت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
میڈیا نے تعلیم و ترقّی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ مختلف اداروں کی
تعلیمی ویب سائٹس، فارمز ، بلاگز فروغِ تعلیم کے لیے کوشاں ہیں۔ حالیہ
سالوں میں آن لائن لیکچرز کے ذریعے تعلیم و تَدریس کا رواج عام ہورہا ہے۔
سوشل میڈیا پر ’’رائٹرز کلب‘‘ جیسے صفحات اور گروپس عام لوگوں کے لکھنے کے
شوق کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ہونے والی نت نئی ایجادات
اور دریافتوں سے واقفیت ہمیں سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا کے برابر صف آرا
ہونے میں معاون ثابت ہوگی۔
مزید برآں ٹیلی وڑن پر اسلامی نشریات جن کا اہتمام بالخصوص ضیاء دور میں
کیا گیا کے ذریعے بہت سے اصلاحی اور تعمیراتی پروگرام نشر کیے گئے۔ جس سے
تفریح کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی معاونت ہوئی اور عام
لوگوں کو دینی احکامات و مسائل سے متعلق راہنمائی ملی۔ میڈیا کے ثقافتی
پروگرام اور کھیلوں کی نشریات قومی ہم آہنگی پیدا کرنے میں بھی اپنی اہمیت
کی حامل ہیں۔
میڈیا کی وساطت سے ہمیں دنیا میں موجود مختلف قوموں کی تہذیب، رسم و رواج،
تہوار، سیاسی و سماجی حالات و واقعات اور ملکی پالیسیوں کے متعلق علم ہوتا
ہے جس کے ذریعے ہم دوسرے ممالک کے ساتھ پرامن اور خوشگوار تعلقات استوار
کرسکتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے ہمیں بہت سے جرائم اور امراض سے آگاہی اور
حِفاظتی تدَابِیر بتائی جاتی ہیں۔ میڈیا کے ذریعے بہت سے ایسے موضوعات پر
روشنی ڈالی جاتی ہے جو اس سے پہلے تاریک تھے۔میڈیا کے ذریعے آن لائن خرید و
فروخت نے بھی ملکی معیشت پر مثبت اثر ڈالا ہے اور اشتہارات چلا کر بہت سے
مصنوعات کی خرید میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
جہاں میڈیا پاکستان کی فلاح و ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے وہاں
اس کے منفی نتائج بھی اتنی ہی قْوَّت سے اْبھر رہے ہیں۔ میڈیا نے ہماری
تہذیب و ثقافت اور زبان پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ کم علمی کے باعث اندھی تقلید
کے نتیجے میں ہم غیر ملکی تہذیب میں جذب ہوکر اپنی تہذیب کھو چکے ہیں۔ ہم
نے جہیز، مہندی وغیرہ جیسی بے شمار غیر اسلامی رسومات کو اپنے گلے کا طوق
بنا لیا ہے۔ فرینڈ شپ ڈے،ویلنٹائن ڈے، نیو ائیر وغیرہ جیسی خرافات کا زہر
میڈیا کے ذریعے ہی نئی نسل کے ذہنوں میں انڈیلا جارہا ہے۔ اولڈ ہاؤس کے
قیام اور خواتین آرڈینینس کے نام پر ہمارے مضبوط خاندانی نظام کو توڑنے کی
سعی جاری ہے۔ میڈیا کی طرف سے مغربی مصنوعات کے برانڈز کی تَشہیر، غیر ملکی
زبانوں اور کھانوں کی ترغیب نہایت خاموشی سے ہمارے معاشرے کی ثقافت پر اپنا
رَنگ جما رہی ہے۔
محض ریٹنگ کے حصول کے لیے ہمارا میڈیا جرائم کو جس طرح اْچھالتا ہے کہ
لوگوں کو اس سے جرائم کے طریقے پتا چلتے ہیں۔ جیسے کچھ عرصہ پہلے ایک مقتول
کی لاش جسے قتل کرکے گٹر میں پھینک دیا گیا تھا جیب میں موبائل کی وجہ ٹریس
کر لی گئی۔ مگر اب میڈیا کی نشاندہی کے باعث مجرم آئندہ اس بارے میں خاص
احتیاط کریں گے۔
میڈیا قوانین سے آگاہی کے ساتھ ، لاقانونیت کا بھی ذمہ دار ہے۔ غیر سزا
یافتہ مجرم جیسے ریمن ڈیوس وغیرہ کی خبروں کو ہوا دینے سے جرائم پیشہ لوگوں
کی حوصلہ افزائی ہوگی اور عوام میں حکومت کے لیے نفرت پیدا ہوگی۔ لوگ قانون
کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے۔ میڈیا نے سیاسی پارٹیوں کی حمایت
کرکے لوگوں کو سیاسی انتشار میں مبتلا کردیا ہے۔ بہت سے واقعات کی یک طرفہ
تصویر دکھا کر عوام کی طرف داری حاصل کرنا بھی میڈیا کا جرم ہے۔
بہت سے غیر تعمیری پروگرام اور تفریحی نشریات وقت کے ضیاع کا باعث بنتے
ہیں۔ پاکستان سوشل میڈیا خصوصاً انٹرنیٹ ، فیس بک نے بے راہ روی کو بہت
فروغ دیا۔ آئی ٹی پورٹل کے مطابق پاکستان میں انٹر نیٹ 1990 کی دہائی کے
آغاز سے موجود ہے۔ جون 2009 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 10۔4%
آبادی انٹرنیٹ استعمال کررہی ہے جس میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سائٹ
فیسبک ہے جس کے صارفین کے لحاظ سے سے 3۔4 ملین مرد اور 1۔6 ملین خواتین
صارفین کیساتھ پاکستان دنیا میں 26 ویں نمبر پر آتا ہے۔ اور ان فیسبکی
صارفین میں 76% صارفین کی عمر 18 سے 34 سال کے درمیان ہے۔ موبائل اور
انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والی دوستیوں نے معاشرے میں گرل فرینڈ اور بوائے
فرینڈ جیسے واحیات تصورات کو تقویت دی۔ انٹرنیٹ دوستی محبت کا شیطانی روپ
دَھارتی ہے تو ویلنٹائن ڈے ملاقات کا سنہرا موقع فراہم کرتا ہے۔ نتیجتا بہت
سی لڑکیاں لڑکوں کے ہاتھوں بلیک میلنگ سے تنگ آکر خود سوزی کرتی ہیں یا
اسمگل ہوجاتی ہیں۔ لہذا بڑھتے ہوئے زِنا اور بے حیائی میں انٹرنیٹ دوستی کا
بڑا ہاتھ ہے۔
میڈیا پر ہر خبر کو اچھالنے کے ساتھ ریٹنگ کے لیے مبالغہ آرائی سے کام لیتے
ہوئے کچھ خبریں رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کی جاتی ہیں۔ میڈیا کی بدولت رائے
عامہ نے فروغ پایا لیکن اس نے ہمیں غیر ضروری تبصروں کی عادت بھی ڈال دی
ہے۔ قتل و غارت کی وارداتوں، دھماکوں اور کرپشن وغیرہ کی مرچ مصالحہ لگی
خبروں سے میڈیا نے بین الاقوامی طور پر لوگوں کو پاکستان کا تا?َثر بطور
غیر محفوظ ملک دیا ہے۔ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ خبر کو اس طرح نشر کرے کہ
ملکی وقار خراب نا ہو۔ سیلاب، حملے ،دھماکے خونی مناظر کی خبریں بیک گراؤنڈ
میوزک کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں جس سے ڈرے سہمے عوام میں مزید اضطراب اور بے
چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ پاکستانی میڈیا کو چاہیے کہ غیر جانبداری سے کام کرے،
حقائق پر مبنی خبریں نشر کرے ۔ایسا کچھ بھی نا دکھایا جائے جو اسلام کے
احکام کے منافی ہو۔ |